ملک میں کو رونا وائرس متاثرین کے آخری رسومات کی ادائیگی کو لےکر سرکار نے صاف صاف ایڈوائزری جاری کی ہے، اس کے باوجود کئی ایسے معاملے سامنے آ رہے ہیں جہاں انفیکشن کے ڈر سے لاش کو دفن کرنے یا جلانے کی مخالفت کی گئی یا پھر مرنے والوں کے اہل خانہ کے انکار کے بعد انتظامیہ نے یہ ذمہ داری اٹھائی۔
ملک بھر میں کو روناانفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے بیچ جان گنوانے والوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں در پیش مشکلات بڑھتی جا رہی ہے۔میگھالیہ میں کو رونا وائرس انفیکشن سے جان گنوانے والے پہلے شخص 69 سالہ ایک ڈاکٹر اور ریاست کے سب سے بڑے پرائیویٹ ہاسپٹل کے بانی کو ان کے گزر نے کے تقریباً 36 گھنٹے بعد جمعرات کو دفن کیا گیا۔
ریاست میں بیتھانی ہاسپٹل کے بانی جان ایل سیلیو رینتھیانگ کی بدھ کی صبح موت ہو گئی تھی، جبکہ ان کی بیوی سمیت ان کے اہل خانہ کے چھ ممبر کو رونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،ان کی فیملی انہیں نونگپوہ میں اپنے گھر میں ہی دفن کرنا چاہتی تھی، لیکن آس پاس کے لوگوں نے انفیکشن کے ڈر سے اس کی مخالف کی تھی۔
اس کے بعد ان کے آخری رسومات کی ادائیگی کی بات ہوئی، لیکن شیلانگ کے ایک کریمٹری نے کو رونا وائرس سے جان گنوانے والے لوگوں کےلاش کا نپٹارہ کرنے کے لیے پی پی ای نہ ہونے اور مقامی لوگوں کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے آخری رسومات کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔
ان حالات کے بیچ ڈاکٹر کی لاش تقریباً36 گھنٹوں تک اسی ہاسپٹل میں پڑی رہی ، جس کی دو دہائی پہلے انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔حکام نے بتایا کہ بیتھانی ہاسپٹل کے شیلانگ کیمپس اور ری بھوئی ضلع کے نونگپوہ میں اس کے دوسرے کیمپس کو سیل کیا گیا ہے اور انہیں سینٹائز کیا گیا۔ ان دونوں کیمپس میں موجود تمام لوگوں کوآئسولیشن میں بھیجا گیا ہے۔
بدھ کو انتظامیہ نے ریاسماتھییا پریسبائٹیرین چرچ سے انہیں دفن کرنے کے بارے میں اجازت مانگی، جنہوں نے انہیں دفن کرنے کے لیے جگہ دینے کے لیے اپنی رضامندی دی ۔ اس دوران فیملی کے اکثر لوگوں کے انفیکشن ہونے کی وجہ سے صرف ان کے دور کے تین رشتہ دار موجود تھے۔
نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے جمعہ کو کہا کہ وہ کو رونا وائرس کی وجہ سے جان گنوانے والے ایک ڈاکٹر کے آخری رسومات کی ادائیگی کی مخالفت سے متعلق خبروں کو لے کر ‘بے حد پریشان’ ہیں اور ایسے واقعات سماج کے شعور پر ایک دھبہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت تکلیف کی بات ہے کہ کو رونا وائرس سے متاثر لاشوں کے نپٹارے کے لیے مارچ میں مرکزی حکومت کی طرف سے جاری ایڈوائزری کے باوجود ایسا ہوا۔’انہوں نے کہا کہ لوگوں کوذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے اور افواہوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
حالانکہ یہ واحد معاملہ نہیں ہے جہاں کسی کووڈ 19 متاثر کی موت کے بعد ان کے آخری رسومات کی ادائیگی میں پریشانی آئی ہے۔اس سے پہلے چنئی میں بھی کو رونا وائرس سے جان گنوانے والے ڈاکٹر کے آخری رسومات کی ادائیگی کو مقامی لوگوں نے روک دیا تھا، جس کے بعد شہر کے ایک دوسرے علاقے میں ان کے آخری رسومات کی ادائیگی کی گئی۔
13 اپریل کو ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں 56 سالہ ڈاکٹر کی موت ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر کی لاش کو امبتور حلقہ میں شمشان گھاٹ لے جایا گیا جہاں مقامی لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے ان کے علاقے میں کو رونا وائرس کے انفیکشن پھیلنے کا خدشہ ہے۔اس کے بعد آندھر اپردیش کے نیلر کے رہنے والے اس شخص کی لاش کو واپس ہاسپٹل کے مردہ گھر میں لے جایا گیا، جس کے بعد اسی رات ان کے آخری رسومات کی ادائیگی شہر کے کسی دوسرے علاقےمیں کی گئی۔
فیملی نے لاش لینے سے کیا انکار
کووڈ 19 سے جان گنوانے والوں کے آخری رسومات کی ادائیگی کو لے کر نہ صرف مقامی لوگوں کی مخالفت کے معاملے سامنے آ رہے ہیں، بلکہ کئی معاملوں میں فیملی بھی آخری رسومات کی ادائیگی سے جھجھک رہی ہے۔پچھلے ہفتے پنجاب میں کو رونا وائرس سے جان گنوانے والے ایک شخص کی فیملی نے لاش لینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد انتظامیہ نے آخری رسومات کی ادائیگی کی ۔
امرتسر کے رہنے والے69 سالہ ریٹائرڈ انجینئر کی 6 اپریل کو پرائیویٹ ہاسپٹل میں موت ہو گئی تھی۔ جب انتظامیہ نے ان کی فیملی سے لاش لینے کے لیے کہا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس کے بعد حکام نے آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ان کی فیملی سے رابطہ کیا، لیکن کوئی آگے نہیں آیا۔
اس سے پہلے 6 اپریل کو ہی لدھیانہ میں بھی ایک فیملی نے لاش لینے سے منع کر دیا تھا۔ 69 سالہ اس خاتون کے آخری رسومات کی ادائیگی بھی انتظامیہ نے ہی کی تھی۔
کو رونامتاثر مسلمان کوجلایا گیا
گزشتہ 1 اپریل کو ممبئی کے ملاڈ میں کو رونا وائرس سے جان گنوانے والے مسلمان شخص کو قبرستان کے ذمہ داروں نے دفن کرنے سے منع کر دیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش کو جلایا گیا تھا۔مالوانی کے کلکٹر کیمپس میں رہنے والے اس شخص کی جوگیشوری واقع بی ایم سی کے ہاسپٹل میں 1 اپریل کو موت ہوئی تھی۔
ان کےاہل خانہ نے الزام لگایا تھا کہ لاش کو ملاڈ کے مالوانی قبرستان لے جایا گیا لیکن وہاں یہ کہہ کر لاش کو دفن کرنے سے انکار کر دیا گیاکہ یہ کو رونا وائرس سے متاثر تھا۔
ان کے بیٹے نے بتایا، ‘ہاسپٹل میں والد کی موت ہونے کے بعد کوئی مدد کو آگے نہیں آیا۔ میں ہاسپٹل کے باہر تین گھنٹے تک لاش کے قریب بیٹھا رہا۔ ہم انہیں ملاڈ مالوانی قبرستان میں دفن کرنا چاہتے تھے لیکن قبرستان کے ذمہ داروں نے، کو رونا وائرس انفیکشن ہونے کی وجہ سے لاش کو دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ بعد میں پولیس اور دوسرے حکام کی دخل اندازی کے بعد لاش کو ‘ہندو شمشان بھومی’ میں جلایا گیا۔’
12 اپریل کو رانچی میں بھی ایک ایسا ہی معاملہ سامنے آیا تھا، جہاں ایک ساٹھ سالہ بزرگ کی کو روناانفیکشن سے موت کے بعد انہیں قبرستان میں دفن کرنے کے خلاف مقامی لوگوں نے سڑک پر اتر کر مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے موت کے 14 گھنٹے بعدانتظامیہ کی کڑی مشقت کے بعد انہیں دو گز زمین نصیب ہوئی۔
نیوز 18 کے مطابق، مرنے والا رانچی کے ہندپیڑھی میں ملنے والی دوسری کو رونا متاثرہ خاتون کے شوہر تھے۔ اس فیملی کے چھ ممبروں میں کو روناانفیکشن پایا گیا۔سبھی کا رانچی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے کووڈ 19 ہاسپٹل میں علاج چل رہا ہے، جہاں 12 اپریل کو صبح 9 بجے کے قریب بزرگ نے نے دم توڑا۔
اس کے بعد دن بھر ان کی فیملی اور پولیس انتظامیہ را تو سے بریاتو قبرستان تک لاش کو دفن کرنے کے لیے کوشش کرتی رہی، لیکن مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے دیر رات دو بجےانتظامیہ ان کو دفن کر سکی۔ اس دوران ان کے اہل خانہ کولاش کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔
دارالعلوم کا فتویٰ
لکھنؤ دارالعلوم فرنگی محلی عیش باغ نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ کو رونا وائرس سے مرنے والوں کو بھی رواج کے مطابق دفن کرنا چاہیے، لیکن دفن کرنے کے جو احکامات ڈبلیو ایچ او اورڈاکٹروں نے جاری کئے ہیں، ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔آج تک کی خبر کے مطابق، مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے کو رونا سے مرنے والے کی لاش کو قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے مدنظر یہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔
لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی میں بدھ کو 64 سالہ شخص کی موت کو روناکی وجہ سے ہو گئی تھی، جس کے بعد عیش باٖغ قبرستان میں مسلمانوں کے ایک طبقے نے بزرگ کی لاش کو دفن کرنے سے روک دیا تھا۔
کو رونامتاثر کی لاش لانے سے انکار کرنے پر محکمہ صحت کے دو لوگوں کے خلاف معاملہ
اتر پردیش کے مرادآباد ضلع سے کو رونامتاثر شخص کی لاش کو سنبھل لانے سے انکار کرنے پر ڈرائیور اور ایک دوسرے شخص کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔بہجوئی کے تھانہ انچارج رویندر پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ محکمہ صحت نے الزام لگایا گیا ہے کہ ڈرائیورپشپیندر کمار اور ایک اور اہلکارہردییش کمار نے مرادآباد سے کو رونا متاثر لاش کو سنبھل لانے سے منع کر دیا تھا جس کے بعد دونوں کے خلاف سرکاری کام نہ کرنے اور وبائی قانون کے تحت جمعرات دیر رات کو مقدمہ درج کیا گیا۔
معاملے کی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔ ضلع کی سی ایم او ڈاکٹر امیتا سنگھ نے بتایا کی سنبھل کے کو رونا وائرس متاثر 76 سالہ شخص کی مرادآباد میں موت ہو گئی تھی جس کی لاش کو مرادآباد سے سنبھل لانے کے لیے ڈرائیور اور ایک دوسرے اہلکارسے کہا گیا لیکن انہوں نے انفیکشن کے ڈر سےلاش کو لانے سے مبینہ طور پر منع کر دیا۔
کیا ہیں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ایڈوائزری ؟
دنیا بھر میں بڑھ رہے معاملوں اور موت کی تعداد کے مد نظر ڈبلیو ایچ نے ایڈوائزری تیارکی ہے، جس کی بنیاد پر تقریباً سبھی ممالک میں اس انفیکشن سے جان گنوانے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کی گائیڈ لائن تیار ہو چکی ہے۔
اس کے تحت بتایا گیا ہے کہ لاش سے متعلق کسی بھی کارروائی میں احتیاط برتنا ہے اور یہ دھیان رکھنا ہے کہ کسی بھی طرح سے لاش کے بدن کا کوئی بھی مائع (Liquid)رابطہ میں نہ آئے۔
لاش کے لیے اس طرح کے باڈی بیگ تیار کئے جائیں جن میں سے کسی بھی طرح سے بدن کا کوئی مائع لیک نہ ہونے پائے۔لاش کو بیگ میں ڈالتے وقت مکمل احتیاط سے کام لیا جائے۔
اس کے علاوہ پوسٹ مارٹم یا میڈیکل اسٹاف احتیاط برتیں اور ان کے پاس پوری آستین کے ڈسپوزایبل گاؤن ہوں۔
گاؤن واٹرپروف بھی ہونا چاہیے تاکہ اگر یہ لاش کے رابطہ میں آ بھی جائیں تو وائرس بدن میں داخل نہ ہو سکے۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد اس کو فوراًضائع کر دیا جائے۔
ہندوستان میں اس بارے میں وزارت صحت نے ایڈوائری جاری کی ہے، جن میں بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔وزارت کی گائیڈلائنس کے مطابق،
کو رونا وائرس سے موت کے بعد اس کے آخری رسومات کی ادائیگی آس پاس ہی کرنی چاہیے۔
اہل خانہ صرف ایک بار چہرہ دیکھ سکتے ہیں، گلے ملنے اورلاش سے لپٹنے پر روک ہے۔آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی کم سے کم لوگ شامل ہوں۔
لاش جس بیگ میں رکھا گیا ہے، اس کو کھولا نہیں جائےگا، باہر سے ہی عقائد کو پورا کریں۔ لاش کوغسل کرانے یا کسی طرح کا لیپ لگانے، کپڑے وغیرہ پہنانےپر مکمل پابندی ہے۔
لاش لے جانے کے دوران بھی خاص احتیاط سے کا م لیا جائے۔ میڈیکل پیشہ وروں کو بھی ہدایت ہے کہ ایسی لاش پر ایمبامنگ(لاش کو دیر تک محفوظ رکھنے والا لیپ) نہ کیا جائے۔
لاش کو مورچری میں کم سے کم 4 ڈگری درجہ حرات میں رکھنا ضروری ہوگا۔ سبھی اسٹاف ا ور ڈاکٹر تحفظ کے متعینہ ضابطے پر عمل کریں گے۔ ٹرالی کوکیمیا سے صاف کیا جائےگا۔
عام طور پرمتاثرہ افراد کی موت پر پوسٹ مارٹم نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور اگر خاص حالت میں اس کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم کوخاص احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
لاش کو جلانے یا سپرد خاک کرنے کے بعد گھر والے ہاتھ منھ کو اچھی طرح سے صاف کریں۔اس میں شامل لوگ بھی آخری رسومات کے بعد خود کو سینٹائز کریں۔
لاش کو جلانے کے بعد راکھ کو ندی میں بہا سکتے ہیں۔اس میں شامل گاڑی کو بھی سینٹائز کیا جائے۔
اس کے علاوہ لاش اہل خانہ کو سونپنے سے پہلے کے لیے ڈاکٹروں کے لیے بھی ہدایات ہیں، جن کے مطابق،
لاش میں جو بھی ٹیوب باہر سے لگے ہوں اس کونکال دیں۔
اگربدن میں کوئی باہری چھید کیا گیا ہو تو اس کو بھی بھر دیں۔
لاش ایسے پلاسٹک بیگ میں رکھا جائے جو پوری طرح لیک پروف ہو۔
یہ یقینی بنایا کیا جائے کہ لاش سے کسی طرح کا لیک نہ ہو۔
اگر اس شخص کے علاج میں جس کسی بھی سرجیکل سامانوں کا استعمال ہوا ہو، اس کو سہی طریقے سے سینٹائز کیا جائے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں