فکر و نظر

کورونا وائرس: حکومت نے غریبوں کو بچانے کی کوشش بھی نہیں کی

کورونا سےپیدا ہوئےبدترین حالات کو سنبھالنے میں مرکزی حکومت کی تمام حکمت عملیاں ناکام ہو چکی ہیں۔حکومت  کی اس ناکامی  کا خمیازہ  کئی نسلوں کو بھگتنا پڑےگا۔

(فوٹو:پی ٹی آئی)

(فوٹو:پی ٹی آئی)

دو مہینے کے سخت لاک ڈاؤن کے باوجود بھی آج کورونا وائرس کے انفیکشن کا گراف مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے طبی سہولیات میں اصلاح  کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہر تین میں سے دو اضلاع کے پاس آج بھی کورونا جانچ کا انتظام نہیں ہے۔

راجدھانی دہلی کے اسپتالوں میں بھی لوگ بیڈ کے فقدان میں مر رہے ہیں۔ مزدوروں کو غیرانسانی کورنٹائن سینٹر میں رکھنے، گھنٹوں تک راشن کی قطار میں کھڑاکروانے اور ہزاروں کیلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کرنے والی حکومت نے غریبوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

لگاتار گرتی معیشت اور تیزی سے بڑھ رہی بےروزگاری خبردارکرتی ہے کہ ہم مفلسی اوربھوک مری کی حالت میں جلد ہی پہنچنے والے ہیں۔

ظاہر ہے کہ کورونا سے نپٹنے میں مرکزی حکومت کی تمام حکمت عملیاں ناکام ہو چکی ہیں۔میرا ماننا ہے کہ حکومت کی اس ناکامی کاخمیازہ ہماری کئی نسلوں کو بھگتنا پڑےگا۔حکومت کےحامی سوال اٹھائیں گے کہ جب امریکہ جیسا سپر پاوربھی منھ کے بل گر گیا تو ہندوستان  کی حکومت کیا کر سکتی تھی؟

انہیں میرا جواب ہے کہ ہماری حکومت چیلنجز سے نپٹ سکتی تھی۔ شروعات کرتے ہیں ملک گیر لاک ڈاؤن سے۔کیا حکومت نے چار گھنٹے کے نوٹس پر لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے محکمہ صحت کے ماہرین، وبائی امراض کے ماہرین، ماہرین اقتصادیات اور ماہرین سماجیات سے کوئی رائے لی تھی؟

کیا حکومت نے یہ سوچا تھا کہ اچانک سے کروڑوں لوگوں کا روزگار چھین کر اور انہیں بھوک مری کی حالت میں ڈال کر کورونا سے کیسے لڑا جائےگا؟لاک ڈاؤن کے فیصلے کو میں غیراخلاقی  مانتا ہوں۔ ایسےملک میں جہاں ایک بڑی آبادی جھگیوں میں رہنے کو مجبور ہے اور انہیں پینے کا پانی تک نصیب نہیں ہے، وہاں صرف متمول افراد کی سہولیات کو دیکھتے ہوئے سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کا فرمان سنانا غیراخلاقی  اور نامناسب ہے۔

ہمارے سامنے جنوبی کوریا کی مثال موجود تھی۔جنوبی کوریا نے بنا کوئی لاک ڈاؤن کیے صرف زیادہ سے زیادہ جانچ اور عوامی بیداری کے ذریعے کورونا پر جیت حاصل کی ہے۔جب کورونا سے زیادہ متاثرہ حصوں میں لاک ڈاؤن لگایا ہی جا رہا تھا تو حکومت کو بتانا چاہیے تھا کہ ملک گیر لاک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پڑی۔

حکومت کو مزدور طبقے سے روبرو ہوکر اس کی وجہ بتانی چاہیے تھی۔ حکومت سائنسدانوں اورماہرین اقتصادیات سے مسلسل رائے لےکر اور پریس کانفرنس بھی کر سکتی تھی۔لاک ڈاؤن کی مدت تک ہر ایک فیملی کے پاس 7000 روپے کی مدد پہنچائی جا سکتی تھی۔ملک کے ہر شہری کو پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت راشن کے ساتھ  دال اور تیل بھی دیا جا سکتا تھا۔

ماہر اقتصادیات پربھات پٹنایک اور جئتی گھوش نے حساب لگایا ہے کہ ہر شہری کے پاس بالترتیب تین اور چھ مہینے تک یہ مدد پہنچانے میں جی ڈی پی کا 3 فیصدی حصہ ہی خرچ کرنا ہوگا اور راشن کے لیےحکومت ہند کو اپنے 77 ملین ٹن کے اشیائے خوردنی کے ذخیرے کامحدود وسائل ہی خرچ کرنا پڑےگا۔

اب چھوٹے اور منجھولے کاروبارکو ڈوبنے سے بچانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ لون چکانے میں چھ مہینے تک ان  کی مدد کرے۔اس راحت پالیسی کے لیے ہمیں امریکہ کے حالیہ سمجھوتے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر روزگار گارنٹ کے منصوبےپر خرچ کرنا چاہیے اور اس کی توسیع شہروں میں بھی کرنی ہوگی۔

حکومت کوکم از کم آمدنی کا کم سے کم آدھا حصہ پنشن کے طور پر دینا چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وبا کے وقت بزرگوں کو باہر نہیں جانا پڑے، جس سے انہیں انفیکشن کا خطرہ ہو۔مہاجرمزدوروں کے لیے حکومت کو لاک ڈاؤن سے پہلے کم سے کم ایک ہفتے کا وقت دینا چاہیے تھا۔ ابھی بھی حکومت اس سمت میں کام کر سکتی ہے۔


یہ بھی پڑھیں: لاک ڈاؤن میں پھنسے مزدور نے کہا-مودی کی نظروں میں ہم کیڑے ہی ہیں نا، تو ویسی ہی موت مریں  گے


ابھی حکومت ایک ہفتے مزدوروں کے لیے مفت ٹرینیں چلوائے جسے پہلے آؤ پہلے پاؤ کی طرزپر رکھا جائے۔ آج بھی لاک ڈاؤن کے نقصان کی بھرپائی کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مضبوط قوت ارادی  کی ضرورت ہے۔عام دنوں میں ملک کے 13452 ٹرینوں سے ہر روز 23 ملین لوگ سفر کرتے ہیں، لیکن پچھلے ایک مہینے سے بھی زیادہ  وقت میں صرف6 ملین مزدور ہی ٹرینوں سے سفر کرکے اپنے گھر پہنچ سکے ہیں۔

اب حکومت کو جھگی بستیوں میں ہر روز پانی کی مفت فراہمی کرانی چاہیے جس سے وہاں رہنے والے لوگ بھی صاف صفائی کا دھیان رکھ سکیں۔ذہنی صحت اور گھریلوتشددکو دھیان میں رکھتے ہوئے ہیلپ لائن بنانا چاہیے۔ ضرورت مندوں ،خاتون شیلٹر ہوم اور بچوں کے ہومزکو خالی کرایا جانا چاہیے اور یہاں رہ رہے لوگوں کو صفائی کے نقطہ نظرسے محفوظ  جگہ پر رکھنا چاہیے۔

جیلوں کے تحفظ کے لیے میں وہی حل بتاؤں گا جس کی ہدایت سپریم کورٹ دہائیوں پہلے دے چکی ہے۔ ویسےان تمام زیر سماعت  قیدیوں کو ضمانت دے دی جائے جنہوں نے کوئی بڑا جرم نہیں کیا ہے۔ان میں سے بھی 65 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو پوری وبا تک ضمانت دی جائے۔ چھوٹے جرائم کے مجرمین کو حکومت ضمانت دے۔

دہائیوں سے خستہ حال طبی سہولیات کو اچانک سے ٹھیک کر پاناناممکن ہوگا اس لیے یہاں حکومت کو اسپین سے سیکھنا چاہیے۔تمام پرائیویٹ اسپتالوں، اس کے وسائل اور اسٹاف  کی خدمات  لینی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت ایک بل پاس کر سکتی ہے۔اس بل میں یہ یقینی بنایا جائے کہ کورونا سےمتاثر کوئی بھی مریض علاج سے محروم نہیں رہےگا۔حکومت اس کا بھی دھیان رکھے کہ کورونا کے علاج کے لیے دوسری بیماریوں میں استعمال آنے والے وسائل کو نہ چھینا جائے۔ دوسری بیماریوں کے مریضوں کا بیڈ چھین کر کورونا متاثرین کے لیے لگانا غیر اخلاقی  ہوگا۔

اس وباکے شروعاتی دنوں میں ہی حکومت کو پی پی ای کٹ، وینٹی لیٹر اور جانچ کٹ جیسی چیزوں کی تیاری  میں دھیان لگانا چاہیے تھا۔آشا، آنگن باڑی اور صفائی اہلکار جیسے زمینی کارکنوں کو ان کا محنتانہ کم ملتا ہے اور نوکری کی گارنٹی بھی نہیں ہوتی۔حکومت کو اسٹیڈیم، یونیورسٹیوں اور ہوٹلوں کو اسپتال یا کورنٹائن سینٹر میں تبدیل کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ لندن سے آئے لوگوں کو رکھنے کے لیے حکومت نے اپنے خرچ پر مہنگے ہوٹلوں کا انتظام کیا، جو بالکل بے تکا تھا۔

اگر حکومت یہ سب خرچ اٹھا سکتی ہے تو باقی کا کیوں نہیں۔ ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اتنے بھاری خرچ کے لیے پیسہ کہاں سے آئےگا؟لاک ڈاؤن میں ڈھیل دینے والے اکثر ممالک نے اپنے جی ڈی پی کا 10 سے 20 فیصد خرچ کرنے کی بات کہی ہے جبکہ ہندوستان اپنےمجموعی خرچ کا 1فیصد سے بھی کم اس وبا کے لیے خرچ کر رہا ہے۔

اب حکومت ٹاپ 1فیصد امیروں کے اوپرملکیت ٹیکس اور33 فیصد وراثت ٹیکس لگاکر ان پیسوں کا انتظام کر سکتی ہے۔ اتنا کرنے سے یہاں بتائے تمام اخراجات کی بھرپائی ہو جائےگی۔کیا ہماری حکومت ان میں سے کوئی بھی قدم اٹھائےگی؟ اس کا سیدھا جواب ہے نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حکومت کی اتنی صلاحیت نہیں ہے یا ایسا ٹیکس لگاناممکن نہیں ہے۔

یہ بالکل ممکن ہے۔ کئی ممالک نے اپنے یہاں یہ ٹیکس لگائے بھی ہیں۔ اس کے نافذ نہ ہونے کے پیچھے صرف یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت اورمتمول افراد ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ہم آج جس انسانی المیے سے دوچار ہیں اس کا سارا قصورکووڈ 19 کے اوپر نہیں لگا سکتے۔ ہمیں یہاں صرف خود کو اور اس سماج کو قصوروارماننا چاہیے۔

(مضمون نگار سابق آئی اے ایس اورسماجی کارکن  ہیں۔)