اپوزیشن کے سوال کرنے کو چھوٹا پن بتایا جا رہا ہے۔ 20 جوانوں کی ہلاکت کے بعد کہا گیا کہ بہاررجمنٹ کے جوانوں نے شہادت دی،یہ بہار کے لوگوں کے لیےفخر کی بات ہے۔دوسری ریاستوں کے جوان بھی مارے گئے، ان کا نام الگ سے کیوں نہیں؟ صرف بہار کا نام کیوں؟ کیا یہ بیہودگی نہیں ہے؟
اپوزیشن سے پختگی کی توقع کی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی کہا جا رہا ہے کہ وہ شرافت کا مظاہرہ کرے، چھوٹا پن نہ دکھائے۔راہل گاندھی کے طنزیہ ٹوئٹ کو ان کا چھوٹا پن کہا جا رہا ہے۔ انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ یہ وقت طنز کرنےاورحکومت کا مذاق اڑانے کا نہیں ہے۔
اپوزیشن کے سوال کرنے کو ہی اس کا چھوٹا پن بتایا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ رہا کہ اصل کمینگی اس پروپیگنڈہ میں ہے کہ اپوزیشن اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے بیچ کوئی خفیہ معاہدہ ہے۔غورطلب ہے کہ 20 جوانوں کے مارے جانے کے بعد کہا گیا کہ بہار رجمنٹ کے جوانوں نے شہادت دی،یہ بہار کے لوگوں کے لیےفخر کی بات ہے۔ یہ انتہائی درجے کی بے شرمی ہے کہ ان ہلاکتوں کا بہار انتخاب کے لیے استعمال کیا جائے۔
اڑیسہ،تلنگانہ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ کے جوان بھی مارے گئے ہیں، ان کا نام الگ سے کیوں نہیں؟ کیوں صرف بہار کا نام؟کیا یہ بےشرمی نہیں؟ ویسے ہی جیسے پلوامہ میں جوانوں کی موت کابے شرمی سے انتخابی استعمال بے بیہودگی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ راشٹریہ جنتا دل اور عام آدمی پارٹی کوکل جماعتی اجلاس سے باہر رکھنا کمینگی تھی اور کچھ نہیں۔
آخر یہ دونوں بھی تو ہندوستان کے ایک بڑے حصہ کی نمائندگی کرتی ہیں؟ہندوستان کے بارے میں فکر کرنے کا حق کس کو ہے، یہ کیا حکومت طے کرےگی؟کیا یہ تعجب کی بات ہے کہ ان کو فطری مانا جا رہا ہے؟ ان پر کہیں سے ویسامدیرانہ ردعمل نہیں آیا جیسا راہل گاندھی پر فوراً کر ڈالا گیا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ صاف کرنا چاہتا ہوں کہ مجھےاشتعال انگیز ردعمل، مذاق، کھلی اڑانے، پھبتی کسنے پر قطعی بھروسہ نہیں۔راہل گاندھی اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی سطح پر نہ اتر جائیں، یہی ان کی سیاست کے لیے مناسب ہے۔لیکن جو ’55 کروڑ کی گرل فرینڈ’ اور ایک خاتون رہنما کے لیے ‘جرسی گائے’ جیسے پھوہڑ جملوں کوانتخابی تشہیر کی تسلیم شدہ زبان مانتے ہیں، وہ‘سریندر اورسرینڈر’کے کھیل سے تلملا اٹھے ہیں، تو اس کی وجہ زبان کا معیارنہیں، بلکہ یہ ہے کہ ان کی زبان اور کوئی کیسے استعمال کر سکتا ہے!
‘اس قومی بحران کی ساعت میں، جب دشمن ملک کی سرحد پر کھڑا ہے، پورے ملک کو ایک آواز میں بات کرنی چاہیے،’ اس بات سے شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔لیکن یہ سوال کیا ہی جائےگا کہ کیا حکومت سب سے اپنی ہم نوائی کا مطالبہ کر رہی ہے یا وہ بھی اپنی آواز بدلنے کو تیار ہے؟ یعنی کیا وہ دوسری آوازوں کو کان دینے کو راضی ہے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جو مانگ ہے وہ یہ کہ سب چپ ہو جائیں۔ یہ قطعی دانشمندی نہیں ہے اور نہ یہ ملکی مفاد میں ہے کہ حکومت کےاس مطالبے کے آگے ہونٹ سل لیے جائیں۔بدقسمتی سے قوم ہوں یا ملک، وہ لوگوں سے زیادہ اپنی سرحدوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔سرحد یاسرحد کی خلاف ورزی ملک ی وقارکی توہین مانی جاتی ہے۔
یہ جغرافیہ کو قومیت کی بنیاد ماننے والوں کا خیال ہے۔ اس لیے‘انچ انچ زمین کے لیے ہزار ہزار جان قربان’ کا نعرہ اتنا سہل اور واجب جان پڑتا ہے۔قومی سلامتی کا مطلب سرحدوں کی حفاظت ہو جاتی ہے۔ جن کا’ راشٹرواد’ اس سمجھ اور اس زبان سے تیارہو رہا ہو، ان سے اگر سرحد کی خلاف ورزی کو لےکر سوال کیا جائے، تو ان کے بدکنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
یہ سوال کیا ہی جائےگا اور اس کے لیے اور کوئی بہتر وقت نہیں آئےگا کہ چین اور ہندوستان کے بیچ ایل اے سی کے ہندوستانی حصہ میں چینی اور ہندوستانی فوج میں ہاتھاپائی ہوئی یا چینی حصہ میں؟وزیر اعظم نے کل جماعتی اجلاس میں جو کہا اسی سے یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ بہت سادہ اور عام فہم جملہ تھا اور اس کی تشریح کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
‘نہ کوئی وہاں ہماری سرحد میں گھسا تھا اور نہ گھس آیا ہے اور نہیں کوئی گھسا ہوا ہے، نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے۔’
یہ انہوں نے تب کہا جب گلوان وادی میں 20 ہندوستانی فوجی مارے جا چکے تھے اور کچھ کے چین کی گرفت میں ہونے کی خبریں عام ہو چکی تھیں۔حکومت چاہتی نہ تھی کہ یہ سب کچھ عوام کو معلوم ہو۔ لیکن بھلے ہی وہ سارے میڈیاکو قابو کر چکی ہو، ایماندار اور بہادر لوگوں کی ابھی بھی کمی نہیں ہے، جو خود کو ملک کی عوام اورسچائی کے لیے پرعزم مانتے ہیں نہ کہ حکومت کے وفادار۔
ان کی وجہ سے یہ خبر ہمیں ملی کہ ایل اے سی کےآس پاس اب سابقہ صورتحال نہیں رہ گئی ہے۔ چین کوئی 50 کیلومیٹر آگے آ گیا ہے۔ اس نے عارضی ڈھانچے کھڑے کر لیے ہیں۔یہ سابق فوجی افسروں نے فوج میں اپنے ذرائع سے معلوم کرکے بتلایا۔ حکومت انکار کرتی رہی۔ جب ان خبروں کا اور کانگریس پارٹی کے سوالوں کا دباؤ بڑھتا گیا، تب جاکر وزیر دفاع نے مانا کہ چینی بڑی تعداد میں وہاں آ گئے ہیں۔
‘آ گئے ہیں’ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنا کوئی خطرناک عمل نہیں ہے۔ لیکن فوراً ہی معلوم ہو گیا کہ جملہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ چڑھ آئے ہیں۔یعنی آنا اتفاق نہیں تھا، منصوبہ بند حملے کی تیاری تھی۔ پھر کوئی تذبذب، کوئی الجھن نہیں رہ گئی۔ ہندوستانی جوانوں کی موت کو چھپایا نہیں جا سکتا تھا۔
اوراپوزیشن نے وہ پوچھا جو اسے اس جمہوریت کے تصورکے اندر پوچھنا ہی تھا: چینی تیاری کی خبر ہمیں کیوں نہیں تھی؟ کیا ہمارا خفیہ سسٹم کمزور پڑ گیا ہے؟کشیدگی اور پر تشددصورتحال میں ہمارے فوج نہتے کیوں تھے؟ کیا ہمارے جوانوں کو غیر محفوظ حالت میں جان بوجھ کر ڈالا گیا یا یہ وہاں کی قیادت کی غلطی تھی۔ اگر کوئی سرحد میں گھسا نہیں تو پھر یہ ہلاکتیں ہوئیں کیسے؟
پھر وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دےکر ہی کیوں چین دعویٰ کر رہا ہے کہ ان کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ چین نے سرحد میں دراندازی نہیں کی، دراصل ہندوستان کے جوان اس کی سرحد میں گھس گئے تھے جس کی قیمت انہیں چکانی پڑی، چینی فوج کو اپنی سرزمین کی حفاظت کرنی ہی تھی۔
چین کے مطابق، چین بھی تو وہی کہہ رہا ہے جو ہندوستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ نہ تو وہ ہندوستان کی سرحد میں گھسا تھا، نہ اس کے اندر ابھی ہے، ہندوستانی پوسٹ کے اس کے قبضے میں ہونے کی بات ہی پھر کہاں اٹھتی ہے!چین کے بیان کے بعد یہ سوال تو ہونا ہی تھا کہ کیاوزیر اعظم نے اپنے بیان سے ملک کے نقشے میں ترمیم کر ڈالی ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا چین کے دعوے کے آگے سرینڈر کر دیا گیا ہے؟
الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس طرح کے سوال غیر ذمہ دارانہ ہیں، وہ جنگی حالات پیدا کرتے ہیں جبکہ کورونا کی اس مشکل ساعت میں ہمیں پوری توجہ متحد ہوکر ملک کو اس وبا سے بچانے میں صرف کرنی چاہیے۔ہمارے وسائل دوسری سمت میں نہ لگیں،یہ احتیاط برتنی چاہیے۔جنگی ماحول غلط ہی نہیں بے وقوفی ہے، یہ تب معلوم پڑا جب ایک بڑے اور زیادہ طاقتور حریف سے سامنا ہوا۔
ورنہ کمزوری کے وقت وہ ملک کے لیے طاقتور مانا جا رہا تھا۔انتخابی پوسٹر پر بھی ‘گھس کر ماریں گے’ کا سڑک چھاپ دھمکی چھاپی جا رہی تھی اور کوئی اعتراض نہ تھا۔لیکن یہ بھی بتانا چاہیے کہ یہ سب ہی مل کر اس’ راشٹرواد’ کی تشکیل کرتے ہیں جو ملک میں اقلیتوں اور ہیومن رائٹس کے کارکنوں کو ملک مخالف ٹھہرا کر ان پر حملے کو ہی بہادری مانتا ہے۔
جنگ لڑنا دانشمندی نہیں ہے۔ گولا بارود سے زیادہ سوجھ بوجھ، جانکاری، ذہنی قوت اورحوصلے کی درکار ہے۔ بڑبولاپن آپ کے حامیوں کو نشہ میں ڈال سکتا ہے، لیکن اس سے آتی ہے بےہوشی اور لاپرواہی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔سفارت کاری ایک فرد کا پروپیگنڈہ نہیں ہے۔ اپنی صورت کے لیے ملک ملک میں آئینہ ٹنگوا دینا حب الوطنی نہیں، نرگسیت ہے۔
چین کے سربراہ کا مکھوٹا جب آپ نے اپنی عوام کو پہنا دیا تو اس نے آپ کے اندر کے لجلجےپن کو پہچان لیا۔سفارت کاری میں دوسرے ممالک میں پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ ان سے رہنما کے چاہنے والوں میں، جو احساس کمتری کے شکار ہیں، غلط فہمی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن وہ ان ممالک میں آپ کےملک کے لیے نیک خواہشات میں اضافہ نہیں کرتی۔
حکومت کہہ رہی ہے اور ہمارے بہت سے فیاض دوست بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سیاست کا وقت نہیں۔ یہ متحدہونے کا وقت ہے۔ لیکن حکومت اس وقت بھی سیاست کر رہی ہے۔بہار رجمنٹ کا استعمال، اسی ساعت میں دہلی میں مسلمانوں، طلبا اوردانشوروں پر تعزیراتی کارروائی، کشمیر میں ایک کے بعد ایک استحصالی فرمان، یہ اس ‘راشٹر وادی سیاست’ کے پرزے ہیں، جو پچھلے 6 سال سے ہندوستانی حکومت کی پالیسی ہے۔
ملک کوبری طرح سےتقسیم کر دیا گیا ہے اور اس میں سب سے بڑارول حکومت کا ہے۔ملک کے لوگوں کا حوصلہ حکومت توڑ رہی ہے، وہ ان کی زبان کھینچ لے رہی ہے اور ان پر چابک چلا رہی ہے۔اس وقت اس عوام سے جو یہ کہتا ہے کہ یہ وقت حکومت کی تنقید کا نہیں، حکومت کے پیچھے صف بندی کا ہے، وہ ملک مخالف نہیں، عوام مخالف ضرور ہے۔
(مضمون نگاردہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر