یہ معاملہ راجستھان کے بھرت پور کا ہے۔ حاملہ خاتون کے شوہر عرفان خان نے کہا کہ جو اسٹاف ان کی بیوی کے رابطے میں تھے، انہیں ایسا لگا کہ ہم تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔
نئی دہلی: راجستھان کے بھرت پور ضلع کے ایک سرکاری ہاسپٹل پر الزام ہے کہ اس نے ایک حاملہ خاتون کو مسلمان ہونے کی وجہ سے بھرتی کرنے سے منع کر دیا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،خاتون کے شوہر عرفان خان (34) کا کہنا ہے کہ بھرت پور کے ایک سرکاری ہاسپٹل میں ڈاکٹروں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی حاملہ بیوی پروینہ کو بھرتی کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں جئے پور جاکر علاج کرانے کو کہا۔
عرفان کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی نے جئے پور جانے کے لیے ایمبولینس میں سوار ہونے کے کچھ ہی دیر بعد بچے کو جنم دے دیا لیکن نوزائیدہ نے جلد ہی دم توڑ دیا کیونکہ ڈلیوری کے بعد دوبارہ بھرت پور کے آربی ایم زنانہ ہاسپٹل جانے پر انہیں ایک بار پھر لوٹا دیا گیا۔بھرت پور کے ریاستی وزیر سبھاش گرگ نے اس بات سے انکار کیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کو جئے پور جانے کے لیے کہا گیا۔
انہوں نے ان الزامات کے جانچ کے حکم دیے ہیں۔ میڈیکل ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری ویبھو گالریا نے کہا کہ جانچ کے حکم دے دیےگئے ہیں۔ ضلع انتظامیہ جانچ کرےگی اور ضرورت پڑنے پر مناسب کارروائی کی جائےگی۔
ان الزامات کو ایک دم غلط بتاتے ہوئے ریاستی وزیر گرگ نے کہا کہ مریض کے رشتہ دار، جو اس وقت مریض کے ساتھ تھے اور خود مریض کے بیان میں کہیں بھی الزام نہیں لگائے گئے ہیں۔ جانچ کے حکم دے دیےگئے ہیں اور ہم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔
خان کا کہنا ہے کہ جوا سٹاف ان کی بیوی کے رابطےمیں تھے، انہیں ایسا لگا کہ ہم تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔
भरतपुर के जनाना अस्पताल में एक मुस्लिम गर्भवती महिला का इलाज करने से मना करते हुए डॉक्टर द्वारा कहा गया कि आप मुस्लिम हैं जयपुर जाकर इलाज करवायें। इस दौरान अस्पताल के कॉरिडोर में प्रसव के दौरान बच्चे ने दम तोड़ दिया। ये बेहद शर्मनाक घटना है…1/2 pic.twitter.com/4UzAZsqlM9
— Vishvendra Singh Bharatpur (@vishvendrabtp) April 4, 2020
بھرت پور کے ڈیگ کمہیر انتخابی حلقہ سے ایم ایل اے وشویندر سنگھ اور ریاست کی اشوک گہلوت سرکار میں کابینہ وزیر نے اس واقعہ کو شرمناک بتایا ہے۔سنگھ نے سلسلےوار ٹوئٹ کرکے کہا، ‘حاملہ مسلم خاتون کو بھرتی نہیں کیا گیا اور اس کو مذہب کی وجہ سے جئے پور جاکر علاج کرانے کو کہا گیا۔ شرمناک۔ تبلیغی جماعت یقیناً نقصاندہ رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے مسلمانوں سے اس طرح کا سلوک کیا جائے جیسا اس حاملہ خاتون کے ساتھ کیا گیا۔’
انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘بھرت پور کے زنانہ ہاسپٹل میں ایک مسلم حاملہ خاتون کا علاج کرنے سے منع کرتے ہوئے ڈاکٹر نےکہا کہ آپ مسلم ہیں جئے پور جاکر علاج کروائیں۔ اس دوران ہاسپٹل کے کاری ڈور میں زچگی کے دوران بچہ نے دم توڑ دیا۔ یہ بےحد شرمناک واقعہ ہے۔ بھرت پور کے مقامی ایم ایل اےجو وزیر بھی ہیں اور بھرت پور کے ہاسپٹل کی یہ حالت ہے۔’
عرفان خان نے کہا، ‘جب ہم گزشتہ رات سیکری میں کمیونٹی ہیلتھ سینٹر گئے تھے تو انہوں نے ہمیں ضلع ہاسپٹل جانے کو کہا۔ ہم اس کوصبح بھرت پور کے ہاسپٹل گئے۔ لیبرروم میں ڈاکٹروں نے میرا نام اور پتہ پوچھا۔ میں نے انہیں اپنا نام اور پتہ بتایا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں۔ میں نے کہا ہاں۔ اس کے بعد ڈاکٹر چوکنے ہو گئے اور کہا اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کا یہاں علاج نہیں ہو سکتا۔’
خان نے بتایا کہ اس کے بعد ڈاکٹروں نے آپس میں بات کی اور ہمیں وہاں سے جانے کو کہا۔خان نے بتایا کہ جئے پور جاتے وقت ایمبولینس میں ہی میری بیوی نے بچہ کو جنم دے دیا۔ ہم واپس ہاسپٹل آئے لیکن انہوں نے میری بیوی کو بھرتی کرنے سے ایک بار پھر انکار کر دیا۔ اس بیچ نوزائیدہ نے دم توڑ دیا۔
حالانکہ اس بارے میں ہاسپٹل میں متاثرہ خاتون پروینہ کی خاتون رشتہ دار کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے، جس میں وہ مسلم ہونے کی وجہ سے ہاسپٹل میں بھرتی نہیں کرنے کے فیملی کے الزامات کو غلط بتا رہی ہیں۔
A video made by the state administration has come out where Parveena’s (the pregnant woman) sister-in-law is denying the family’s original allegations. Her husband told @thewire_in that they were being pressurised to say so. pic.twitter.com/shTTSFmZll
— Shruti Jain (@Astute_Shruti) April 5, 2020
دراصل، یہ ویڈیو بھرت پور ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے کی گئی جانچ کا ایک حصہ ہے، جس میں دکھ رہا ہے کہ پروینہ کی خاتون رشتہ دار فیملی کے الزامات کی تردید کر رہی ہیں۔بھرت پور ضلع مجسٹریٹ نتھمل ددیئی نے معاملے کی جانچ کی اور ڈاکٹر، عرفان، پروینہ اور پروینہ کی خاتون رشتہ دار کے بیان کے بنیاد پر اپنی رپورٹ سونپی ہے۔
رپورٹ میں بھرت پور کے زنانہ ہاسپٹل میں پروینہ کا علاج کرنے والی ڈاکٹر ریکھا جھاروال کہتی ہے، ‘جب پروینہ کو صبح لگ بھگ 8.50 پر یہاں لایاگیا، ان کی حالت نازک تھی اور اس لئے انہیں جئے پور ہاسپٹل ریفر کیا گیا۔ ان کے اہل خانہ کی منظوری کے بعد میں نے انہیں جئے پور ہاسپٹل میں ریفر کیا۔ میں نے ان کے مسلم ہونے کی وجہ سے نہ تو ان کے ساتھ کسی طرح کی بدتمیزی کی اور نہ ہی علاج سے انکار کیا۔’
ڈپارٹمنٹ آف میڈیکل ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کے ایڈیشنل چیف سکریٹری روہت کمار سنگھ نے دی وائر کو بتایا، ‘ویڈیو میں متاثرہ خاتون کی رشتہ دار، جو ان کے ساتھ ہاسپٹل میں موجود تھی۔ انہوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرنے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ الزام غلط ہیں۔’
حالانکہ، خان نے دی وائر کو بتایا کہ الزامات سے انکار کرنے کے لیے ان کی خاتون رشتہ دار پر دباؤ بنایا گیا۔انہوں نے کہا، ‘ہاسپٹل کے میڈیکل اسٹاف نے ہماری خاتون رشتہ دار کو دھمکایا اور ویڈیو بنایا، جس میں وہ اس بات سے انکار کر رہی ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے پروینہ کے علاج سے انکار کیا۔’
خان نے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ کو ان کے مطابق بیان دینے کے لیے پولیس نے ان پر دباؤ بنایا تھا۔وہ کہتے ہیں، ‘رپورٹ میں جو لکھا ہے، میں نے اس کا ایک لفظ نہیں کہا۔ انہوں نے مجھ سے صرف دستخط کرنے کو کہا۔’
Categories: خبریں