امریکی تاریخ سے متعلق ایک صفحہ بتاتا ہے کہ میڈیا اور دانشوروں کے ایک طبقہ کے ذریعےحمایت یافتہ نسل پرستی اورفرقہ واریت کا زہر طویل عرصے سے سیاست کا کھاد پانی ہے۔
کووڈ 19 کے ان دنوں میں میں اپنا کافی وقت تاریخ کے صفحات پلٹنے میں صرف کر رہی ہوں اور یہ صاف ہے کہ موجودہ وقت کی برائیوں کا گہرا رشتہ ماضی میں رونماہوئے واقعات سے ہے۔سچائی اور یقین کے بیچ جدوجہد ہمیشہ بدترین سیاست کو جنم دیتی ہے۔ اپنے پرچے دی ہسٹاریکل پراسپیکٹو آف امریکنس آف ایشین انڈین اوریزن : 1790-1997, میں راج شیکھر بابی کوریتالا نے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہندوستانیوں کی ہجرت کی تاریخ کا خاکہ پیش کیا ہے۔
کیسے مہاجرین نے اس غیرملکی زمین پر اپنے پیر جمائے اور وہاں ان کو لے کر عجیب و غریب اعتقاد کی وجہ سے انہیں کس طرح کی عداوت اور مخالف رویے کا سامنا کرنا پڑا۔وہ لوگوں کے دوزمرے کا ذکر کرتے ہیں: گریٹ امریکنس،جنہوں نے امریکہ میں ہندوستانیوں کی مدد کی اور دوسرا ہے برے لوگوں کا کیمپ، جن میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ تھیوڈور روس ویلٹ کو شامل کرتے ہیں، جو ‘نسل پرستی، سامراجی،استعماریت پسند ،اینٹی ایشین،’اینٹی انڈین تھے۔
یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ سابق امریکی صدر کی ‘تاریخی طور پر معزز‘شخص کی سرکاری امیج ہونے کے باوجود، امریکہ میں کسی نے بھی اب تک کوریتالا کوغدار قرار نہیں دیا ہے۔
کاروبار سےمزدوری تک
ہندوستانی سینکڑوں کی تعداد میں 1880 کی دہائی میں امریکہ پہنچے۔ نسل پرستی کا شکار ہونے سے پہلے کے عا م دنوں میں ان ہندوستانیوں کااہم پیشہ تجارت کرنا تھا۔وہ اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ‘د ی راجاز ڈاؤٹر’، کیٹیریکٹ آف گنگیز’ جیسے ڈراموں کواسٹیج کیا گیا تھا اور ‘دی ہندو گرل’ کے عنوان سے ایک گانا کافی مقبول ہوا تھا۔
لیکن کچھ سالوں کے بعد حالات بدلنے لگے، جب بڑی تعداد میں ہندوستانی شمالی امریکہ کے مغربی ساخل کے ساتھ ساتھ کیلی فورنیا سے کینیڈا تک بس گئے۔ان میں زیادہ تر سکھ تھے، جنہوں نے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کےغیر منصفانہ سلوک کی وجہ سے پنجاب سے ہجرت کی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر برٹش کولمبیا اور واشنگٹن میں عمارت میں کام آنے والی لکڑی کے ملوں میں اور ریل روڈوں پر کام کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کیلی فورنیا کے سیکرامینٹوعلاقے میں کھیتوں میں خاص طور پر اچھامظاہرہ کیا، لیکن انہیں شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور انہیں حقیر، ذلیل ،گندہ، گندے طریقے سے رہنے والا اورمہلک بیماریوں کو پھیلانے والا قرار دیا گیا۔ظاہری طور پر ان کا روپ رنگ معاشرتی رسم و رواج اور مذہب وہاں پہلے سے رہ رہے لوگوں کے لیے قابل قبو ل نہیں تھا، جو ویسی ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے، جن سے ان کا تعارف نہ ہو اور جو ان سے مشابہت نہ رکھتا ہو۔
سارہ (Sarah Isabel Wallace) نے اپنی کتاب ‘ناٹ فٹ ٹو اسٹے : پبلک ہیلتھ پینکس اینڈ ساؤتھ ایشین ایکسکلوزن’ میں لکھا ہے کہ بائیکاٹ کرنے والی پالیسیوں کے پیچھےبنیادی عوامل نسل پرستی اور کاروباری مقابلہ تھے، مگر ڈاکٹروں، مزدور تنظیموں کے رہنماؤں،سرکاری حکام ،صحافی اورقائدین نے جنوب ایشیائی لوگوں کے بائیکاٹ کو جائز ٹھہرانے کے لیے صحت سے متعلق غیر مصدقہ خدشات کو دونوں ہاتھوں سے لپک لیا۔وہ لکھتی ہیں کہ اس کی شروعات 1907 کےموسم خزاں میں بلین ریویو میں ایک اسٹوری کے چھپنے کے بعد ہوئی کہ ملوں میں کام کرنے والے نئے نئے آئے جنوب ایشیائی پچھلے موسم بہارمیں میننجائٹس کے پھیلاؤ کے لیے ذمہ دار ہیں۔
ہندوستان میں 30 سال رہنے کے بعد حال ہی میں لوٹے ایک میتھیو ڈسٹ بشپ، جیمس ملز تھوبرن نے کہا کہ (مغربی)ساحل پر آ بسے ہندو مہاجر ملک میں پھیلے پلیگ، سیرو برومیننجائٹس اوردوسری بیماریوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔جنوب ایشیائی پلیگ سے بچنے کی امید میں ہندوستان چھوڑ رہے ہیں، مگر اس کے جراثیم وہ اپنے ساتھ لےکر آ رہے ہیں۔
تھوبرن نے جو کہا وہ ایک طرح سے فیک نیوز کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ یہ کسی سائنسی مطالعے پرمبنی نہیں تھا، لیکن اس نے امریکی عوام کو متاثر کیا، جو ویسے بھی کسی بھی صورت میں مہاجروں کے خلاف تھے۔روایتی طور پر لمبے بالوں، پگڑی اور ڈاڑھی والے سکھ، جنہیں عام طور پر ہندو کہہ کر پکارا جاتا تھا، خاص طور پر ناقابل قبول تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی تھا نوکری گنوا دینے کا خطرہ، کیونکہ جیسا کہ معلوم ہوتا ہے یہ ‘حقیر مزدور’ انہیں ٹکنے نہیں دے رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکام کوہندوستان کے مذاہب کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی اور یہ کہا جاتا ہے کہ عدالتوں میں ‘ہندوؤں’ کے حلف لینے کے لیے قرآن کی کاپی رکھی گئی تھی۔دھیرے دھیرے کینیڈا اور امریکہ میں بحر الکاہل والے حصوں میں ایشیائیوں کے خلاف عوامی جذبات بیدا ر ہونے لگے۔
سال 1905 میں، نسل پرست امریکیوں نے جاپانیوں اور کورین کےبائیکاٹ کے لیے لیگ کی تشکیل کی اور 1907 میں ایک کناڈائی ایشیا ایکسکلوزن لیگ (اے ای ایل) (ایشیا بائیکاٹ لیگ)ظاہر ہوا۔سال 1906 میں وینکوور میں رہنے والی میری ولسن نے ایک مقامی اخبار میں یہ کہتے ہوئے ایک چٹھی لکھی کہ ،‘ہندو شہر یا بازار بنانے کی ہماری کوئی تجویز نہیں ہے، بلکہ اگر اس کووقت رہتے نہیں روکا گیا تو، اس کی برائیوں اور غیر مطلوبہ خصوصیات کی وجہ سے ہمارے بیچ بھی پلیگ،ہیضہ اور دوسرے مہلک بخار اور بیماریاں پھیل جائیں گی ۔’
ہندوستانیوں کے لیے کےدشمنی کے جذبے نے پریس پر اسی طرح سے جادو کیا، جیسا کہ اکثر منفی باتوں کا ہوتا ہے۔سال 1906 میں پیوجیٹ ساؤنڈ امریکن عنوان سے ایک مضمون میں یہ پوچھا گیا کہ ‘کیا ہم پر سانولی آفت آ گئی ہے؟’اس کو واضح کرتے ہوئے آگے جوڑا گیا کہ ‘ہندؤں کا کارواں ریاست پر چڑھائی کر رہا ہے۔’
ایک قاری نے لکھا، ‘میرے حساب سے اس ملک میں ہندوؤں کا آنا بالکل غیر مطلوبہ ہے…ان کا اخلاقی ضابطہ خراب ہے (ہمارے نقطہ نظرسے)اور اگر انہیں چھوٹ ملتی ہے، جس کی امید وہ امریکہ میں فطری طور پر کرتے ہیں، تو آخرکار وہ مصیبت کی وجہ بن جائیں گے۔’
مئی، 1907 میں پیسفک منتھلی میگزین کے لیے ‘د ی ہندو ان ویزن :اَ نیو امیگریشن پرابلم’ عنوان والے مضمون میں ایک سینئرامریکی صحافی فریڈ لاکلی نے لکھا، ‘مشرق بعید کے ہمارے بھائیوں(ہندوؤں) نےمغرب کی طرف رخ کر لیا ہے۔ انہیں اب تک روک کر رکھنے والے ڈیم میں یہاں وہاں چھوٹی چھوٹی دراریں دکھنے لگی ہیں۔ وہ بہت کم مقدار میں رس رس کر آ رہے ہیں۔ سامنے سے دیکھنے پرمغربی زمین میں آ رہا ان کا بہاؤ ابھی اہمیت کا حامل نہیں ہے، لیکن کیا یہ بہاؤ دھیرے دھیرے چوڑاہوتا جائے گا اور ہماری زمین پر چھا جائے گااور ہمارے اداروں کوبحران میں ڈال دے گا؟’
لیکن یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اس وقت وہاں قومی شہریت رجسٹر بنانے کاحکم نہیں دیا اور امریکہ میں آج تک ایسا کوئی رجسٹر نہیں ہے۔
لیکن آگے بڑھتے ہوئے اے ای ایل کا پہلا عوامی اجلاس 12 اگست، 1907 کو ہوا، جس میں وینکوور کے رکن پارلیامان نے ‘ہر مہینے ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں شہد کی مکھیوں کی طرح جھنڈ کی طرح چلے آ رہے ایشیائیوں’ کو حملے کی وارننگ دی۔انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ ‘پیلی نسل کی بڑی تعداد میں ہجرت کے نتیجے کے طور پر لازمی طور پریہاں پہلے سے رہ رہے گوری نسلوں کو پیچھے ہٹنا پڑےگا۔’
اگلے دن وینکوور ورلڈ اخبار نے اپنے پہلے صفحے کی سرخی اس خبر کو بنائی:‘آل پارٹیز اپوزڈ ٹو ایشیاٹکس’ (ایشیائیوں کی مخالفت میں سبھی پارٹی )اور اپنےایڈیٹوریل میں یہ غلط رپورٹنگ کی کہ، ‘ایتھینین اسٹیمر پر 160 ہندوؤں کا آناہوا ہے۔ 2000 جاپانیوں کے انڈیانا جہاز پر ہونے کی خبر ہے، جو پچھلے جمعرات کو ہونولولو سے وینکوور کی طرف چلا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایشیائیوں کا بڑی تعداد میں برٹش کولمبیا پر دھاوا بولنا جاری ہے۔
آج کی اصطلاحات میں کہیں تو یہ دعویٰ ایک فیک نیوز تھا، کیونکہ انڈیانا پر صرف 275 جاپانی تھے۔ لیکن اس اخبار نے کبھی معافی نہیں مانگی۔
ہندوستانیوں کے خلاف فسادات
لوگوں کو محنت کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ روم کی تعمیر ایک دن میں نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح سے یہ بھی سچ ہے کہ فسادبھی ایک دن میں نہیں ہوتے ہیں۔فسادا ت تبھی ہوتے ہیں، جب لوگوں کے ذہن کو خاص طرح کے احساس اورزہر سے بھر دیا جاتا ہے۔ اس لیے 4 ستمبر 1907 کو اتوار کے دن، واشنگٹن ریاست کے بیلنگھم میں جو ہوا وہ کوئی غیر متعلق واقعہ نہیں تھی، جب تقریباً 500 گورے لوگوں کے ایک گروپ نے ہندوؤں کو باہر بھگاؤ کا نعرہ لگاتے ہوئے لگ بھگ پانچ گھنٹے تک فساد کیا۔
ان کے گھروں اور ان کے سامانوں کی توڑ پھوڑ کی گئی، کئی لوگوں کو باہر نکال کر پیٹا گیا۔ اس رات 200 ہندوستانیوں نے سٹی ہال میں پناہ لی اور باقی وہاں سے بھاگ گئے اور کبھی واپس نہیں لوٹے۔لیکن ان کا بھاگ کر ایویریٹ میں پناہ لینا ان کی مدد نہیں کر سکا اور 5 نومبر 1907 کو وہاں بھی دنگے ہوئے۔ اس کا پیٹرن بھی وہی تھا اور پولیس بس تماش بین بنی رہی۔
اگلے دن مقامی اخباروں میں چھاپا گیا کہ ‘پولیس بے یارومددگار تھی’ اور ‘پوری انتظامیہ کو لقوہ مار گیا تھا۔’بلوائی بھیڑ کے ایک بھی ممبر پر مقدمہ نہیں چلا۔ ہو سکتا ہے یہ سب آپ کو جانا پہچانا لگ رہا ہو، لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، پڑھنے والے اپنانتیجہ خود نکال سکتے ہیں اور ان کی اس آزادی کا میں احترام کروں گی۔
چار دن بعد، 10 ستمبر 1907 کو وینکوور کے دی ورلڈ میں ایک رپورٹ چھپی جس میں کہا گیا کہ ‘پورب کے لوگوں نے ہتھیار خریدے ہیں۔ سینکڑوں ایشیائیوں نے بندوقیں خریدی ہیں۔’ اور اس کے بعد ہتھیاروں کی فروخت روک دی گئی۔میں یہاں خود کو یہ کہنے سے نہیں روک پا رہی ہوں کہ اپنی دفاع کا راستہ اکثر تشدد سے ہوکر گزرتا ہے۔
میڈیا کی دلیل
فسادات کے بعد بیلنگھم ہیرالڈ نے 10 ستمبر، 1907 کو لکھا کہ ‘ہندو ہم میں سے نہیں ہیں اور وہ کبھی نہیں ہو سکتے ہیں… وہ ہمارے ملک میں امراض ، گندگی اور تھوڑے سی محنت کے علاوہ کچھ بھی لے کر نہیں آ رہے ہیں، جس کے بدلے میں وہ ہم سے ہماری تھوڑی پونجی لیتے ہیں۔’حالانکہ اخبار نے تشددکی مذمت کی، لیکن ماحصل کے طور پر کہا، ‘ہندو اچھےشہری نہیں ہیں۔’
دی رویلی نے لکھا، ‘حالانکہ کسی بھی اچھے شہری کو استعمال کئے گئے وسائل کی مخالفت کرنی چاہیے، مگر ہندوؤں کے خلاف مذہبی جنگ عام طور پر گہری تسلی کااحساس جگانے والا ہے اور ہندوؤں کے یہاں سے جانے سے کسی کو افسوس نہیں ہوگا۔’
سی اےٹیل مارننگ ٹائمس نے یہ دلیل دی کہ یہ ‘کوئی نسل کا سوال نہیں ہے، بلکہ تنخواہ کا سوال ہے۔ یہ لوگوں کا سوال نہیں ہے، بلکہ طرز زندگی کا سوال ہے۔ یہ ملکوں کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زندگی کی عادتوں کا معاملہ ہے… جب ایسے لوگ جنہیں کھانے کے لیے گوشت اور سونے کے لیے اصلی بستروں کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں ان کے روزگار سے ان سبزی خوروں کے لیے جگہ بنانے کے لیے ہٹا دیا جاتا ہے، جو کسی گندے کونے میں بھی نیند کامزہ لے سکتے ہیں، تب یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر کس حد پرغصہ اخلاقی نہیں رہ جاتا ہے۔’
یہاں یہ صاف کر دیناصحیح ہوگا کہ ہندوؤں (دراصل سبھی ہندوستانیوں)کو حاشیے پر ڈالنے کا کام صرف تین حرفوں کےمختصر ناموں والی ای اے ایل جیسی نسل پرست یا فرقہ پرست تنظیم ہی نہیں کر رہی تھی ۔بڑے پیمانے پر دانشور طبقہ بھی اس گناہ میں شریک تھا اور اس نے ان عقائد کو بڑے پیمانے پر جائز ٹھہرانے کا کام کیا۔
یہ نفرت کتنی گہری تھی، اس کا اندازہ 1908 کے ایک پروگرام کے لیے بیچے گئے ٹکٹ میں چھپے ہوئے ان لفظوں سے لگایا جا سکتا ہے ‘اپنے بچوں کے لیے، ایشیاٹک ایکسکلوزن لیگ ٹکٹ… اچھے لوگوں اور ایک اچھے مقصد کے لیے ووٹ دیجیے۔’اس طرح سے تشدداور بچوں کو ترازو کے دو پلڑوں پر رکھا گیا اور تشدد کو اچھے مقصد کے نام پر جائزٹھہرایا گیا۔
اگر آپ کو یہ سب سنا سنا سا لگ رہا ہے، تو مجھے قصورمت دیجیے۔ میں بس لکھے ہوئے لفظوں پر بھروسہ کرتے ہوئے وہی سامنے رکھ رہی ہوں، جو تاریخ میں درج ہے۔میں اب اس پہلو پر لوٹتی ہوں، جہاں سے میں نے اپنی بات شروع کی تھی۔ جب بھی یقین اور سچائی کے بیچ جد وجہد ہوتی ہے، تب سیاست اپنا رول ادا کرتی ہے۔
اس طرح سے 4 فروری، 1917 کو ایشیاٹک بارڈزون ایکٹ نافذ کیا گیا، جس کا مطلب تھا کہ پابندی والے علاقوں (جن میں ہندوستان بھی شامل تھا) کا کوئی فرد امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔اس طرح سے سبھی ہندوستانیوں صرف اکیلے ‘ہندو’ ہی نہیں کو ہجرت کے لیے بلیک لسٹ کر دیا گیا جس کی بنیاد ایسے عقائدتھے، جن کا سچ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
ہمیں تاریخ سے سبق لینا چاہیئے۔ ہمیں غلطیوں کو نہیں دوہرانا چاہیے، خاص طور پر تب جب انسانی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہو۔ ہمیں بیش قیمتی انسانی زندگیوں کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
انجنا پرکاش پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج ہیں اور اس وقت سپریم کورٹ میں وکالت کرتی ہیں۔