لداخ میں ہندوستان-چین سرحد پر ہوئی پرتشدد جھڑپ کے بعد چین کے ذریعے کچھ ہندوستانی فوجیوں کو قیدی بنانے کی بات سامنے آئی تھی، لیکن فوج نے کسی بھی فوجی کے لاپتہ ہونے سے انکار کیا تھا۔دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق چین نے جمعرات شام کو ایک لیفٹننٹ کرنل اور تین میجر سمیت 10 فوجیوں کو رہا کیا ہے۔
نئی دہلی:لداخ کی گلوان گھاٹی میں ہندوستان اور چین کے بیچ ہوئی پرتشدد جھڑپ میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد قیاس آرائی تھی کہ کچھ جوان چین کے ذریعے قیدی بنا لیے گئے تھے، لیکن فوج کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔اب دی ہندو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے اس جھڑپ کے تین دن بعدجمعرات شام کو ایک لیفٹننٹ کرنل اور تین میجر سمیت 10 فوجیوں کو اپنی حراست سے رہا کیا ہے۔
ایک دفاعی ذرائع نے اس اخبار سے کو بتایا کہ بدھ کو میجر جنرل سطح کی بات چیت کے بعد ہوئے ایک قرار کے بعد شام تقریباً پانچ بجے ان کوچھوڑا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔اس سے پہلے ہندوستانی فوج کے ذریعے ایک الگ بیان جاری کرکے یہ وضاحت دی گئی تھی کہ ‘اس جھڑپ میں کوئی ہندوستانی دستہ لاپتہ نہیں ہوا ہے۔’
جھڑپ میں زخمی ہوئے تھے 76 فوجی
جمعرات دوپہر کو ہندوستانی فوج کی جانب سے بتایا گیا کہ گلوان گھاٹی میں ہوئی پرتشدد جھڑپ میں 76فوجی زخمی ہوئے تھے اور اب وہ اسپتال میں ہیں۔
58 personnel that are at other hospitals have minor injuries, hence the optimistic timeframe of one week for their recovery: Indian Army Sources #GalwanValleyClash https://t.co/xVqyPUORXE
— ANI (@ANI) June 18, 2020
فوج کے ذرائع کی طرف سےبتایا گیا، ‘ان میں سے کوئی بھی شدید طور پرزخمی نہیں ہے، ان کی حالت مستحکم ہے۔ 18 فوجی ہمارے لیہہ کے اسپتال میں بھرتی ہیں اور وہ 15 دنوں میں ٹھیک ہوکر واپس ڈیوٹی پر آ جائیں گے۔ 58 فوجی دیگر اسپتالوں میں ہیں۔ وہ شاید ہفتے بھر میں کام پر واپس آ جائیں گے۔’
فوج کی جانب سے بتایا گیا کہ دیگر اسپتالوں میں بھرتی 58 فوجیوں کو معمولی چوٹیں آئی ہیں، اس لیے ان کے جلدی ٹھیک ہونے کی امید ہے۔
‘ہندوستانی فوج کے پاس ہتھیار تھے’
اس بیچ ایک وضاحت میں وزیر خارجہ ایس جئےشنکر نے کہا کہ ہندوستانی فوج، جو تعداد میں زیادہ تھے اور جن پر چین کے ذریعے حملہ کیا گیا، وہ ہتھیاروں سے لیس تھے۔
Let us get the facts straight.
All troops on border duty always carry arms, especially when leaving post. Those at Galwan on 15 June did so. Long-standing practice (as per 1996 & 2005 agreements) not to use firearms during faceoffs. https://t.co/VrAq0LmADp
— Dr. S. Jaishankar (@DrSJaishankar) June 18, 2020
کانگریس رہنما راہل گاندھی کے ایک ٹوئٹ کے جواب میں وزیر خارجہ نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘سرحد پر ڈیوٹی کر رہے تمام فوجی اہلکار ہمیشہ ہتھیار رکھتے ہیں،بالخصوص تب جب وہ چوکی چھوڑکر جا رہے ہوں۔ 15 جون کو جو گلوان میں تھے، انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ جھڑپ کے دوران ہتھیار استعمال نہ کرنے کی یہ روایت(1996 اور 2005 کے قرار کے مطابق)لمبے عرصے سے چلی آ رہی ہے۔’
ہندوستان چین سرحدی علاقے میں ایل اے سی پر فوجی علاقےمیں ‘اعتماد سازی’ کے لیے سال 1996 میں ہندوستان اور چین کے بیچ ہوئے سمجھوتے کے آرٹیکل 6 کے مطابق، ‘ایل اے سی سے دو کیلومیٹر کے اندر نہ تو کوئی کھلے میں گولی باری، نہ ہی بایوڈی گریڈیشن یا خطرناک کیمیکلز کا استعمال کرےگا، نہ ہی دھماکے کیے جا ئیں گے نہ ہی بندوق یا دھماکہ خیز دھماکہ کا ااستعمال ہوگا۔ یہ پابندی چھوٹی فائرنگ رینج میں فائرنگ کی باقاعدہ سرگرمیوں پر نافذ نہیں ہوگی۔’
جئےشنکر کے اس سمجھوتے کی بات کرنے پر سابق ناردن آرمی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا تھا کہ ایسے سمجھوتے بارڈر مینجمنٹ کے وقت نافذ ہوتے ہیں، فوجی حالات میں نہیں۔واضح ہو کہ مشرقی لداخ میں سوموار رات گلوان گھاٹی میں چینی فوجیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں ہندوستانی فوج کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
تب سرکاری ذرائع نے کہا تھا کہ چینی فوج بھی اتنی ہی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں، لیکن چین کی طرف سے اب تک اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔سال 1967 میں سکم کے ناتھو لا میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے بیچ یہ سب سے بڑا تصادم تھا۔اس وقت ہندوستان کے 80 فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 300 سے زیادہ چینی فوجی اہلکار مارے گئے تھے۔
Categories: خبریں