نیپال کے وزیر اعظم کےپی شرما اولی نے ہندوستانی میڈیا،دانشوروں اور سرکار پر ان کی سرکار گرانے کی سازش کاالزام لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ دہلی کے میڈیا کو سنیں گے تو آپ کواشارہ مل جائےگا۔
نئی دہلی: نیپال کے وزیر اعظم کھڑگ پرساد شرما اولی نے الزام لگایا ہے کہ ہندوستان ان کے تختہ پلٹ کا منصوبہ بنارہا ہے۔ حالاں کہ نئی دہلی نے اس الزام پر ابھی تک کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔کے پی اولی کا کہنا ہے کہ نیپالی پارلیامنٹ میں انہیں اکثریت حاصل ہے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کی ہندوستان کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
نیپال کے اخباردی ری پبلیکا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نیپال کے وزیراعظم نے ہندوستانی میڈیا،دانشوروں اور سرکار پر ان کی سرکار گرانے کی سازش کا الزام لگایا ہے۔اولی کے حوالے سے اخبار نے لکھا، ‘دہلی میں میڈیا کو سنیے۔ جو (یہ) دکھاتا ہے۔ یہاں کے مختلف ہوٹلوں میں سرگرمیوں کو دیکھیے۔ (ہندوستانی)سفارت خانے کی سرگرمی دیکھیے، جس سے اس کا پتہ چلتا ہے۔’
وہیں نیپال کے اخبار کاٹھمنڈو پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق کے پی اولی نے اتوار کوایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،اس وقت جو دانش ورانہ تبادلہ خیا ل ہورہے ہیں اور نئی دہلی سے میڈیا میں جو خبریں آرہی ہیں نیز کاٹھمنڈو میں واقع سفارت خانے کی سرگرمیاں اور الگ الگ ہوٹلوں میں ہونے والی میٹنگوں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح سے لوگ سرگرم ہوکر مجھے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق،وزیر اعظم اولی کے بیان پرہندوستان نے فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔لیکن ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ہندوستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ نیپال اس کا قیمتی پڑوسی اور دوست ہے اورہندوستان نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ کووڈ 19کے بحران میں بھی نیپال کو تمام ضروری اشیاء کی سپلائی متاثر نہ ہونے پائے۔
نیپالی وزیر اعظم اولی نے ہندوستان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا،آپ نے بھی سنا ہوگا، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نیپال کے وزیر اعظم کو 15 دن میں ہٹا یا جاسکتا ہے۔ اگر مجھے اس مرتبہ ہٹایا گیا تو پھر کوئی بھی نیپال کے حق میں بولنے کی جرأت نہیں کرے گا کیوں کہ ایسا کرنے پر اسے فوراً برطرف کردیا جائے گا۔ میں اپنے لیے نہیں بول رہا ہوں میں ملک کی بات کررہا ہوں۔ ہماری پارٹی، ہماری پارلیامانی پارٹی اس طرح کے جال میں نہیں پھنسے گی۔ جو لوگ ایسا کررہے ہیں، انہیں کرنے دیجیے۔
نیپالی وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ جب سے انہوں نے نیپال کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے،اس کے بعد سے ہی ان کو برطرف کرنے کی سازشیں شروع ہوگئی ہیں۔ کے پی اولی کا کہنا تھا،نیپال کی قوم پرستی اتنی کمزور نہیں ہے۔ ہم نے اپنا نقشہ تبدیل کیا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نیپا ل کا نیا نقشہ منظور کرانا ’جرم‘ہے۔ اس ’جرم‘ کی وجہ سے ملک کے وزیر اعظم کو برطرف کرنے کے بارے میں نیپال کا کوئی شہری سوچ بھی نہیں سکتا۔
اگست 2016 میں بھی اولی کی اقتدار سے معزولی کے لیے ہندوستان پر انگلیاں اٹھائی گئی تھیں۔اس وقت وہ پہلی مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور صرف نو ماہ تک ہی اس عہدہ پر برقرار رہ سکے تھے۔ اولی کی معزولی کو چین کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا گیا تھا کیوں کہ بیجنگ نے ہندوستان پر نیپال کے اقتصادی انحصار کو کم کرنے کی خاطر کمیونسٹ رہنما اولی کی مدد کرنے کے لیے تجارت او ر توانائی کے شعبے میں کئی معاہدے کیے تھے۔ نیپالی وزیر اعظم نے کہا،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے چین کے ساتھ ٹرانزٹ معاہدے پر دستخط کیا تو مجھے برطرف کردیا گیا۔
نیپالی عوام کی اکثریت 2015-16 کی اقتصادی پابندی کے لیے اب بھی ہندوستان کو قصوروار گردانتے ہیں۔ نیپال میں نیا آئین منظور ہونے کے بعد ہندی نژاد مدھیشیوں کی طرف سے مظاہروں اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نیپالی عوام کو مہینوں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نیپال نے گزشتہ دنوں اس وقت بھی سخت ناراضگی کا اظہا رکیا تھا جب ملک کا نیا سیاسی نقشہ جاری ہونے پر ہندوستانی آرمی چیف ایم ایم نروانے نے چین کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ نیپال کس ملک کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ کے پی اولی کو ملک میں کئی محاذوں پر مخالفت کا سامنا ہے۔ کووڈ19سے نمٹنے کے حوالے سے بھی ان کی نکتہ چینی ہورہی ہے اور انہوں نے اس کی طر ف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے قوم پرستی کا کارڈ کھیلا، جس کا جواب ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔ حالانکہ نیپال کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ کے پی اولی کو کسی ایک ہی عہدہ پر فائز رہنا چاہیے۔ یا تو وہ پارٹی کے سربراہ رہیں یا پھر وزیر اعظم۔
سیاسی تجزیہ نگار سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیپال نے حالیہ عرصے میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ان میں ملک کا نیا سیاسی نقشہ منظورکرنا، شہریت قانون میں ترمیم کرنا، جس کی وجہ سے ہندوستانی خواتین کونیپالی مردوں سے شادی کرنے کے بعد اب سات برس کے بعد شہریت مل سکے گی اور ہندوستانی صوبے بہار کے چمپارن میں ایک ڈیم کے مرمتی کام کی اجازت دینے سے انکار کرنا۔ ان سب کے ذریعہ نیپال بظاہر اب اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنے پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے اور ہندوستان کو پیغام دے رہا ہے کہ نیپال کی حیثیت کو نظر انداز نہ کرے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں, عالمی خبریں