مودی کی طرح نتین ہاہو بھی غیر روایتی اور خطرات مول لینے والے سیاستدان ہیں۔جس طرح انتہا پسند ہندوؤں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے، اسی طرح یہودی انتہا پسندو ں کے لیے بھی نتین یاہو ایک عطیہ ہیں۔حالاں کہ اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نتین یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت،ہندوستان کے لیے ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے
گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیوں نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطہ تقریباً ایک ساتھ 1947-48 میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے بطور منصہ شہود پر آئے۔کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کے لیے ناسور بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں خون خرابہ ہو یا ہندوستان-پاکستان مخاصمت، یا مغربی ایشیامیں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش، ان سب کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا د نیاا گر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
ہندوستان نے 5اگست 2019کو جس طرح یکطرفہ کاروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتین یاہو بھی یکم جولائی کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے 30فیصد علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فراق میں تھے۔ فی الحال انہوں نے اس منصوبہ کو التوا میں رکھا ہے، کیونکہ ہندوستان کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ناروے کے شہر اوسلو میں 1993 اور 1995 میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غازہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے، وہیں غاز ہ میں اسلامک گروپ حمص بر سر اقتدار ہے۔
جس طرح ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014اور2019کے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، کچھ اسی طرح نتین ہاہو نے بھی یہودی انتہا پسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقہ کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں 65ہزار فلسطینی اور 11ہزار یہودی آباد ہیں۔
اوسلو اکارڈ کی رو سے مغربی کنارہ کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارہ کا 60فیصد علاقہ آتا ہے اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ مغربی ایشیا میں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتین یاہو کی اس بازی کا ایک مثبت پہلو یہ رہاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں تو مسئلہ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔
ہندوستان اور کشمیر کے برعکس نتین یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہی ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتہ 270سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ ادراروں موساد و شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نتین یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ ان کو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اسکو کنٹرول کرنے میں مصروف رہےگا، اور زیادہ تر وقت لا اینڈ آرڈر ڈیوٹیاں دینے سے اس کی جنگی کاردگری متاثر ہوگی۔
اندرون خانہ ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان آن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیاں اس مسئلہ پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان یعنی ڈیل آف دی سنچری ترتیب دیا ہے، کا کہنا ہے کہ نتین یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلہ سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ، نتین یاہو کی معیت میں وہائٹ ہاوس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو سامعین میں عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفرا میں شامل تھے۔
جس کا یہی مطلب لیا گیا کہ اس پلان کو ان عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔کوشنر کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مصر، سعودی عرب اور اردن کو بھی اس پلان پر راضی کروائےگا۔ حال ہی میں امریکہ کی طاقتور یہودی لابی نے کورونا وائرس کی کرائسس کے دوران ہی اپنا ایک اعلیٰ سطحٰ وفد ان ممالک کے دورہ پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کو حمایت نہیں دے پائیں گے۔ اردن نے بھی خبردار کر دیا کہ نتین یاہو کے منصوبہ سے خطے میں حالات انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔
ان ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ ان ممالک میں اس کے کئی پروجیکٹ پھنسے ہوئے ہیں۔ نتین ہاہو کا یک طرفہ پلان اس کے کئی منصوبو ں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں متحدہ امارات کے سفیر یوسف ال عتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامہ میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی تھی کہ تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔
مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کا وقتی ابال ہے اور اسرائیل سے زیادہ،خطے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کے لیے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے جب امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا اور ڈیل آف دی سنچری کو مشتہر کیا، تو اس وقت بھی کچھ اسی طرح کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔ اسرائیل، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔
پینے کے پانی کے لیے اردن، اسرائیل پر منحصر ہے۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے 85ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5بلین ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین اسرائیلیوں کو یہ بھی باور کرارہے ہیں کہ اگر ٹرمپ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکرٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کریں گے۔
دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بازو کے بطور کام کرتے ہیں، نتین یاہو کے اس پلان سے خائف ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اس وقت 6.8ملین یہودی رہتے ہیں، وہیں 7.2ملین یہودی دنیا کے دیگر 99ممالک میں آباد ہیں، جن میں 5.7ملین امریکہ کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکہ میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیامنٹ نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔
چونکہ اوسلو اکارڈ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولہ کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیےیورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پائیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہ راست امریکہ سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکہ کی 27ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں، جن کی رو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروں و ممالک کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔
نتین ہاہو اس وقت ایک مخلوط حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وہائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رو سے نتین ہاہو کو اگلے سال وزار اعظمیٰ کی کرسی بنی غانز کے لیے خالی کرنی پڑے گی۔
مودی کی طرح نتین ہاہو بھی غیر روایتی اور خطرات مول لینے والے سیاستدان ہیں۔جس طرح انتہا پسند ہندوؤں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے، اسی طرح یہودی انتہا پسندو ں کے لیے بھی نتین یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کے لیے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نتین یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا،اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انہوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا۔ اس میں 500 قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اس پر عبرانی میں نتین یاہو کھدا ہو ا تھا۔
اس سے انہوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید ہندوستان سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں ابھی اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجودیہودیوں کو ادراک تو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔
اس کا اندازہ تو 1973کی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر 2006میں جنگ لبنان اور 2014 میں غازہ جنگ بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لیے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔
اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نتین یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت،ہندوستان کے لیے ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کے لیے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی ا ور نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر