ہتھنی کی موت مسلم اکثریتی ضلع مالا پورم کے ایک دریا میں ہوئی تھی، تو مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا موقع کیسے گنوایا جاتا۔پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا حکمران بی جے پی اور اس کے حواریوں کے لیے ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔
اردو زبان کے مزاحیہ شاعر مر حو م ساغر خیامی نے کیا خوب کہا تھا؛
نفرتوں کی جنگ میں دیکھوتوکیا کیاکھوگیا
سبزیا ں ہندو ہوئیں، بکرا مسلماں ہوگیا
شاید ان کو خود بھی یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ 2008 میں ان کی وفات کے بعد ان کا یہ شعر اتنی جلد ہندوستان کے حالات کی اس قدر صحیح عکاسی کرےگا۔ سبزیوں کے علاوہ اب تو بندر اور ہاتھی بھی ہندو بنائے گئے ہیں، جن کو گزند پہچانے کی تاک میں خونخوا رمسلمان ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ لہذا ان کو بچانے کے لیےمسلمانوں کے سروں پر پروپیگنڈہ اور نفرت کی تلوار لٹکا کے رکھو۔حال ہی میں جنوبی صوبہ کیرالا میں ایک ہتھنی کی موت کو بہانہ بناکر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر افشانی کی۔
فلم اسٹار، کھلاڑی، سیاستدان نیز ہر معروف و غیر معروف شخص میدان میں آکر ہتھنی کی موت پر غمگین تھا اور سوگ منا رہا تھا۔ کسی بھی مخلوق کو چاہے وہ انسان ہو یا بے زبان جانوار کو ایذا دینا جائز نہیں ہے۔ مگر کاش ہتھنی کی موت پر سوگوار یہ حضرات کچھ ایسی ہی ہمدردی دہلی فسادات کے مظلوم و مقہور مہلوکین، پیٹ پیٹ کر مارے جانے والے اخلاق حسین اور لاک ڈاؤن کے شکار مزدوروں کے تئیں بھی دکھاتے، تو اس ہمدردی کی قدر و منزلت بھی بڑھ جاتی۔
حال ہی میں ٹی وی چینلوں پر دہلی-جئے پور قومی شاہراہ پر بھوک سے بے حال ایک مزدور کو ایک مردہ کتے کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھ کر بھی ان کا ضمیر نہیں جاگا۔ چونکہ اس ہتھنی کی موت کیرالا کے مسلم اکثریتی ضلع مالا پورم کے ایک دریا میں ہوئی تھی، تو مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا موقع کیسے گنوایا جاتا۔ جب تک یہ پتہ چلا کہ اس ہتھنی نے مالاپورم میں نہیں بلکہ ہندو اکثریتی پال گھاٹ علاقے میں پٹاخوں سے بھرا انناس کھایا تھا، جس سے اس کا منہ زخمی ہوا، تب تک فرقہ وارانہ ماحول بن چکا تھا۔
سوشل میڈیا پر یہاں تک لکھا گیا کہ چونکہ ہاتھی ہندوؤں کی ایک مذہبی علامت ہے، اس لیے مسلمانوں نے اس کو مارا۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممبر پارلیامان اور سابق وزیر مینکا گاندھی نے مالاپورم کو جرائم سے پر ضلع قرار دیا۔
خیر مجھے یاد آریا ہے کہ اس صوبہ کے متصل تامل ناڈو میں ایک ہاتھی کا قضیہ برسوں سے عدالتوں میں گردش کرتا رہا۔ معاملہ ہاتھی کے مذہب کا نہیں بلکہ اس کی ذات طے کرنا تھا۔ تامل ناڈو یا مدراسی برہمنوں کے دو فرقہ ہیں۔ بھگوان شیو کی پوجا کرنے والے فرقہ کو آئیر اور بھگوان وشنو کی پوجا کرنے والا فرقہ آئینگر کہلاتا ہے۔ آئینگر خود دو ذیلی فرقوں میں بٹے ہیں۔ شمالی تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے وڈاگالی، جو اشلوک و پوجامیں صرف سنسکرت زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کے ماتھے پر انگریزی حرف یو Uکی شکل کا قشقہ لگا ہوتا ہے۔ دوسرا ذیلی فرقہ تھنگالی ہے، جن کی اکثریت جنوبی حصہ میں ہے۔ یہ فرقہ سنسکرت کے علاوہ مقامی تامل زبان میں بھی اشلوک و پوجا ادا کرتا ہے۔ ان کے ماتھے پر انگریزی حرف وائی Yکی شکل کا قشقہ ثبت ہوتا ہے۔ جون 2015میں تری مالا کے ایک مندر میں کسی عقیدت مند نے ہاتھی دان میں دیا۔ جنوبی ہندمیں مندروں کو ہاتھی دان میں دینا قدیمی روایت ہے۔ جس کو اب متفقہ طور پر پجاریوں اور حکومت نے کسی حد تک بند کروادیا۔
انہوں نے اب شرط رکھی ہے کہ جو شخص مندر کو ہاتھی عطیہ میں دیتا ہے تو اس کو اس کی خوراک کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا۔ اکثر ہوتا یہ تھا کہ عقیدت مند ہاتھی مندر کے دروازے پر کھڑا کرتا تو تھا، مگر اس کی خوراک کی وجہ سے کئی بار پجاریوں کا دیوالیہ نکل جاتا تھا اور وہ پھر اس ہاتھی کو آوارہ گھومنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔
مند ر میں ہاتھی کیا پہنچا کہ آئینگر فرقہ کے دونوں ذیلی فرقہ آمنے سامنے آگئے۔ دونوں اس کے ماتھے پر اپنا نشان یا قشقہ ثبت کرکے اس کو اپنی ذات میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ وڈاگالی اسکے ماتھے پر Uکا نشان تو تھنگالی پجاری اس پر اپنا حق جماتے ہوئے Yکا نشان رنگنا چاہتے تھے۔ یہ تنازعہ جب عدالت پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسی طرح کا ایک مقدمہ 1792 سے اور ایک دوسرا کیس1942سے کورٹ کی غلام گردشوں میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹرانکور ریاست کے مہاراجہ نے 1942میں کانچی پورم کے مندر کو ایک ہاتھی دان میں دیا۔
بس کیا تھا کہ اس کی ذات پر ہنگامہ شروع ہوگیا۔چونکہ شاید مہاراجہ کو علم تھا کہ ہاتھی ایک قضیہ کھڑا کرسکتا ہے تو اس نے اس کے ماتھے پر وڈاگالی قشقہ رنگنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مگر دوسرے فرقے نے اس کو کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہ دونوں کیس ہندوستان کی عدالتی تاریخ کے قدیم ترین مقدمے ہیں۔ دونوں ہاتھیوں کے اب باقیات بھی نہیں رہے ہیں، مگر کیس اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التو ا ہے، کیونکہ ان ہاتھیوں کے بدل لائے گئے تھے۔
نچلی عدالتوں میں برسہا برس کی مقدمہ بازی کے بعد1976 میں مدراس ہائی کورٹ نے دونوں فریقوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ دو ہاتھی مندر کو دیں۔ پجاریوں کے لیے لازم قرار دیا تھا کہ پوجا کے دوران دونوں ہاتھیوں کو یکساں طور پر شامل کریں اور دونوں ایک ہی طرح کی خوراک و احترام کے حقدار ہوں گے۔ دونوں فریقوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے اپنے ہاتھی کی خوراک اور دیکھ بھا ل کا خرچ بھی برداشت کریں۔ لیکن فریقین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھایا، جہاں تاریخ کا یہ طویل ترین کیس التوا میں ہے۔
برطانوی دور اقتدار میں 1854میں ضلع کلکٹر نے تھنگالی فرقہ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ مگر دوسرا فریق ہار ماننے والا نہیں تھا۔ نچلی عدالت، سیشن عدالت، ہائی کورٹ کی سنگل بینچ، ڈبل بینچ، ڈویژن بینچ، غرض فریقین نے عدالتی جنگ لڑنے اور ہاتھی کی ذات طے کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بقول معروف جرنلسٹ شاستری راما چندرن، جو خود بھی آئینگر برہمن ہیں، جب ایک کورٹ وڈاگالی فرقہ کے حق میں فیصلہ سناتا تھا تو لاو لشکر و بینڈ باجے کے ساتھ شہر میں ہاتھی کو گھما کر جشن منایا جاتا تھا۔ ہاتھی کے ماتھے پر تھنگالی قشقہ رگڑ رگڑ کر صاف کرایا جاتا تھا۔
چنگارڈ کر ہاتھی اپنی تکلیف بھی ظاہر کرتا تھا، جس کا اس ہجوم پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جب دوسری عدالت سماعتوں کے بعد پچھلی عدالت کے فیصلہ کاالعدم قرار دےکر پھر ہاتھی تھنگالی فرقہ کے حوالے کرتی تھی، تو بس پھر جشن منانے کی باری اس فرقہ کی ہوتی تھی۔ایک بار پھر ہاتھی کے ماتھے سے وڈاگالی قشقہ رگڑ رگڑ کر صاف کرکے اس کو نہلاکر پھر Yوالا قشقہ ثبت کیا جاتا۔ اس دوران مدراس کے کثیر الاشاعت روزنامہ دی ہندو کا وطیرہ بھی عجیب و غریب تھا۔ چونکہ اس کے مالکان بھی آئینگر برہمن ہیں تو جب فیصلہ ان کے ذیلی فرقہ کے موافق آیا تھا تو خبر سرورق پر نمایاں طور پر شائع کی جاتی تھی، اور جب فریق مخالف کے حق میں فیصلہ آتا تھا تو، کسی اندر کے صفحہ پر خبر دبائی جاتی۔ اس پورے قضیہ کے دوران ہاتھی کو بار بار قشقہ مٹانے اور نیا قشقہ پینٹ کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔
کہتے ہیں کہ کیرالا کے بعض مقامات میں کافی عرصے سے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو جنگلی سوروں سے بھاری نقصان کا سامنا ہورہا تھا، تو حکومت کی جانب سے جنگلی سوروں کو مارنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔کسانوں نے پھلوں کے اندر بارود بھر کررکھنا شروع کیا، جس کو کھاتے ہی سور کی موت ہوجاتی۔لگتا ہے کہ بد قسمتی سے یہ پھل ایک حاملہ ہتھنی کے منہ لگ گیا، جس سے اس کا منہ زخمی ہوگیا ا ور درد سے پریشان وہ ادھر ادھر بھاگ کر مالاپورم پہنچ گئی۔جہاں و ہ گلے گلے تک پانی میں جا کر کھڑی ہو گئی۔
اسی عرصے میں اس کی موت ہو گئی اور وہ پانی میں گر گئی۔ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کے منہ میں زبردست زخم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ دو ہفتے تک نہ تو کچھ کھا سکی تھی نہ ہی پی سکی تھی۔یہ محض ایک اتفاق ہی تھا، مگر اس معاملے کو بڑی تیزی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا حکمران بی جے پی اور اس کے حواریوں کے لیے ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔ملک میں جنتی زیادہ معاشی ابتری اور کورونا سے نپٹنے میں ناکامی سے عوام کی حالت بگڑتی چلی جائےگی، فرقہ واریت اور پاکستان مخالف جذبات کو بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہوا دی جائےگی۔
Categories: فکر و نظر