جے ڈی یو سے باہر نکالے جانے کے بعد پرشانت کشور نے ‘ بات بہار کی ‘مہم شروع کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے وہ مثبت سیاست کرنے کے خواہشمند نوجوانوں کو جوڑنا چاہتے ہیں۔مہم کے تحت ان کے ذریعے دیے جا رہے اعداد وشمار بہار کی این ڈی اے حکومت کی ریاست میں پچھلے 15 سالوں میں ہوئی ترقی کے دعووں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سال پہلے (16 ستمبر، 2018 کو)پرشانت کشور جب جنتا دل یونائٹیڈ (جے ڈی یو)میں شامل ہوتے ہی پارٹی میں نمبر دو بن گئے تھے، تو سیاسی حلقوں میں یہ چرچہ عام تھی کہ نتیش کمار ان میں اپنا جاں نشیش دیکھ رہے ہیں۔جے ڈی یو میں شامل ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں ان کی سرگرمی توتقریباً نہیں کے برابر ہی رہی، لیکن ‘ یوتھ ان پالیٹکس ‘کے نام سے ایک مہم ضرورشروع کی۔ اس مہم کا مقصد نوجوانوں کی ایک فوج کھڑا کرنا تھا، جو جے ڈی یو کے لئےکام کرتی۔
لیکن، جے ڈی یو میں شامل کئے جانے کے محض 5 مہینے بعد ہی پارٹی سپریمونتیش کمار نے عوامی طور پر کہہ دیا تھا کہ ان کو (پرشانت کشور کو)امت شاہ کےکہنے پر پارٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ نتیش کمار کے اس عوامی اعتراف سے صاف ہو چلاتھا کہ پرشانت کشور کو لےکر نتیش کمار بہت سنجیدہ نہیں ہیں۔لیکن ایک اہم سوال کا تب بھی جواب نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے کہ آخرنتیش کمار کے سامنے ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی کہ کسی دوسری پارٹی کے ایک رہنماکے کہنے پر انہوں نے پرشانت کشور کو اپنی پارٹی کا نمبر-2 بنا دیا۔
حالانکہ اس وقت پرشانت کشور نے نتیش کمار کے اس اعتراف پر کوئی بیان نہیں دیا تھا، لیکن اب انہوں نے نتیش کے دعویٰ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیاہے۔بہر حال، تازہ سیاسی واقعہ میں نتیش کمار نے پرشانت کشور کو پارٹی سے باہر کر دیا، تو پرشانت کشور نے بھی نتیش کمار کو باپ کی طرح بتاتے ہوئے ترقی کے مدعے پر اور سیاست اور حکومت چلانے کے طور-طریقوں لےکر ان کی سخت تنقید کی۔
انہوں نے بطور سی ایم نتیش کمار کے 15 سال کے کام کو بہت اطمینان بخش نہ مانتے ہوئے کہا کہ ان 15 سالوں میں کام بہت ہوئے ہیں، لیکن سال 2005 میں تعلیم، صحت اور بنیادی شعبوں کی حالت جیسی تھی اب بھی کم وبیش ویسی ہی ہے۔پارٹی سے باہر نکالے جانے کے بعد جب پرشانت کشور نے پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا تھا، تو مانا جا رہا تھا کہ وہ غالباً نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر سکتے ہیں، لیکن ان کے آئی پیک کے دفتر میں تقریباً دو گھنٹے تک چلے پریس کانفرنس میں سیاست میں آنے کے سوالوں کو وہ ٹالتے رہے۔
ان دو گھنٹوں کے پریس کانفرنس کا نچوڑ یہ رہا کہ وہ بی جے پی کےخلاف، نتیش کمار کی سیاست سے ناخوش اور بہار کی این ڈی اے حکومت کے کام سے ناراض ہیں۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ جے ڈی یو اور لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی)کو چھوڑکر بہار کی تمام سیاسی پارٹیوں کی لائن بھی تو یہی ہے، پھر وہ الگ کیا کہہ اور کر رہے ہیں؟اس فطری سوال کے جواب میں انہوں نے ‘بات بہار کی’ مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس مہم کے ذریعے مثبت سیاست کرنے کےخواہش مند نوجوانوں کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو پنچایت انتخاب لڑایا جائےگا۔یہ مکھیا سرپنچ بنکر ترقیاقی کام کریںگے۔
انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان کا مقصد اگلے 10 سالوں میں بہارکو ملک کی چوٹی کی10 ریاستوں میں شمار کرنا ہے۔ پرشانت کشور نے’بات بہار کی’ نام سے ایک فیس بک پیج بھی شروع کیا، جس سے اب تک تین درجن سے زیادہ خبریں اور اعداد و شمار شیئر کئے گئے ہیں۔یہ ساری خبریں اور اعداد و شمار بہار کی این ڈی اے حکومت کے ان دعووں کی پول کھولتے ہیں کہ بہار میں پچھلے 15 سالوں میں بہت کام ہوا ہے۔ اپنے پیج سے وہ جو اعداد و شمار دے رہے ہیں، ان اعداد و شمار کو دیکھکر حزب مخالف پارٹیاں خاص طورپرآرجے ڈی بھی حیرت میں ہے کیونکہ اس کو بھی نہیں پتہ تھا کہ صحت، تعلیم،روزگار، صنعت کے اشاریہ میں سال 2005 کے مقابلے بہت تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
آرجے ڈی کے سینئر رہنما شیوانند تیواری اس کو قبول بھی کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات تو صاف ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس سے ریاست کی حزب مخالف پارٹیوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حزب مخالف پارٹیاں ان سے ملاقات کر رہی ہیں بلکہ وہ ان سے ملکر کام کرنے کی گزارش بھی کر رہی ہیں۔گزشتہ دنوں دہلی میں مہاگٹھ بندھن کی معاون پارٹیوں ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) کے جیتن رام مانجھی، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی)کے اپیندرکشواہا اوروکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) کے مکھیا مکیش ساہنی نے پرشانت کشورسے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں کیا بات چیت ہوئی، اس کا انکشاف کسی نے بھی عوامی منچ پر نہیں کیا، لیکن پتہ چلا ہے کہ وہ پرشانت کشور کے ساتھ ملکر کام کرنے کے خواہشمند تھے، لیکن پرشانت کشور نے ساتھ کام کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔ادھر، دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کی تیسری بارشاندار جیت ہوئی، تو یہ چرچہ بھی چلی کہ عآپ کا انتخابی انتظام وانصرام سنبھالنےوالے پرشانت کشور بہار میں عآپ کے لئے کام کریںگے۔
گزشتہ دنوں عآپ کے راجیہ سبھا رکن پارلیامان اور رہنما سنجے سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا بھی کہ اگر پرشانت کشور عآپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں،تو ان کا استقبال ہے۔ لیکن عآپ میں شامل ہونے کو لےکر بھی انہوں نے کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ بہار میں وہ حکمراں جماعت اور اہم حزب مخالف پارٹیوں سے الگ اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں اور بہار میں امکان تلاش کرنے کے لئےلمبا وقت دینے کے موڈ میں ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ فی الحال بہار سے ہلنے والے نہیں ہیں۔
ویسے بہار میں نیا تجربہ کرنے کے لئے فلک بھی ہے کیونکہ این ڈی اےتقریباً 15 سال حکومت چلا چکی ہے اور اس کے خلاف ماحول بھی ہے۔ لیکن، مہاگٹھ بندھن اس کو بھنا نہیں پا رہا ہے۔ کنہیا کمار پچھلے ایک مہینے سے بہار میں جن گن من یاتراپر ہیں، لیکن وہ جس پارٹی سے آتے ہیں، اس کا بہار میں ووٹ بینک نہیں ہے۔سینئر صحافی بلرام ٹھاکر نے اپنے حالیہ مضمون میں کہا بھی ہے کہ بہار تجربہ کے لئے اچھی جگہ ہے اور پرشانت کشور خود بھی یہاں کچھ الگ اور نیاکرنا چاہتے تھے۔
بہار میں اسی سال کے اواخر میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور اس سے پہلےپرشانت کشور جس طرح فعال ہوئے ہیں، اس سے صاف ہے کہ وہ انتخابی موسم میں شامل ہوچکے ہیں۔ ہاں، ان کا کردار کیا ہوگا، یہ آنے والے دنوں میں صاف ہوگا۔سیاسی تجزیہ کار مہیندر سمن کہتے ہیں، ‘بہار کے اسمبلی انتخابات میں این آر سی-سی اے اے اور وکاس کی ترقی کا مدعا اہم ہوگا۔ پرشانت کشور ان دونوں مدعوں پر اپنا نظریہ صاف کر کے بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا حصہ بن چکےہیں اور ان کی مہم بی جے پی اور نتیش کمار کے خلاف ہے۔ حالانکہ ابھی تک انہوں نےیہ صاف نہیں کیا ہے کہ فعال سیاست میں آئیںگے کہ نہیں، اس لئے کچھ بھی مان لیناجلدی بازی ہوگی۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ان کو بہت ہلکے میں بھی نہیں لینا چاہیے اوربہت زیادہ توجہ بھی نہیں ملنی چاہیے۔ ‘
بہار یا یوں کہہ لیں کہ شمالی ہندوستان کی سیاست میں ذات-مذہب ایک اہم فیکٹر رہا ہے اور انتخابات میں یہ فیصلہ کن کردار نبھاتا رہا ہے۔ اس لئے اگرپرشانت کشور سیاست میں آنے کی سوچ بھی رہے ہوںگے، تو ان کی راہ کانٹوں سے بھری ہوئی ہوگی۔سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ڈی ایم دیواکر اس بارے میں کہتے ہیں،’بہارکی سیاست اتنی آسان نہیں ہے کہ کوئی بھی آئےگا اور اپنی جماعت کھڑا لےگا۔ دہلی میں اس طرح کی سیاست ہو سکتی ہے کیونکہ وہاں متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقہ کے ووٹرذات پات اور مذہب سے بالاتر ہوکر ووٹ کرتا ہے۔ یہ جماعت ترقی یا بد عنوانی کے نام پر کسی کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن بہار اب بھی نصف-زمیندارانہ ڈھانچے سے باہرنہیں نکلا ہے۔ اس لئے پرشانت کشور کے لئے یہاں کوئی سیاسی اختیار کھڑا کر دیناآسان نہیں ہے۔ ‘
ڈاکٹر دیواکر پرشانت کشور کے سیاست میں آنے کا کوئی امکان نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کا سارا ہتھکنڈہ انتخابی انتظام وانصرام سنبھالنے والی ان کی کمپنی کے لئے بڑی رقم کا اسائنمنٹ پر قبضہکرنے کے لئے ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ان کا اہم پیشہ انتخاب کے ارد-گرد اپنی کمپنی کومضبوطی دینا ہے۔ وہ اس پارٹی کی تلاش میں ہیں، جو موٹی رقم دےکر ان کی کمپنی کی خدمات لینے کو تیار ہو اس لئے غور کیجئے کہ وہ کسی بھی رہنما کو لےکر بہت سخت تبصرہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ نتیش کمار کی تنقید کرتے بھی ہیں، تو دوسرے ہی پل ان کو باپ کی طرح بتا دیتے ہیں۔’
پرشانت کشور کے پورے پریس کانفرنس کو دیکھیں، تو بی جے پی کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نتیش کمار پر بھی حملے کئے۔ بلکہ نتیش کو زیادہ نشانے پر رکھا۔انہوں نے سال 2014 سے پہلے اور 2017 میں بی جے پی کے ساتھ دوبارہ حکومت بنانے کےبعد این ڈی اے میں جے ڈی یو کی حیثیت کو لےکر کہا کہ پچھلگو بنکر حکومت نہیں چلائی جاسکتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دوبارہ این ڈی اے کے ساتھ حکومت بنانے کے بعداین ڈی اے میں نتیش کمار کی وہ حیثیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔پرشانت کشور نے پٹنہ یونیورسٹی کو سینٹرل یونیورسٹی کا درجہ دینے کی نتیش کی مانگ کو پی ایم مودی کے ذریعے خارج کئے جانے سے لےکر دہلی میں وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ انتخابی منچ شیئر کرنے اور بہار کو خصوصی ریاست کےدرجہ کے ذکرکرتے ہوئے کہا کہ جس نتیش کمار نے 2014 سے پہلے نریندر مودی کو بہار آنے نہیں دیاتھا، وہ دہلی میں وزیر داخلہ کے ساتھ منچ شیئر کر رہے ہیں۔
انہوں نے آگے کہا، ‘جب پورے بہار میں گاندھی جی کی باتوں کو لےکرسلیب لگوا رہے ہیں۔ یہاں کے بچوں کو گاندھی جی کی تعلیم سے واقف کرا رہے ہیں۔ایسے میں گوڈسے کے ساتھ کھڑے لوگ یا گوڈسے کے نظریہ سے اتفاق رکھنے والے لوگوں کےساتھ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ دونوں باتیں نہیں ہو سکتی ہیں۔ آپ بی جے پی کے ساتھرہنا چاہتے ہیں، اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ لیکن دونوں باتیں نہیں ہونی چاہیے۔ اس کو لےکر نتیش جی کے ساتھ میری بات چیت لگاتار چلتی رہی ہے۔ لیکن، پارٹی کے رہنماکے طور پر آپ کو یہ بتانا چاہیے کہ آپ کس طرف ہیں۔ ‘
پرشانت کشور نے آگے یہ بھی کہا تھا کہ نتیش کی حکومت کے بہار میں15 سال ہو چکے ہیں، اس لئے اب ان کو سال 2005 کے وقت کے بہار سے اب کے بہار کاموازنہ کرنا بند کر دینا چاہیے۔پرشانت کشور کا جے ڈی یو سے نکالا جانا، نتیش کمار پر پرشانت کشور کے تلخ تبصرے اور بات بہار کی مہم کے ذریعے صحت، تعلیم، جرائم، روزگار جیسےمدعوں پر اعداد و شمار کے ساتھ نتیش حکومت کو گھیرنا، ان تینوں کڑیوں کو جوڑکردیکھیں، تو لگتا ہے کہ پرشانت کشور نتیش کمار کی امیج کو چکناچور کرنے کی فیصلہ کن لڑائی شروع کر چکے ہیں۔
سینئر صحافی راجیندر تیواری کہتے ہیں،’ پرشانت کشور کا کام کسی نہ کسی سیاسی چہرے کے ارد-گرد گھومتا رہا ہے۔بنا کسی چہرے والی پارٹیوں کے ساتھ انہوں نے کام نہیں کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بہار میں یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ بنا کسی چہرے کے بھی کامیابی حاصل کر سکتےہیں۔ ‘راجیندر تیواری 6 سال پہلے کے سیاسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتےہیں،’سال 2014 میں امت شاہ سے کھٹ پٹ ہونے کے بعد جب وہ بی جے پی سے الگ ہوئے،تو سب سے پہلے انہوں نے بہار کو پکڑا اور جے ڈی یو کے لئے کام کیا۔ سال 2015 کے بہاراسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی بری ہار ہوئی اور جے ڈی یو-آرجے ڈی -کانگریس کی حکومت بنی۔ اس کو بی جے پی سے پرشانت کشور کے انتقام کے طور پر دیکھا گیا۔ اب جب نتیش کمار نے ان کو جے ڈی یو سے نکال دیا ہے، تو انہوں نے بہار میں کام شروع کر دیا ہے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’آپ اگر پرشانت کشور کے ‘بات بہار کی ‘مہم کو دیکھیں، تو وہ اعداد و شمار کے ذریعے نتیش حکومت کے 15 سال کے کام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ دراصل، وہ نتیش کمار کی بہترین حکومت کی جو امیج ہے، اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نتیش کمار کہتے آ رہے ہیں کہ 15 سال میں انہوں نے بہار میں کافی کام کیا ہے۔ لیکن’ بات بہار کی’ مہم میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا جا رہاہے کہ بنیادی شعبوں میں بہت اصلاح نہیں ہوئی ہے۔ آرجے ڈی د رہنما تیجسوی یادو سے لےکردیگر حزب مخالف پارٹیوں کے رہنما ان اعداد و شمار کو ٹوئٹ کرکے نتیش کمار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہرطرف سے اعداد و شمار کے ساتھ سوال اٹھنے لگیںگے، تو نتیش کمار نے جو ایک امیج بنا رکھی ہے کہ بہار میں سب کچھ اچھا کر دیا گیا ہے، وہ ختم ہو جائےگی۔ ‘
راجیندر تیواری نے بات پوری کرتے ہوئے کہا، ‘ مجھے لگتا ہے پرشانت کشور کی حکمت عملی ہے کہ اگلے دو-تین مہینوں میں نتیش کی امیج زمین پر لا دی جائے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ سیدھے طور پر سیاست میں اتریںگے، لیکن یہ ضرور ہےکہ اس اسمبلی انتخابات میں پرشانت کشور ایک مضبوط فیکٹر ہوںگے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )