فیکٹ چیک: سپریم کورٹ میں 28 مئی کو مہاجر مزدوروں کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات پیش کرتےہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے ایک پرانے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا تھا کہ مزدوروں کی پریشانیوں کو دکھانےوالے لوگ گدھوں کی طرح ہیں۔حقائق بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ اصل میں ہوا ہی نہیں، یہ ایک جھوٹا وہاٹس ایپ فارورڈ ہے۔
گزشتہ 26 مئی کوملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاؤن میں پھنسے مہاجرمزدوروں کی حالت کو اپنی جانکاری میں لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اخبار اور میڈیا رپورٹ لگاتار لمبی دوری تک پیدل اور سائیکل سے جا رہے مزدوروں کی قابل رحم حالت کودکھا رہے ہیں، اس بارے میں مرکزی حکومت بتائے کہ اس نے کیا قدم اٹھائے ہیں۔
معاملے کو سننے کے لیے اگلی شنوائی کی تاریخ 28 مئی طے کی گئی، جس میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے حکومت کی جانب سے مہاجر مزدوروں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات عدالت کو سونپی۔ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جسٹس اشوک بھوشن کی قیادت والی اس بنچ کی شنوائی میں جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس ایس کے کول بھی شامل تھے۔
شنوائی کے دوران مہتہ نے دلیل دی تھی کہ مرکز کی جانب سے بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن ‘پروفیٹس آف ڈوم’(قیامت کے سفیر) صرف منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں اور گھرمیں آرام کرسی پر بیٹھےدانشورحکومت کی کوششوں کو پہچانتے تک نہیں ہیں۔
آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سوشل میڈیا پر بال کی کھال نکالتے ہیں، انٹرویو دیتے ہیں، ہر انسٹی ٹیوٹ کے خلاف لکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ ملک کے تئیں اظہار تشکربھی نہیں کرتے اور بحران سے نپٹنے کے لیے جو کام کیے جا رہے ہیں انہیں قبول کرنے کی حب الوطنی بھی ان میں نہیں ہے۔
SG conitnues:
"… a journalist had asked him – what happened to the child? He said I don’t know, I had to return home. Then the reporter asked him – how many vultures were there? He said one. The reporter said – no. There were two. One was holding the camera…."— Live Law (@LiveLawIndia) May 28, 2020
اس دوران سالیسیٹر جنرل نے ایک واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، ‘سال 1983 میں ایک فوٹوگرافر سوڈان گیا تھا جہاں اس کو ایک ڈرا ہوا بچہ ملا۔ اس کے پاس ایک گدھ بیٹھا تھا جو بچہ کے مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس فوٹوگرافر نے اس کا فوٹو کھینچا اور یہ نیویارک ٹائمس میں چھپا اور پھر فوٹوگرافر کو پلتجر ایوارڈ ملا۔ اس کے چار مہینے بعد اس نے خودکشی کر لی۔’
مہتہ نے اس کو جاری رکھتے ہوئے آگے کہا، ‘ایک بار اس فوٹوگرافر سے کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ اس بچہ کا کیا ہوا۔ تب فوٹوگرافر نے جواب دیا کہ مجھے نہیں پتہ، مجھے گھر واپس آنا تھا۔ پھر اس صحافی نے پوچھا کہ وہاں کتنے گدھ تھے۔ جواب ملا ایک۔ اس پرصحافی نے کہا نہیں دو۔ ایک کے ہاتھ میں کیمرا تھا…’
اب آلٹ نیوز کی جانچ میں سامنے آیا ہے کہ یہ کہانی ایک جھوٹے وہاٹس ایپ فارورڈ پر مبنی ہے۔ آلٹ نیوز نے شنوائی کے دوران موجود کچھ لوگوں سے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ سالیسیٹر جنرل مہتہ نے کہانی اسی صورت میں سنائی تھی۔مہتہ کی یہ کہانی مشہور فوٹو ‘د ی ولچر اینڈ د ی لٹل گرل‘ کے بارے میں ہیں، جسے 1993 میں سوڈان کے دورے پر گئے جنوبی افریقہ کے فوٹوگرافر کیون کارٹر نے کھینچا تھا۔ اس تصویر کو لےکردنیا بھر میں الگ الگ کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں۔
جو کہانی سالیسیٹر جنرل نے سنائی، وہ وہاٹس ایپ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کرنے والے گروپس میں گزشتہ ایک ہفتے سے فارورڈ کی جا رہی ہے۔ یہ حکومت کی مہاجر مزدوروں کی مشکلات کاحل نہ ڈھونڈ پانے پر ہو رہی تنقید کو خاموش کروانے کی کوشش لگتی ہے، جہاں کیون کارٹر کی کہانی کے ذریعے مہاجر مزدوروں کے المیہ کو سامنے لا رہے لوگوں کا موازنہ گدھوں سے کیا گیا۔
عدالت کی شنوائی میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے سوڈان کے قحط کا سال چھوڑکر پوری کہانی من وعن وہی سنائی جو وہاٹس ایپ پر شیئر ہو رہی ہے۔
فیکٹ چیک: یہ کہانی غلط ہے
کیون کارٹر کی کھینچی گئی یہ تصویر پہلی بار 26 مارچ 1993 کو سامنے آئی تھی۔ فوٹو میں دکھ رہی بچی کے بارے میں جب اس اخبار کو ڈھیروں لوگوں نے لکھا، تو 30 مارچ 1993 کو اخبار کے ایڈیٹوریل میں چھپا، ‘کئی قارئین نے بچی کے ساتھ کیا ہوا، اس بارے میں سوال کیے ہیں۔ فوٹوگرافر نے بتایا کہ گدھ کو بھگا دیے جانے کے بعد وہ تھوڑی ٹھیک تھی اور آگے بڑھ گئی تھی، لیکن وہ سینٹر پہنچی یا نہیں، اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔’
اس کے بعد کارٹر کی ان لوگوں کے ذریعے کافی تنقید کی گئی، جنہیں لگتا تھا کہ انہیں وہاں فوٹو کھینچنے کے بجائے اس بچی کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ ان کے بارے میں ٹائم میگزین میں چھپے مضمون کے مطابق یہ تنقید پلتزر کے ساتھ آئی شہرت کا نتیجہ تھی۔جنوبی افریقہ کے ایک صحافی نے اس ایوارڈ کو محض اتفاق بتایا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ انہوں نے یہ فوٹو سیٹ کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس مضمون میں بھی کارٹر اور کسی دوسرے صحافی کے بیچ ہوئی کسی بات چیت کا ذکر نہیں ہے جہاں انہیں گدھ کہا گیا ہو۔
ایک بیان جو اس گدھ والی کہانی کے سب سے نزدیک ٹھہرتا ہے، وہ ہے سینٹ پیٹرس برگ (فلوریڈا) ٹائمس میں چھپا ایک مضمون جہاں لکھا تھا، ‘ایک آدمی بچی کی تکلیف کا سہی فریم لینے کے لیے اپنا لینس ٹھیک کر رہا ہے۔ وہ بھی ایک شکاری ہی ہے… وہاں موجود ایک اور گدھ۔’
حالانکہ دنیا کی سب سے مشہور تصویروں کے بارے میں ٹائم میگزین کے ایک اورمضمون میں بتایا گیا تھا، ‘جب اس نے بچی کا فوٹو لیا، ایک موٹا گدھ پاس آکر بیٹھ گیا۔ کارٹر کو یہ کہا گیا تھا کہ بیماری کی وجہ سے کسی بھی متاثر کو چھونا نہیں ہے، اس لیے مدد کرنے کے بجائے انہوں نے وہاں 20 منٹ تک اس پرندے کے جانے کا انتظار کیا، لیکن جب ایسا نہیں ہوا تب کارٹر نے اسے ڈرا کر بھگایا۔ اس کے بعد بچی سینٹر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پھر کارٹر نے سگریٹ جلائی، اوپر والے سے کچھ کہا اور رونے لگا۔’
اس بات سے ایسا پتہ لگتا ہے کہ چونکہ صحافیوں کوقحط کے متاثرین کو بیماری کی وجہ سے چھونے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے کارٹر نے بچی کو نہیں اٹھایا۔ بلکہ اس کی مدد کے لیے اس گدھ کو بھگا دیا۔قابل ذکر ہے کہ 27 جولائی 1994 کو کارٹر نے خودکشی کر لی تھی۔ حالانکہ اس بارے میں کوئی مضمون یا جانکاری موجود نہیں ہے جو یہ بتائے کہ ان کی خودکشی کی وجہ ‘دی ولچر اینڈ دی لٹل گرل’ والی تصویر ہے۔
حالانکہ کچھ میڈیا رپورٹ یہ ضرور بتاتی ہیں کہ ان کی نجی زندگی میں کوئی استحکام نہیں تھا، معاشی پریشانیاں لگی رہتی تھیں۔ ان کے دوستوں نے بھی بتایا تھا کہ وہ ایک وقت پر سرعام خودکشی کی بات کرنے لگے تھے۔اس کے کچھ سالوں بعد پتہ چلا تھا کہ تصویر والے جس بچہ کو لڑکی سمجھا گیا، وہ اصل میں لڑکا تھا اور وہ اس قحط میں بچ گیا تھا۔ اس کے چودہ سال بعد اس کی موت ملیریا سے ہوئی۔