کرکٹ سے متعلق ہر چھوٹی بڑی جانکاری اور اعدادوشمار سے آراستہ رسالہ‘کرکٹ سمراٹ’ اب شائع نہیں ہوگا۔تقریباً 42 برسوں تک پورے ملک میں کرکٹ شائقین کے لیے کسی پسندیدہ ناول کی طرح مقبول اس رسالے کی اشاعت لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوئے نقصان کی نذر ہو گئی۔
آج کرک ان فو اور کرک بزجیسی ویب سائٹ کلک کرتے ہی کرکٹ سے متعلق ہر جانکاری کرکٹ شائقین کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ ہر ہاتھ میں موجود اسمارٹ فون میں ڈاؤن لوڈیڈ ان ویب سائٹ کے ایپ نے کرکٹ کی جانکاری کو حاصل کرنا اور بھی آسان بنا دیا ہے۔لیکن ایک دور وہ بھی تھا جب کرکٹ شائقین کا انٹرنیٹ سے کوئی رابطہ نہیں تھا، لیکن کرکٹ کی ہر جانکاری انہیں تب بھی ہوتی تھی۔
کسی کھلاڑی کے سب سے زیادہ نجی اسکور سے لےکر کسی ٹیم کے ذریعے پاری میں بنائے گئے سب سے زیادہ اور سب سے کم اسکور جیسے اعدادوشمارانہیں زبانی یاد رہتے تھے۔یہاں تک کہ دہائیوں پہلے ریٹائر ہو چکے جن کھلاڑیوں کو کھیلتے تک نہیں دیکھا تھا، ان کے بھی کھیلنےکی باریکی اسکول کالج کے طلبا اس طرح بتاتے تھے مانو وہ کرکٹ کے بہت بڑے ماہر ہوں۔
اور ایساممکن ہوتا تھا کرکٹ کے خالص رسالہ‘کرکٹ سمراٹ’کی وجہ سے۔ کرکٹ سے متعلق اس ماہانہ رسالے کو دہلی کے ‘دیوان پبلی کیشن’کے زیراہتماام 1978 سےشائع کیا جا رہا تھا۔ یعنی کہ تب سے جب ہندوستان میں کرکٹ کو لےکر ایسی دیوانگی نظر نہیں آتی تھی، جیسی آج ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 104 صفحات پر مشتمل اس رسالےمیں مہینے بھر کے کرکٹ ورلڈ کی ہر بات کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ہر بین الاقوامی میچ کا اسکور کارڈ، اس میچ میں بننے بگڑنے والے ہر ریکارڈ کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔ہندوستانی گھریلو کرکٹ کے اسکول سے لےکر،یونیورسٹی اور فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ تک کی جانکاری اور نتیجے درج ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ دوسرے ملکوں کے گھریلو کرکٹ کی بھی جانکاری اور ٹورنامنٹ کے نتیجے ‘کرکٹ سمراٹ’ میں پڑھنے کوملتے تھے۔
جس طرح مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کے لیے‘پرتی یوگتا درپن’ نام کا رسالہ ہر مہینےنکلتا ہے اور مہینے بھرمیں رونما ہونے والے تمام واقعات سےطلبا کو روبرو کراتا ہے، کچھ اسی طرح ‘کرکٹ سمراٹ’کرکٹ شائقین کوورلڈ کرکٹ کےواقعات سے روبرو کراتا تھا۔
اسی وجہ سےاس دور میں جب انٹرنیٹ نہیں تھا، تب بھی کرکٹ شائقین کو کرکٹ سے متعلق ہر ریکارڈ اور باریکی کی جانکاری ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ کھلاڑیوں کی پیدائش بھی زبانی یاد رہتی تھی۔یہی نہیں، کھلاڑیوں کے انٹرویو سے لےکر ان کی گھریلوزندگی، پارٹی اور میدان وغیرہ کی فوٹو گیلری بھی کرکٹ سمراٹ میں شائع ہوتی تھی، جو نئی نسل کو اس کھیل کے گلیمر کے سہارے کھیل کے لیے متوجہ کرتی تھی۔
کہہ سکتے ہیں کہ 1983 کے ورلڈکپ میں جیت کے بعد جب کرکٹ نے ملک میں مقبولیت حاصل کی، ‘کرکٹ سمراٹ’ اس سے بھی پہلے سے کرکٹ کو عوام تک پہنچانے کا کام کر رہا تھا۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو کرکٹ جب مقبولیت حاصل کرنے کے سفر پر تھا، تب اس کھیل کو لےکر لوگوں کی دلچسپی اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی بھوک کو مٹانے کا ایک ذریعہ‘کرکٹ سمراٹ’ بھی تھا۔
لیکن 42 سالوں سے چلے آ رہے ‘کرکٹ سمراٹ’کے اس یادگار سفر کا اختتام ہو گیا یعنی اب کرکٹ شائقین کو کرکٹ سمراٹ پڑھنے کو نہیں ملے گا کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سےکرکٹ سمراٹ پر بھی لاک لگ گیا ہے۔
پچھلے دنوں 20 مارچ کو جب اس کا اپریل2020 کا شمارہ دہلی کے دیوان پبلی کیشن سے ملک بھر میں تقسیم ہونے کے لیے نکلا تھا، تب قارئین تو چھوڑیے، پبلشر تک کو نہیں پتہ تھا کہ اس کے بعد کرکٹ سمراٹ وہ اب آگے نہیں نکال پائیں گے۔
‘کرکٹ سمراٹ’ کے مدیر اور دیوان پبلی کیشن چلانے والے آنند دیوان دی وائر سے بات چیت میں بتاتے ہیں،‘ہر ماہ کی طرح ہی وقت پر20 مارچ کو ہم نے اپریل کے شمارہ کو چھاپا اور ملک بھر میں تقسیم کے لیے بھیج دیا۔ لیکن 22 تاریخ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ہماری بھیجی ہوئی میگزین یا تو ریلوے اسٹیشن پر ہی رہ گئیں یا اسٹیشن سے آگے بھی بڑھیں تو اگلے اسٹیشن پر رک گئیں۔ پھر جب لاک ڈاؤن کھلا تو ڈسٹری بیوٹرس نے یہ کہہ کر اپنے اپنےآرڈرہمیں واپس بھیج دیے کہ پرانا شمارہ اب فروخت نہیں ہوگا۔’
آنند دیوان کے مطابق،گزشتہ کچھ سالوں میں جب سے انٹرنیٹ کی پہنچ لوگوں تک بڑھی، ‘کرکٹ سمراٹ’ کی اشاعت اسی سے نوے فیصد تک گھٹ گئی تھی، جس کی وجہ سے میگزین لمبے وقت سے لگ بھگ گھاٹے میں ہی چل رہا تھا۔وہ بتاتے ہیں،‘گھاٹے میں ہونے کے باوجود بھی ہم اس کو چلانا چاہتے تھے، سالوں سے بس اسی لیے چل رہا تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سےاتنا بڑا گھاٹا ہو گیا کہ ہم اسے جھیل نہیں سکے۔’
کوروناکی وجہ سے لاک ڈاؤن صرف بازاروں میں ہی نہیں ہوا، صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہوا، بلکہ پوری دنیامیں لاک ڈاؤن کے حالات بن گئے، کھیل کے میدانوں میں بھی لاک ڈاؤن ہو گیا، پوری دنیا میں کھیل کی سرگرمیاں رک گئیں۔ پوری دنیا میں کرکٹ بھی رک گیا۔
جب پوری دنیا میں کرکٹ ہی نہیں کھیلا جا رہا تھا تو میگزین نکالنے کا بھی مطلب نہیں تھا۔ اسی بہانے دیوان پبلی کیشن نے ‘کرکٹ سمراٹ’کے اگلے ایک دو شمارےنہیں نکالے۔آنند بتاتے ہیں،‘اس دوران ہم نے سوچا کہ کیا کرکٹ کی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد ہم ایسےاقتصادی حالات میں ہوں گے کہ میگزین نکال سکیں؟ پھر آخرکار طے کیا کہ اب یہ ممکن نہیں ہو پائےگا۔’
حالانکہ، آنند بتاتے ہیں کہ ایک بار کرکٹ شروع ہو جائے تو وہ‘کرکٹ سمراٹ’ کا ڈیجیٹل ایڈیشن لانے پرغور کریں گے۔ ساتھ ہی وہ‘کرکٹ سمراٹ’ کے رائٹس بھی فروخت کرنے پر غورکر رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں،‘ہماری طرف سے تو کرکٹ سمراٹ کی اشاعت بند ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لےکر آئیں۔ کیونکہ ڈیجیٹل میں اتنا نقصان نہیں ہوگا، جتنا اس بار پرنٹ میں ہوا ہے۔ ساتھ ہی اگر کوئی اس کا ٹائٹل لیتا ہے تو پھر اس کے اوپر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس کو پہلے کی طرح چھپواتا ہے یا پھر ڈیجیٹل نکالتا ہے۔’
بہرحال، یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جس ملک میں کرکٹ کا جنون دیوانگی کی حد تک ہو، جس ملک میں اس کھیل کے سب سے زیادہ شائقین ہوں، جس ملک کا کرکٹ بورڈ ورلڈ میں سب سے زیادہ امیر ہو اورورلڈکرکٹ کی معیشت کو متاثر کرتا ہو، جس ملک میں کرکٹ پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہو، اسی ملک میں کرکٹ کا واحد رسالہ(ہندی/انگریزی) کا بند ہو جانا حیران ضرور کرتا ہے۔
اس پر آنند دیوان کہتے ہیں،‘نئی نسل میں پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ میگزین پڑھنے کی عادت اب لوگوں میں اتنی زیادہ نہیں رہی۔ وہ سب چیزیں موبائل میں ہی ڈھونڈتے ہیں۔ کرک ان فو اور کرک بز جیسے ایپس میں ایک کلک کرتے ہی انہیں کرکٹ سے متعلق ہر مواد مل جاتا ہے۔ وہیں، جو پرانے لوگ پڑھتے تھے، انہوں نے بھی پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ جب قارئین ہی نہیں ملیں گے تو کب تک کوئی رسالہ خود کو بچائے رکھ پائے گا؟’
غورطلب ہے کہ دیوان پبلی کیشن‘کرکٹ سمراٹ’کے ساتھ ساتھ ‘ننھے سمراٹ’ نامی بچوں کا رسالہ بھی نکالتا تھا، وہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔بتا دیں کہ ‘کرکٹ سمراٹ’ کا انگریزی ایڈیشن2005 میں بند ہو گیا تھا۔ وہیں، کچھ سالوں پہلے تک ملک میں ہندی اورانگریزی میں ‘کرکٹ بھارتی’ اور ‘کرکٹ ٹو ڈے’ جیسے کچھ چنندہ رسالے بھی نکلا کرتے تھے۔
لیکن، وہ بھی سالوں پہلے بند ہو چکے ہیں۔ حالانکہ کرکٹ ٹو ڈے کاابھی بھی ڈیجیٹل ایڈیشن میں نکالا جا رہا ہے۔آنند دیوان کہتے ہیں،‘پرنٹ میڈیا کے لیے یہ بہت چیلنجنگ ہے، جو آگے اور بھی چیلنجنگ ہوتا جائےگا۔ میگزین پڑھنے کا رواج بہت ہی کم ہو جائےگا، مجھے تو لگتا ہے کہ ڈیلی نیوزپیپر کو بھی خود کو بچائے رکھنا آسان نہیں ہوگا۔’
حالانکہ،‘کرکٹ سمراٹ’کے ایک ڈسٹری بیوٹر رجت اگروال کہتے ہیں،‘کرکٹ سمراٹ کی مانگ پہلے کی طرح بھلے ہی نہ رہی ہو، لیکن آج بھی اس کے قاری تھے۔ لیکن ہم نے ہی اسے منگانا محدودکر دیا تھا کیونکہ 60 روپے کی میگزین آتی تھی اور اگر کچھ میگزین فروخت نہیں پاتی تھیں تو پبلی کیشن والے انہیں واپس نہیں لیتے تھے، جبکہ دوسرے پبلی کیشن فروخت نہ ہونے پر اپنی میگزین واپس لے لیتے ہیں۔اس صورت میں نقصان ہماری جیب پر آتا تھا اس لیے بھی میگزین کا سرکولیشن کم ہوا تھا۔’
بہرحال، جب سے ملک میں کو روناکی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوا، تب سے لگاتار میڈیا ہاؤسز کی طرف سے بری خبریں ہی آ رہی ہیں۔میڈیااہلکاروں کی نوکریاں لگاتار جا رہی ہیں۔ اسی کڑی میں‘کرکٹ سمراٹ’ بند ہو جانے سے وہاں کام کرنے والے تقریباً درجن بھر لوگ بےروزگار ہو گئے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر