غیر-بی جے پی مقتدرہ ریاستیں کو شہریت ترمیم قانون کابائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو رد کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ساتھ ہی اس مسئلہ کی جڑ 2003 والی شہریت ترمیم کو بھی رد کرنے کی مانگ کرنی چاہیے۔
پورا ملک آج تاریخی طور پر سول نافرمانی کی تحریک کا گواہ بن رہاہے۔ لوگ گاندھی جی سے ترغیب لےکر تقسیم کاری شہریت ترمیم قانون کےخلاف سڑکوں پراترے ہیں۔ لیکن ہمیں دھیان رکھنا ہوگا کہ صرف عوام کی تحریک ہی این پی آراور این آر آئی سی کو روکنے کےلئے کافی نہیں ہے۔اس کے لئے تمام غیر-بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کو کھلکرسامنے آنا ہوگا۔ ان کو اپنے یہاں شہریت ترمیم قانون، این پی آر اور این آر آئی سی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ کیرل اور پنجاب کی حکومتوں نے شہریت ترمیم قانون کےخلاف تجویز پاس کی ہے۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے شہریت قانون کو ‘ خوفناک ‘ بتایا ہے۔لیکن کانگریس کے ہی سینیئر رہنما کپل سبل بول رہے ہیں کہ ریاستوں کے لئے قانوناًیہ ممکن نہیں ہے کہ وہ شہریت ترمیم قانون کو نافذ کرنے سے انکار کریں۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کانگریس کے ہی جئےرام رمیش نے کہا کہ ان کو معلوم نہیں کہ ریاستوں کے ذریعے شہریت قانون کی مخالفت عدالت کے سامنے کتنی دیر تک ٹک پائےگی۔
اس بیچ تمام پر امن مظاہرے کے باوجود مرکزی حکومت اب بھی شہریت ترمیم قانون کو نافذ کرنے کے اپنے ایجنڈے پر قائم ہے۔ گزشتہ10 جنوری کو اس کانوٹیفکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے اور 1 اپریل کے بعد سے ملک بھر میں این پی آر کی کارروائی شروع ہو جائےگی۔ امت شاہ مستقبل میں این آر آئی سی نہ کرانے کے سوال کوخارج کر چکے ہیں۔مہاتما گاندھی نے بتایا تھا کہ اگر ہم کسی برے قانون کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں تو پر امن اور عدم تشدد کے طریقے سے ہمیں اس قانون کو ماننے سےانکار کرنا چاہیے۔
گاندھی جیکے مطابق بری چیزوں میں عدم تعاون کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اچھی چیزوں میں تعاون کرنا۔ برے قانون کو منع کرنے کے اسی عمل کوسول نافرمانی کہا گیا ہے۔ملک کے شہریوں خاص طورپر طالبعلموں نے جلد ہی پہچان لیا کہ حکومت کی منشا ہے کہ شہریت قانون-این آر سی اور این پی آر نافذ کرکے آئین کے بنیادی جذبہ کاقتل کیا جائے۔ اسی سبب ملک بھر میں نوجوانوں، بچوں اور خواتین نےمظاہرہ شروع کیا۔
ان مظاہرے میں لوگوں نے ایک ہاتھ میں ترنگا اور دوسرے ہاتھ میں پوسٹر تھام رکھے ہیں، جن میں حکومت کی تقسیم کاری پالیسی کی مخالفت والے نعرے لکھےگئے ہیں۔ ریلیوں میں’ہم کاغذ نہیں دکھائیںگے’کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ان تمام مظاہرے کا مقصد ہے-ملک کے بھائی چارہ کو بچائے رکھنا۔لوگ اس لئے سامنے آئے ہیں کہ ان کے بھائی-بہنوں کے ساتھ زیادتی نہ کی جا سکے۔ اس سول نافرمانی میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں، بلکہ ہندوؤں نے بھی اس کا پورا-پورا ساتھ دیا ہے۔ اس سنہرے پل کو ہندوستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائےگا۔کاش ایسا کچھ نازی جرمنی میں بھی ہوا ہوتا۔
جب وہاں یہودیوں کی شہریت ختم کی گئی، تب غیر-یہودیوں کی طرف سےکوئی مخالفت نہیں ہوئی۔
ان سب کے باوجود ملک کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر چل رہی اس حکومت کوجھکانے کے لئے صرف عوام کی مخالفت اور مظاہرہ ہی کافی نہیں ہے۔ حال ہی میں ہم نےدیکھا کہ کیسے اتر پردیش کی حکومت نے طالب علموں اور اپنے شہریوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔حکومت کی اس منشا کو ناکام کرنے کے لئے عام لوگوں کے ساتھ-ساتھ ریاستی حکومتوں کو بھی اس تحریک سے جڑنا ہوگا۔ تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہواہے، لیکن جس طرح کا بحران ملک کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے اس کے لئے یہ پالیسی اپنانی ہوگی۔
ریاستی حکومتوں کو شہریت ترمیم قانون اور این پی آر میں مرکزی حکومت کا تعاون کرنے سے انکار کرنا ہوگا۔ ریاستی حکومتوں کے وسائل کے بغیر مودی حکومت کسی بھی صورت میں اس کو نافذ نہیں کر پائےگی۔کانگریس سمیت تمام حزب مخالف جماعت ان قوانین کے خلاف بولڈ ہوکر بول رہے ہیں، لیکن اگر ریاستوں میں یہ حکومتیں این پی آر کا بائیکاٹ نہیں کرتی ہیں تو این آر آئی سی نافذ کرنے میں یہ بھی معاون مانے جائیںگے۔
ریاستی حکومتیں مرکز کے اس جھانسے میں نہ آئیں کہ این پی آر کا این آر آئی سی سے کوئی لینا-دینا نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایک چیلنج اور ہے۔ 2003 کی شہریت ترمیم قانون کی وجہ سے آج ایسی حالتیں پیدا ہوئی ہیں۔ اس ترمیم میں کہا گیاکہ ہندوستان میں جنم لینے کے باوجود بھی اگر کسی شخص کے ماں باپ میں سے کوئی ایک ‘گھس پیٹھ’ ثابت ہوتا ہے، تو اس کو ہندوستان کا شہری نہیں مانا جائےگا۔اس کے بعد ‘ گھس پیٹھیوں’ کی پہچان کے لئے این آر آئی سی تیار کی جائےگی۔ اسی ترمیم میں کہا گیا کہ این آر آئی سی سے پہلے این پی آر تیار کیا جائےگااور اس میں’مشتبہ ‘ لوگوں کی پہچان کی جائےگی۔ لوگوں کو ‘مشتبہ’قرار دینے کاحق عوام کو بھی دے دیا گیا۔ اس سے شدت پسند تنظیموں کو طاقت ملےگی کہ وہ اپنی خواہش سے مسلمانوں کو ‘مشتبہ ‘ بتائیں۔
اگر ریاستی حکومتیں اب بھی این پی آر کو اپنے یہاں نافذ کرتی ہیں تو وہ ایک ایسے عمل میں معاون بنیںگی جس سے کروڑوں مسلمانوں کا استحصال ہوگا۔ اس سے ملک کا امن وامان تباہ ہو سکتا ہے اور خانہ جنگی جیسی حالت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ایسا ہونے پر ریاستی حکومتیں آئین کی روح کے ساتھ دھوکہ کرنے کے مجرم ہوںگے۔باقی ریاست کی حکومتوں کو کیرل اور پنجاب کی طرح ہی شہریت ترمیم قانون کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو رد کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ اختیارکرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اس مسئلہ کی جڑ 2003 والی شہریت ترمیم کو بھی ردکرنے کی مانگ کرنی چاہیے۔
اگر سپریم کورٹ بھی اس کا حل نہیں کر پاتی ہے تو ریاستی حکومتوں کوآئین کی حفاظت کے لئے اپنی برخاستگی کی مانگ کرنی چاہیے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ ایسی نافرمانی قانوناً غلط مانی جائےگی اور اس سے آئینی بحران کی حالت پیدا ہو سکتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ آئین کی اصل روح سے ہو رہی چھیڑچھاڑ کو روکنے کے لئےدوسرا کوئی اختیار ہمارے سامنے نہیں ہے۔
(ہرش مندر سابق آئی اے ایس افسر اورسماجی کارکن ہیں۔)