خبریں

لاک ڈاؤن: ’جس تکلیف سے گھر لوٹا ہوں، اب سے کام کے لیے دوسری ریاست جانے کی ہمت نہیں ہوگی‘

شرمک اسپیشل ٹرین کے کرایے کو لےکر سرکار کے مختلف دعووں کے بیچ گجرات سے بہار لوٹے مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹکٹ خود خریدا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈیڑھ ہزار کیلومیٹر اور 31 گھنٹے سے زیادہ کے اس سفر میں انہیں چوبیس گھنٹوں کے بعد کھانا دیا گیا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

یوگیش گری 4 مہینے سے گجرات کے بٹھلاپور میں ایک میٹل فیکٹری میں کام کر  رہے ہیں۔ 6 مئی کی صبح ان کے پاس اڑتی ہوئی خبر آئی کہ برمگام ریلوے اسٹیشن سے بہار کے لیے شرمک سپیشل ٹرین چلنے والی ہے۔لگ بھگ ڈیڑھ مہینے سے گھر کی چہاردیواری میں قید یوگیش یہ خبر سن کر فوراً رجسٹریشن کرانے کے لیے بیگ کندھے پر ٹانگ کر نکل پڑے، لیکن گجرات سے بہار کے کورنٹائن سینٹر تک پہنچنے کے ان کے  سفر کسی برے سپنے سے کم نہیں رہے، جسے وہ شاید ہی کبھی بھول پائیں گے۔

یوگیش(25سالہ) بتاتے ہیں، ‘صبح جیسے ہی ہمیں خبر ملی، ہم لوگ بیگ لےکر پاس کے ہی ایک اسکول میں پہنچ گئے۔ اس اسکول میں مزدوروں کا رجسٹریشن ہو رہا تھا۔ لوگوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میرے خیال میں ڈھائی سے تین ہزار لوگ تو ہو ں گے ہی۔’لوگوں کی بھیڑ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یوگیش صبح 10 بجے لائن میں لگے تھے اور ان کا نمبر دوپہر 1 بجے آیا۔ اسکول میں الفراریڈ تھرمامیٹر سے سبھی مزدوروں کا درجہ حرارت نوٹ کیا جا رہا تھا اور جن کا درجہ حرارت نارمل ملتا تھا، انہیں محکمہ صحت کی طرف سے ایک کاغذ دیا جاتا تھا۔

حالانکہ وہاں ہر مزدور سے 710 روپے وصول کیے گئے اور اس کے بعد انہیں بسوں میں بٹھا دیا گیا۔ لیکن، اس 710 روپے کا کوئی بل نہیں دیا گیا۔اس کے بعد اسی دن جب وہاں سے بسیں چلیں، تو بہ مشکل 10 منٹ چلنے کے بعد سڑک کنارے ایک جگہ روک کر کھڑی کر دی گئیں۔ لیکن لوگوں کو اترنے نہیں دیا گیا۔

یوگیش کہتے ہیں،‘وہاں بس لگ بھگ 4 گھنٹے تک کھڑی رہی۔ کڑی دھوپ تھی اور کھلی جگہ میں بس لگا دی گئی تھی۔ بس کے بھیتر بہت گرمی لگ رہی تھی۔ ہم لوگوں نے چاہا کہ باہر نکل کر کہیں سایہ دیکھ کر کچھ دیر بیٹھ لیں، لیکن پولیس والے اترنے نہیں دے رہے تھے۔ لوگ اترنے کی کوشش کرتے، تو پولیس اہلکار ڈنڈے برسانے لگتے۔’

وہ آگے بتاتے ہیں،‘4 گھنٹے تک ہم لوگ بس میں ہی ابلتے رہے۔ وہاں سے ہمیں برمگام ریلوے اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں ہمیں ایک بوتل پانی، دو روٹیاں اور پانچ روپے والا بسکٹ کا ایک پیکٹ دیا گیا۔’بٹھلاپور سے برمگام کی دوری لگ بھگ 30 کیلومیٹر ہے، لیکن یہ دوری طے کرنے میں ان بس کو لگ بھگ 5 گھنٹے لگ گئے۔

برمگام اسٹیشن پر ہی انہوں نے ریلوے ٹکٹ لیا، جس پر 690 روپے کرایہ لکھا ہوا ہے، لیکن اضافی جو 20 روپے لیے گئے تھے، اس کا کوئی حساب نہیں بتایا گیا کہ وہ کس بات کے لیے ہے۔برمگام اسٹیشن پر 24 ڈبے کی ایک شرمک اسپیشل ٹرین کھڑی تھی، جس میں بہاری مزدوروں کو بٹھایا گیا۔ ٹرین میں ہر سیٹ پر پانی کا ایک بوتل رکھا ہوا تھا۔ ہر ڈبے میں 50 لوگوں کو بٹھایا گیا اور ٹرین بتیاکے لیے روانہ ہوئی۔

کئی سرکاری دعووں کے برعکس شرمک اسپیشل ٹرین کے ٹکٹ کے لیے مزدوروں نے پیسے چکائے ہیں۔

 گجرات کے برمگام سے بہار کے بتیا تک کی اسپیشل ٹرین کا ٹکٹ۔

گجرات کے برمگام سے بہار کے بتیا تک کی اسپیشل ٹرین کا ٹکٹ۔

ٹرین سے سفر کر رہے مسافروں نے بتایا کہ ٹرین میں پولیس ریلوے فورس کا ایک بھی جوان نہیں تھا، جس سے ڈر لگتا رہتا تھا کہ کہیں کوئی چوراچکے ٹرین میں چڑھ گئے یا کوئی پریشانی ہی آ گئی، تو کیا ہوگا۔یوگیش نے بتایا،‘اس کے بعد کئی اسٹیشن پر آر پی ایف کے جوان ملتے تھے، جو ہم لوگوں کو اسٹیشن پر اتر کر پانی بھی نہیں بھرنے دے رہے تھے۔ ایک بوتل پانی سے ہی ہمیں 12 گھنٹے سے زیادہ وقت تک کام چلانا پڑا۔ صبح ٹرین لکھنؤ پہنچی، تو ہر ڈبے کے گیٹ پر دو کارٹن پانی کا بوتل رکھ دیا گیا، لیکن مسافروں  کی تعداد کے مقابلے پانی کم تھا۔ کئی مسافروں کو پانی ہی نہیں ملا۔’

یوگیش بتاتے ہیں، ‘کچھ مزدوروں کے پاس پیسہ تھا۔ لیکن جن بھی ریلوے اسٹیشنوں پر ٹرین رکتی، وہاں ایک بھی دکان کھلی نہیں تھی کہ لوگ خریدکر ہی کچھ کھا لیتے۔ پیسہ ہونے کے بعد بھی لوگوں کو بھوکے پیٹ سفر کاٹنا پڑا۔’لکھنؤ میں ایک بوتل پانی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں دیا گیا۔ کچھ مسافر اپنے ساتھ بسکٹ لے گئے تھے، تو اسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھایا۔

وزارت ریلوے کی طرف سے پہلا کھانا ٹرین میں سوار ہونے کے لگ بھگ 26 گھنٹے بعد دیا گیا۔ رات لگ بھگ 8 بجے گورکھپور ریلوے اسٹیشن پر ٹرین رکی، تو مزدوروں کو کھانے میں رنگین چاول دیا گیا اور ساتھ میں ایک بوتل پانی۔اس کے بعد ٹرین وہاں سے چلی، تو 8 مئی کی صبح  بتیا اسٹیشن پہنچی۔بتیا اسٹیشن پر لوگوں کو پوڑی سبزی اور پانی کا ایک ایک بوتل دیا گیا۔

یوگیش بتاتے ہیں،‘اسٹیشن سے بس میں بٹھاکر ہمیں اپنے آبائی  ضلع لے جایا گیا۔’ یوگیش روہتاس کے وکرم گنج بلاک میں رہتے ہیں، جہاں وہ 8 مئی کی دوپہر کو پہنچے۔دیر رات بہار سرکار کی طرف سے جو کھانا ملا تھا، اس کے بعد سیدھے دوپہر کو انہیں بسکٹ کا ایک پیکٹ اور ایک بوتل پانی دیا گیا۔

گجرات سرکار کی طرف سے دی گئی روٹیاں اور ٹرین میں سوار ہونے کے لگ بھگ 26 گھنٹے کے بعد گورکھپور میں ریلوے کی طرف سے دیا گیا کھانا۔

گجرات سرکار کی طرف سے دی گئی روٹیاں اور ٹرین میں سوار ہونے کے لگ بھگ 26 گھنٹے کے بعد گورکھپور میں ریلوے کی طرف سے دیا گیا کھانا۔

یوگیش شادی شدہ ہیں، دو بچہ ہیں۔ آئی ٹی آئی کی پڑھائی کی ہے، لیکن بہار میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے گجرات چلے گئے تھے۔ گجرات سے پہلے فریدآباد میں کام کر رہے تھے، پھر گجرات میں وہاں سے زیادہ تنخواہ مل رہی تھی، تو گجرات چلے گئے تھے۔وہ کہتے ہیں،‘جس حالت میں میں وہاں (گجرات میں) تھا، اگر پرچون کی دکان کے مالک نے ادھار میں راشن نہیں دیا ہوتا، تو کیا ہوتا پتہ نہیں!دکاندار نے 6-7 ہزار روپے کا راشن ادھار دیا، لیکن نہ تو گجرات سرکار اور نہ ہی بہار سرکار نے ہم لوگوں کی مدد کی۔’

یوگیش کہتے ہیں،‘جس طریقے اور تکلیف سے میں گجرات سے لوٹا ہوں، اب ہمت نہیں ہوگی کہ دوسری  ریاست جاؤں۔ سوچ رہا ہوں کہ اب بہار میں ہی رہوں گا، کھیتوں میں مزدوری کر کے گزارہ کر لوں گا۔’

‘24 گھنٹے تک نہیں ملا کھانا’

دھیرج کمار(26سالہ) چھپرہ کے جلال پور کے رہنے والے ہیں۔ وہ دو سال سے گجرات میں اسکوٹر کے پرزے بنانے والی فیکٹری میں کام کر رہے تھے۔ یہ بھی بٹھلاپور میں رہتے ہیں۔لاک ڈاؤن کے دوران کمپنی نے انہیں مارچ کی تنخواہ دی تھی، اسی کے سہارے وہ ڈیڑھ مہینے تک کام چلا سکے۔ وہ بھی برمگام سے شرمک اسپیشل ٹرین سے بہار لوٹے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ‘وہاں اعلان کیا گیا کہ جو بہار جانا چاہتے ہیں، وہ نکل جائیں۔ جس کالونی میں رہتا تھا، وہاں کے مکان مالکوں کو مقامی تھانے سے فون آیا تھا کہ اپنے بہاری کرایہ داروں سے بول دیں کہ 6 مئی کو برمگام سے بہار کے لیے ٹرین کھلےگی۔’دھیرج آگے کہتے ہیں،‘مکان مالک نے مجھے بتایا، تو 6 مئی کی صبح سامان لےکر گھر سے نکل گئے۔ شام کو ہم لوگوں نے ٹرین پکڑا تھا، لیکن اس میں سوار ہونے کے 24 گھنٹے تک کھانا نہیں دیا گیا، صرف دو بوتل پانی ملا۔’

جب ان سے بات ہوئی، وہ ٹرین میں ہی تھے۔ ریلوے انتظامیہ کو لےکر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دھیرج نے فون پر کہا، ‘24 گھنٹے سے زیادہ وقت بیت چکا ہے، لیکن ہم لوگوں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ پانی بھی دو بوتل ہی ملا۔ جب پیاس لگتی، تو ایک گھونٹ پی کر گلا تر کر لیتے ہیں۔ ’

اس کے بعد کھانا دیر سے ملنے کے سوال پر وزارت ریلوے کی طرف سے ٹوئٹ کر کےبتایا گیا کہ 7 مئی کی صبح 11 بجے لکھنؤ میں کھانا دینے کا منصوبہ تھا، لیکن ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے گورکھپور اسٹیشن پر مسافروں  کو کھانا دیا گیا، جہاں ٹرین رات کے آٹھ بجے پہنچی تھی۔

‘…زندگی میں ایسے کبھی نہیں لوٹا’

وکیل پرساد کی عمر 45 سال ہے اور اپنی عمر کی  دو دہائی  وہ الگ الگ ریاستوں  میں گزار چکے ہیں۔ وہ کنسٹرکشن سائٹ پر مستری کا کام کرتے ہیں۔پچھلے3-4 مہینے سے وہ گجرات میں تھے۔ انہیں مارچ کے کام کا پیسہ نہیں ملا ہے۔ وہ بھی اسی شرمک اسپیشل ٹرین سے بہار کے موتیہاری میں اپنے گاؤں لوٹے ہیں۔

اپنا تجربہ بتاتے ہیں،‘میں 25 سالوں سے الگ الگ ریاستوں  میں رہ رہا ہوں، لیکن اتنے سالوں میں کبھی بھی اس طرح 24 گھنٹے سے زیادہ وقت بنا کھانا پانی کے گھر نہیں لوٹنا پڑا۔’جب اس رپورٹر نے ان سے بات کی تھی، تب وہ ٹرین میں تھے۔ انہوں نے بتایا، ‘جو لوگ بسکٹ وغیرہ لےکر آئے تھے، وہ بسکٹ کھاکر بھوک مٹا رہے ہیں۔ میں کچھ لے لر نہیں آیا تھا، تو بھوکا بیٹھا ہوں۔’

آگے کہا، ‘بہت بھوک لگتی ہے، تو ایک گھونٹ پانی پی لیتا ہوں۔ پانی بھی زیادہ نہیں پی سکتا کیونکہ پانی کم ہی ملا ہے۔ آگرہ میں ٹرین رکی تھی، تو میں نے اسٹیشن پر موجود آر پی ایف والوں سے گزارش کی کہ ایک بوتل پانی بھر لینے دیں، لیکن انہوں نے ٹرین سے اترنے نہیں دیا۔’

وکیل پرساد کے پاس زمین نہیں ہے ۔ بہار میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دوسری ریاستوں  میں کام کرنے جانا پڑا۔ وہ فی الحال احمدآباد کے سیتاپور میں ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے کہا، ‘6 مئی کو ہمیں بہار کے لیے ٹرین کھلنے کی خبر ملی، تو میٹاڈور بھاڑا کر بٹھلاپور آئے اور قطار میں لگ کر رجسٹریشن کرائے۔’

وہ بہار لوٹ تو رہے ہیں، لیکن یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ بہار میں ہی رہیں گے یا دوبارہ دوسری ریاستوں  کی طرف رخ کریں گے۔انہوں نے بتایا،‘بہار میں کبھی کام ملتا ہے، کبھی نہیں، اس لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ لاک ڈاؤن جب تک رہےگا، تب تک تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔ لاک ڈاؤن ختم ہوگا، تو سوچیں گی۔’

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔