کورونا بحران کے دوران ملک اور بیرون ملک سے خواتین کے خلاف بڑھتے گھریلو تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ کورونا کے بڑھتے معاملوں کے درمیان گھر میں بند رہنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ ٹی وی پر آ رہی ہدایتوں میں گھریلو تشدد پر بیداری کا پیغام ندارد ہے۔ خواتین پر پڑے کام کے بوجھ کو بھی لطیفوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔
موضوع پر آنے سے پہلے ہم بیس سال پرانے ایک حادثے کی بات کرتے ہیں۔ دسمبر 1999 میں کاٹھمنڈو سے دہلی کے لئے روانہ ہوئے ایک ہوائی جہاز کو دہشت گردوں نے ہائی جیک کر لیا تھا۔ہوائی جہاز میں 191 لوگ تھے، جن میں سے پانچ دہشت گرد اور 15 ایئر لائن کے کرو-ممبرس تھے۔ ہائی جیکرس کی مانگ تھی کہ ہندوستانی جیلوں میں بند کچھ دہشت گردوں کو رہا کیا جائے، جس کے بدلے میں وہ ہوائی جہاز کو چھوڑ دیںگے، ورنہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ہائی جیکنگ کے بعد ہوائی جہاز امرتسر، لاہور اور دبئی میں رک-رککر ایندھن بھرواتے ہوئے آخرکار افغانستان کے قندھار پہنچا اور پورے ایک ہفتے تک لوگ اس میں بند رہے، ایک مسافر کا قتل بھی ہوا۔اس واقعے نے ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ہنگامہ برپاکر دیا تھا۔ اس کی تصویریں آج بھی انٹرنیٹ پر مل جائیںگی۔ لیکن کچھ باتیں تصویروں میں قید نہیں ہو پاتیں۔
اسی لیے کم ہی لوگ جانتے ہوںگے کہ نیپال سے لوٹ رہے اس ہوائی جہاز میں کئی نوشادی شدہ جوڑے تھے، جو ہنی مون منانے وہاں گئے تھے۔ان میں سے ایک سے ہماری ملاقات تب ہوئی، جب ان کو ٹی وی اسٹوڈیو میں بات چیت کے لئے بلایا گیا۔ ان کا نام تو یاد نہیں لیکن یہ آج بھی یاد ہے کہ اینجڈ میرج والے اس جوڑے نے پہلی بار ایک دوسرے کو اسی آفت کی گھڑی میں صحیح سے جانا-سمجھا تھا۔
زندگی اور موت کو اتنے قریب سے دیکھنے اور اس ایک ہفتے ہوائی جہاز میں قید رہنے کے بعد ایسا لگا جیسے کچھ دن پہلے اجنبی رہے وہ دونوں، اب ہمیشہ ساتھ نبھانے کو تیار تھے کیونکہ جو پل وہ دیکھکر لوٹے تھے ان سے برا اور کیا ہو سکتا تھا؟آج بیس سال بعد ایسے کروڑوں جوڑے اپنے گھروں میں بند ہیں۔ ہر ملک اور ہر سماج کے لیے کورونا انفیکشن ایک امتحان ہے اور اس سے لڑنے کی سب سے بڑی کوشش ہے-لاک ڈاؤن۔
یہ لاکڈاؤن ایک طرف فیملی کے متحد ہونے کا مترادف بن گیا، لیکن دوسری طرف خواتین کا ایک بڑا طبقہ اسی دوران گھریلو تشدد میں بری طرح پھنس گیا ہے۔عالمی ایجنسیوں کے مطابق گھریلو تشدد کے معاملے یورپ سے لےکر جنوبی امریکہ اور چین تک میں بڑھ گئے ہیں۔
حیرت کی بات نہیں کہ ہندوستان میں نیشنل وومین کمیشن نے بھی اس پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاؤن کے پہلے ہی ہفتے میں کمیشن کے سامنے خواتین کے ساتھ تشدد کے سو سے زیادہ معاملے سامنے آئے ہیں۔اتر پردیش، دہلی، بہار، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر اس میں آگے ہیں۔ یہ وہ معاملے ہیں جہاں خواتین نے ای میل یا پیغام کے ذریعے کمیشن تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی۔
گھریلو تشدد سے جوجھ رہی یہ خواتین اب نہ تو عام دنوں کی طرح اپنے ماں باپ کے پاس جا سکتی ہیں اور نہ ہی کسی دوست کو مدد کے لئے بلا سکتی ہیں۔ماہر نفسیات کے مطابق کورونا جیسی وبا کے دوران انسانی فطرت میں تبدیلی آنا یا پہلے سے پنپ رہے تشدد کا بڑھ جانا عام بات ہے۔
اس لئے بھی کہ عام لوگوں کو صرف جسمانی بندش نہیں اقتصادی دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ہر ملک میں سسٹم کا ایک حصہ لوگوں کے ذہنی توازن اور متاثرین کے تحفظ کے لئے تیار کرنا ہوگا۔چین کی پولیس کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف گھریلو مارپیٹ کے معاملے تقریباً تین گنا ہو گئے، ایسے میں ان کو کہیں زیادہ محتاط رہنا پڑا رہا ہے۔
اسپین میں خبریں آئیں کہ کچھ خواتین نے اذیت سے بچنے کے لئے خود کو کمرے یا باتھ روم میں بند کرنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً اسپینی حکومت نے سخت اصولوں کے باوجود خواتین کے لئے ڈھیل برتی۔اب وہاں تمام سختی کے درمیان ایسے حالات میں خواتین کو باہر نکلنے کی چھوٹ ہے۔ اٹلی میں اس مسئلہ پر کام کرنے والے این جی او اور کارکنان کی فوج 24 گھنٹے کی ہیلپ لائن پر دستیاب ہے۔
لیکن ہیلپ لائن اور پولیس سے مدد مانگنے کی ہمت نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ اس کا جواب فرانس میں ملتا ہے جہاں اگر کسی خاتون میں خود پولیس کو فون کرنے کی ہمت نہیں ہے تو وہ پاس میں موجود دوا کی دوکان پر جاکر ایک کوڈ ورڈ بول دے-ماسک-19۔کیمسٹ اس کے بعد خودبخود مدد کا انتظام کر لےگا۔ اس سے ملتی جلتی پہل اسپین میں بھی ہو چکی ہے۔
ہندوستان ان ممالک سے بالکل الگ مرحلے پر معلوم ہوتا ہے۔ ہر دن کورونا متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے اور فی الحال عوام کے پاس گھروں میں بند رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔گلی-کوچے میں پولیس اہلکار لٹھ لےکر لوگوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں-لیکن ایسے وقت میں خواتین اور بچوں کے ساتھ گھروں میں کیا ہو رہا ہے یہ جاننے کی ہمت ان میں نہیں دکھائی دیتی۔
ادھر ٹی وی پر ہاتھ دھونے اور گھر میں ہی بند رہنے کی ہدایات تو ہیں لیکن گھریلو تشدد پر بیداری والا پیغام ندارد ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ خواتین پر پڑے کام کے بوجھ کو لطیفوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ضرورت ہے سمجھنے کی کہ گھریلو تشدد اس آفت کا اہم اور تکلیف دہ ‘ سائیڈ-ایفیکٹ ‘ ہے جس سے بچاؤ کے لئے سماج اور سسٹم دونوں کو ساتھ آنا ہوگا کیونکہ یہ وقت ہاتھ تھامنے کا ہے، ہاتھ اٹھانے کا نہیں۔
(افشاں انجم سینئر ٹی وی صحافی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر