بی جے پی کا ایجنڈہ انتخاب کی جیت سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایک زبردست اکثریت کے ساتھ جیت درج کرنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک کے بعد چار ریاستوں میں ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان چاروں ریاستوں میں بی جے پی کا ایک ہی فارمولہتھا-راشٹرواد، ہندوتوا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا زیادہ سے زیادہ استعمال۔ اس کی کمان سیدھے نریندر مودی اور امت شاہ کے ہاتھوں میں تھی جبکہ آدتیہ ناتھ اور کچھ مقامی رہنما معاون کرداروں میں تھے۔ لیکن پارٹی کہیں بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔
ہریانہ میں پارٹی کا مظاہرہ خراب رہا اور اس نے آناً فاناً میں کسی طرح سےجن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحادکرکے وہاں حکومت کی تشکیل کی۔ مہاراشٹر میں نتیجہ آنے کے بعد شیوسینا اتحاد سے باہر نکل گئی۔ یہاں ہم نے صبح ہونے سے پہلےدیویندر فڈنویس کو چوری چھپے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے کا تماشابھی دیکھا،حالانکہ اجیت پوار ضروری اعداد و شمار نہیں جٹا سکے۔
جھارکھنڈ میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس کو جیت ہوئی اور اب دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو کراری شکست دی ہے۔ اکثریت حاصل کرنے کی امیدلگائے بیٹھی پارٹی کو محض آٹھ سیٹوں سے ہی اطمینان کرنا پڑا۔
کوئی بھی پارٹی اپنی انتخابی حکمت عملی کا تجزیہ کرےگی اور کچھ نہیں توکم سے کم یہ قبول کر لےگی کہ ریاستی سطح پر رائےدہندگان کو صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ جیسی زندگی کو متاثر کرنے والے مدعوں کی زیادہ فکر ہے۔ اور اس کو یہ سمجھ میں آئےگا کہ کشمیر، شہریت (ترمیم) قانون (سی اے اے)اور ہندو مذہب پر نام نہادخطرے کی باتیں، رائےدہندگان پر ایک حد کے بعد اثر نہیں ڈالتیں۔
اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ آنے والے دو سالوں میں ہونے والے بہار،بنگال، آسام اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے اہم انتخابات کی بابت اپنی حکمت عملی کونئی شکل دےگی۔ لیکن بی جے پی ایسا نہیں کرےگی۔ اس کے حامیوں نے ابھی سے ہی کہنا شروع کردیا ہے کہ 2020 (دہلی) میں پارٹی کوپچھلی بار کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔
اور اس کے رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس کے ووٹ فیصد میں چھ فیصد سےزیادہ اچھال اس بات کا ثبوت ہے کہ سی اے اے کو مرکز میں رکھکر چلائی گئی مہم کواچھی حمایت ملی۔ اس لئے پارٹی آنے والے مہینوں میں اپنا راستہ نہیں بدلےگی۔یہ تجزیہ بی جے پی کے چشمے سے دیکھنےپر بھلے منطقی نظر آئے، لیکن اس کی اصلی وجہ کچھ اور ہے۔ کوئی بھی پارٹی اپنے کامیاب فارمولے کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرناپسند نہیں کرتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ بےحد خراب مظاہرہ کرنے کے باوجود بی جے پی مطمئن ہو۔
انتخاب جیتنا بی جے پی اور سنگھ پریوار کا واحد مقصد نہیں ہے۔ ایک جیت قابلِ خیرمقدم اور مددگار ہوتی، لیکن پھر بھی یہ آخری ہدف کی طرف بڑھایا جانےوالا ایک قدم ہی ہے۔سنگھ اس بات کو لےکر بالکل صاف ہے کہ وہ کہاں پہنچنا چاہتا ہے اور کیاحاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ مقصد ہے ایک ہندو راشٹر، جس کو ریاست کی طاقت، سرکاری مدد اور دیگر پوری طرح سے قانونی طریقوں کے اتفاق سے حاصل کیا جانا ہے۔
زمین پر ایک لگاتار چلنے والی نفرت سے بھری مہم اس میں مدد کرےگی۔ صرف مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنا یا ان کے حقوق چھیننا ہی اس حکمت عملی میں شامل نہیں ہے؛ ہدف ہے ان کو اس حد تک غیرانسانی ثابت کرنا کہ باقی ملک یہ قبولکر لے کہ یہ منصوبہ نہ صرف پوری طرح سے جائز ہے، بلکہ اصل میں ایسا کرنا بالکل ضروری ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ایک ماتحت وزیر کے ذریعے لگوایا گیا گولی مارو سالوں کوجیسا نعرہ انتخابی تشہیر کے جوش میں کہا گیا ہو (جو کہ کوئی بہانہ نہیں ہے) لیکن یہ پارٹی کی اس حکمت عملی میں ایک دم فٹ بیٹھتا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو غدارکے طور پر پیش کرکے آگ کو بھڑکائے رکھنا ہے۔
ایسی زہریلی تقاریرکی کئی مثالیں ہیں، اور ان کے سامنے آنے کی رفتاراتنی تیز ہے کہ ان میں سے ہر کسی کا جواب دینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔آہستہ آہستہ ان کو نہ صرف نارمل مان لیا جاتا ہے، بلکہ وہ مین اسٹریم کا حصہ بن جاتا ہے۔ کوئی بھی اچھا ہندوستانی اور ایسے کروڑوں لوگ ہیں، جو مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، لیکن اگر ان کے ذہن میں شک کا ایک بیج بھی پڑ جائے توسنگھ کا کام ہو جاتا ہے۔
ظاہر ہے یہ آسان نہیں ہوگا۔ ہندوستانی ہم آہنگی اور اپنے پڑوسی کے ساتھ امن سے رہنے کی قیمت جانتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی روزی-روٹی کمانے میں ہی اتنے مشغول ہیں کہ ہمارے لئے ان کے بارے میں سوچنا ممکن نہیں ہے۔ ہم محبِ وطن بھی ہیں اور ہمیں بی جےپی سے سند لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
لیکن ایک لمحہ ٹھہرکر یہ سوچیے کہ ہم بس ایک یا دو نسل کے گیپ میں کہاں پہنچ گئے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ذریعے عوامی طور پر کھلےعام فرقہ وارانہ بیان دئےجا رہے ہیں ؛ نریندر مودی کے حامی ان کی نفرت پھیلانے والی تقاریر،یہاں تک کہ ان کی حکومت کی نااہلی کے باوجود ان کے تئیں اب بھی وفادار بنا ہوا ہے۔
پاپولر کلچرتشدد آمیز قوم پرستی کو ہوا دینے میں جس طرح سے خوش ہے، ویسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ سنگھ کے ذریعے ثقافتی اداروں پر قبضہ کرنے کا کام تقریباً پورا ہو چکا ہے۔اسکولی بچوں کی تعلیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جا رہی ہے اور تاریخ بدلنے والی نصابی کتابیں اسکولوں میں لگائی جا رہی ہیں۔ بچا-کھچا کام این پی آر اور این آر سی کر دے گا۔
ایک مضبوط جوابی سیاسی نیریٹو کا نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ سی پی آئی ایم کو چھوڑکربہت کم سیاسی پارٹیاں ہیں، جو مضبوطی کے ساتھ ہندوتوا اور یہاں تک کہ سی اے اے-این آر سی کی قواعد کے خلاف کھلکر سامنے آئی ہیں۔ اروند کیجریوال خوشی خوشی مظاہرہ سے دور رہے ؛ اس کو بی جے پی کےذریعے بچھائے گئے جال میں نہ پھنسنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا گیا۔ وہ اب کیاکرتے ہیں، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
ان کا ہندوتوا کی جانب جھکاؤ لمبے وقت سے اختلافی رہا ہے۔ شیوسینا کا رویہ ڈھل مل رہا ہے اور نتیش کمار اس قانون پر خاموش ہیں۔کانگریس پوری طرح سے بےسمتی کا شکار ہے۔ ذاتی سطح پر امریندر سنگھ جیسےرہنماؤں نے قیادت سنبھالی ہے اور کمل ناتھ نے ان کی تقلید کی ہے، لیکن پارٹی بناپتوار کی کشتی بنی ہوئی ہے۔
سافٹ ہندوتوا سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب پارٹی کو آگے کاکوئی راستہ نہیں سوجھ رہا ہے۔ دراصل ہندوستان کے لوگ ہی ہیں جو اپنے ملک کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں۔ شاہین باغ اور ملک بھر میں ہوئے ویسے ہی مظاہرہ نے یقینی طور پر بی جے پی کو حیران کن کردیا۔
اسمبلی انتخابات کے نتیجے نفرت اور فرقہ پرستی کی تشہیر کی مزاحمت کرنے کی عوام کے عزم کو دکھاتے ہیں۔ سنگھ بغیر رکے، بغیر تھکے اپنے ایجنڈے کو حاصل کرنے کے راستے پر نہ صرف گامزن رہےگا، بلکہ اس میں اور طاقت جھونکےگا۔ انتخابی شکست اس کے عزم کو کمزورکرنے کے بجائے اور مضبوط کریںگ۔ پھر بھی یہ سفر آسان نہیں ہونے والا ہے۔
Categories: فکر و نظر