تمل ناڈو کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے 2020-21 میں انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل اور ڈینٹل میڈیکل نصاب کے لیے کل ہند کوٹہ میں تمل ناڈو کے ذریعے چھوڑی گئیں سیٹوں میں اوبی سی کے لیے 50 فیصد سیٹیں ریزرو کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعرات کو کہا کہ ریزرویشن بنیادی حق نہیں ہے۔ عدالت نے او بی سی کے لیے 50 فیصد سیٹیں محفوظ کرنے کے لیے دائر کی گئی عرضی پرشنوائی کے دوران یہ بات کہی۔تمل ناڈو کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے 2020-21 میں انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل اور ڈینٹل میڈیکل نصاب کے لیے کل ہند کوٹہ میں تمل ناڈو کے ذریعے چھوڑی گئیں سیٹوں میں دیگر پسماندہ کمیونٹی کے لیے 50 فیصد سیٹیں ریزرو کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔
پارٹیوں نے کہا تھا کہ ان کی یہ عرضی سینٹرل انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ دوسرے تعلیمی اداروں میں ریاست کے اوبی سی کے لیے 50 فیصدی سیٹ کو محفوظ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کئے جانے کے خلاف ہے۔حالانکہ عدالت نے یہ عرضی خارج کر دی۔
جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس کرشنا مراری اور جسٹس ایس رویندر بھٹ نے عرضی گزاروں ڈی ایم کے، اےآئی ڈی ایم کے، سی پی آئی(ایم)، سی پی آئی اور تمل ناڈو کانگریس کمیٹی کو کہا کہ وہ اس معاملے کو لےکر مدراس ہائی کورٹ کے پاس جائیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق جسٹس راؤ نے کہا، ‘ہم اس بات کی ستائش کرتے ہیں کہ سبھی سیاسی پارٹی پسماندہ کمیونٹی کی فلاح کو لے کرفکرمند ہیں، لیکن ریزرویشن بنیادی حق نہیں ہے۔’
کورٹ نے سوال کیا کہ آرٹیکل32 کے تحت یہ عرضی کیوں دائر کی گئی ہے۔ ایسا صرف ان معاملوں میں کیا جا سکتا ہے، جہاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں کس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔اس پر ڈی ایم کے کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل پی ولسن نے کہا کہ تمل ناڈو کے ایک قانون کونافذ نہیں کرکے خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
جسٹس ایل ناگیشور راؤ نے کہا، ‘آپ کو اس عرضی کو واپس لینا چاہیے اور مدراس ہائی کورٹ کے پاس جائیے۔ آپ کا معاملہ صرف تمل ناڈو میں 50 فیصدی ریزرویشن نافذ کرنے کا ہے۔’عرضی میں مرکز کے اس فیصلے کو چیلنج دیا گیا تھا، جس میں کل ہند کوٹہ میں تمل ناڈو کے ذریعے چھوڑی گئیں میڈیکل سیٹوں میں اوبی سی کے لیے 50 فیصد سیٹیں محفوظ نہیں کی گئی تھیں۔
Categories: خبریں