گزشتہ چارمہینوں میں جہاں ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی لگاتار اپنی تقاریر میں کورونا وائرس کو لےکر سائنسی رویہ رکھنے کی بات کرتے نظر آئے، وہیں ان کی پارٹی کےرہنما اور وزیر اس وبا کو لےکرسب سے زیادہ اوٹ پٹانگ بیان،غیر سائنسی اور مضحکہ خیز دلیل دیتے رہے ہیں۔
وزیر داخلہ امت شاہ گزشتہ اتوارکو کورونا پازیٹو پائے گئے۔اسی دن کرناٹک کےوزیر اعلیٰ بی ایس ایڈی یورپانے بھی خود کے پازیٹو ہونے کا اعلان کیا۔تمل ناڈو کے گورنر بنواری لال پروہت میں بھی انفیکشن کی تصدیق اتوارکو ہی ہوئی۔ اسی دن خبر آئی کہ اتر پردیش بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ اورآب پاشی کے وزیر مہیندر سنگھ بھی انفیکشن کا شکار ہو گئے ہیں۔
وہیں، یوپی کی ہی تکنیکی تعلیم کی وزیرکمل رانی ورون نے تو کورونا کی وجہ سے دم ہی توڑ دیا۔بی جے پی رہنماؤں میں کوروناانفیکشن کی یہ تو صرف اتوار دو اگست کی خبریں ہیں۔ اس سے پہلے بھی ملک بھر سے لگاتار بی جے پی رہنماؤں کے انفیکشن کی چپیٹ میں آنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔
کچھ ہی دن پہلے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان بھی پازیٹو پائے گئے تھے۔ راجیہ سبھا ممبر جیوترادتیہ سندھیا بھی پازیٹو ہو چکے ہیں۔مدھیہ پردیش میں تو عالم یہ ہے کہ ریاسی صدر وشنودت شرما، ریاستی انچارج سہاس بھگت سمیت سرکار میں وزیر ارویند بھدوریا، اوم دھیہ پردیش کاش سکلیچا، تلسی سلاوٹ اورکئی ایم ایل اےکورونا کا شکار بن چکے ہیں۔
لگاتار ملک کی مختلف ریاستوں سے بی جے پی رہنماؤں کے پازیٹو پائے جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ہریانہ کے حصار سے ایم پی برجیندر سنگھ،مغربی بنگال بی جے پی کی جنرل سکریٹری اور ہگلی ایم پی لاکیٹ چٹرجی اور راجستھان میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی آرایل پی ایم پی ہنومان بینی وال اور راجیہ سبھا ایم پی ڈاکٹر کروڑی لالہ مینا ان میں اہم نام ہیں۔
غور کرنے والی بات ہے کہ ملک میں اس پورے کوروناکے بحرانی دورکے دوران کورونا کے علاج سے متعلق نسخے، اس انفیکشن کو عام بیماری بتانے والے تبصرے اور انفیکشن پھیلانے کے لیے مختلف طبقوں کو قصوروار ٹھہرانے والے بیان بھی سب سے زیاددہ بی جے پی رہنماؤں کی طرف سے ہی دیے گئے ہیں۔
اس کڑی میں کبھی کوئی بی جے پی رہنما گئوموتر کو کورونا کا علاج بتا رہا تھا، تو کبھی کوئی کورونا کو وبا ماننے سے انکار کر رہا تھا۔کبھی ملک میں پھیلے انفیکشن کے لیے پورے طور پرتبلیغی جماعت کے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں جاہل سور بولا جا رہا تھا۔اس لیے جب آج پارٹی کے بڑےرہنما عالیشان نجی اسپتالوں میں علاج کرا رہے ہیں تو سوشل میڈیا سے لےکرسڑکوں تک پر یہ چرچہ ہے کہ علاج کے جو نسخے اور احتیاط وہ عوام کو بتا رہے تھے، کیا خود انہوں نے ان کی پیروی نہیں کی؟
اب تو جماعتی بھی نہیں ہے تو پھر کیسے بی جے پی کےرہنما انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں؟
اسی کڑی میں کورونا کو لےکربی جے پی رہنماؤں کے غیرذمہ دارانہ بیانات اور دعووں کی فہرست دیکھنے لائق ہے، جو بتاتی ہے کہ جب عوامی نمائندوں کا ہی وبا کو لےکر غیرحساس اور غیر سائنسی رویہ ہو، توعوام کو اس کے بارے میں کیسےبیدار کیا جا سکتا ہے۔غورطلب ہے کہ ہندوستان میں پہلا کورونامریض30 جنوری2020 کو ملا تھا، لیکن انفیکشن کو لےکرحکومت ہند نے پہلی بار سنجیدگی تب دکھائی جب 22 مارچ کو ملک میں‘جنتا کرفیو’ لگا تھا۔
اس سے پہلے تک بی جے پی رہنماکورونا کو جیسے ایک مذاق کے طور پر لے رہے تھے۔ جبکہ سابق کانگریس صدرراہل گاندھی لگاتار کورونا کے خطرے کو لےکر آگاہ کر رہے تھے۔راہل کی اس مانگ پر ردعمل دیتے ہوئے بی جے پی کی اتحادی پارٹی راشٹریہ لوکتانترک پارٹی(آرایل پی)کے ایم پی ہنومان بینی وال نے راہل اور گاندھی فیملی کو ہی کورونا ہندوستان لانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا تھا۔
لوک سبھا میں بینی وال کہتے نظر آئے،‘کورونا کے مریض اٹلی سےآئے ہیں۔میرا کہنا ہے کہ سب سے پہلے راہل جی نے پوچھا (کورونا کے بارے میں)، تو کہیں یہ ان کے گھر سے ہی تو نہیں آیا۔ سونیا گاندھی اور ان کی اور پوری فیملی کی جانچ ہو۔’المیہ ہی ہے کہ گاندھی فیملی کا تو کوئی ممبر اب تک کورونا پازیٹو نہیں پایا گیا ہے جبکہ بینی وال خودپازیٹو ہوکر اسپتال میں ہیں۔
گائے، گوبر، گئوموتر پارٹی
اسی دوران 4 مارچ کو اتر پردیش کے لونی سے بی جے پی ایم ایل اے نندکشور گرجر نے دعویٰ کیا تھا، ‘کورونا میرے اسمبلی حلقہ میں نہیں گھس سکتا کیونکہ لونی شہر میں گائے کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔’انہوں نے دعویٰ کیا تھا، ‘جہاں گائے ہوتی ہے، وہاں کسی بھی طرح کا وائرس نہیں آ سکتا۔ گائے ایک چلتی پھرتی ڈاکٹر ہے۔’
غورطلب ہے کہ اس وقت ملک میں کورونا کے صرف28 مریض تھے۔ آج مریضوں کی تعداد20 لاکھ کے قریب ہے، وہ بھی تب جب پورے ملک میں گائے کی پوجا کی جاتی ہے۔گائے میں کورونا کا علاج تلاش کرنے والے نندکشور تب پہلے بی جے پی رہنما نہیں تھے اور نہ ہی آخری۔ ان سے پہلے بی جے پی ایم ایل اے سمن ہری پریہ بھی گئوموتر اور گائے کے گوبر میں کورونا کا علاج کھوج چکی تھیں۔
انہوں نے آسام اسمبلی کے اندر کہا،‘ہم سبھی جانتے ہیں کہ گائے کا گوبر کافی فائدےمند ہوتا ہے۔ جیسے گئوموتر کے چھڑکاؤ سے کوئی جگہ پاک ہو جاتی ہے…مجھے لگتا ہے کہ اسی طرح گئوموتر اور گائے کے گوبر سے کورونا وائرس بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔’اس دوران کچھ ایسے ہی مثالیں اتراکھنڈ کے بی جے پی ایم ایل اے سنجے گپتا نے بھی پیش کی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہون–یگیہ اور گئوموتر گوبر کا استعمال کورونا کا علاج ہے۔
انہوں نے کہا تھا، ‘ہماری ہندو تہذیب دنیا کی عظیم تہذیب ہے۔ ہون پوجن میں جس سامان کا استعمال ہوتا ہے، وہ ماحولیات سے مضر عناصرکو چٹکیوں میں ضائع کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اسی طرح گئوموتر لینے اور متاثرہ مقام پر گوبر کے استعمال سے بھی کورونا وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔گائے زمین کا سب سے مقدس اور معجزاتی جانور ہے۔ اس کے ہر حصے میں امرت کی طرح ادویات موجود ہیں۔’
گئوموتر کی بات کریں تو، کورونا وائرس کا ویکسین بھلے ہی اب تک نہ بنا ہو، لیکن بی جے پی والوں نے ایک وقت میں گئوموتر کو ہی کورونا کا ویکسین مان لیا تھا۔ لوگوں کو کورونا سے بچانے کے لیے وہ گئوموتر پارٹی کر رہے تھے۔مغربی بنگال میں بی جے پی کارکن کی جانب سے منعقد ایسی ہی ایک پارٹی میں گئوموتر کے پینے سے ایک شخص کے بیمار ہونے کے بعد بی جے پی کارکن کی گرفتاری تک کی گئی تھی۔
شمالی کولکاتہ کے بی جے پی کارکن نارائن چٹرجی نے پارٹی میں دعویٰ کیا تھا کہ گئوموتر پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے اور پہلے سے متاثر لوگ بھی اس سے ٹھیک ہو جائیں گے۔یہ واقعہ 16 مارچ کا تھا، اس سے پہلے 14 مارچ کو بی جے پی کی ہی معاون تنظیم اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے بھی دہلی میں گئوموتر پارٹی کا انعقادکیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ٹھوکر کھاکر آدمی سنبھل جاتا ہے لیکن یہ بات بی جے پی رہنماؤں پر نافذ نہیں ہوتی، کم سے کم گئوموتر کو کورونا کا علاج بتانے کے معاملے میں تو بالکل ہی نہیں۔بنگال میں پارٹی کارکن کی گرفتاری کے اگلے ہی دن اتراکھنڈ کے بی جے پی ایم ایل اے مہیندر بھٹ گئوموتر سے کورونا کے علاج کا ایک اور مضحکہ خیز طریقہ ڈھونڈلائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا،‘اگرکورونا سے بچنا ہے تو روز صبح دو چمچ گئوموتر لیں ۔ ساتھ ہی گائے کے گوبر کی راکھ کو پانی میں ملاکر اسے چھان کر تیار کئے گئے پانی سے نہائیں۔’ہردن بدتر ہوتی حالت میں ایسا لگتا ہے کہ خودبی جے پی رہنماؤں نے بھی یہ نسخے نہیں آزمائے۔
انفیکشن کا گڑھ اندور اور کیلاش وجئے ورگیہ کے ‘کورونا پچھاڑ ہنومان’
بہرحال،یہ تو بات ہوئی رہنماؤں کے نسخوں کی، لیکن، علاج تو تب ہوگا جب بیماری ہوگی۔بی جے پی کے جنرل سکریٹری اور مدھیہ پردیش کے سینئررہنما کیلاش وجئےورگیہ تو یہ مان کر چل رہے تھے کہ ہندوستان میں کورونا اثر دکھا ہی نہیں سکتا کیونکہ یہاں 33 کروڑ دیوی دیوتا رہتے ہیں۔
لیکن، پھر بھی احتیاط کے طور پر انہوں نے اس کا علاج بھی ڈھونڈا تھا اور جو علاج انہوں نے بتایا تھا، وہ ان کے ہی لفظوں میں اس طرح تھا، ‘کورونا وائرس ہمارا کچھ نہیں کر سکتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں جو ہنومان ہیں ان کا نام میں نے کورونا پچھاڑ ہنومان رکھ دیا ہے۔’
لیکن جب 33 کروڑ دیوی دیوتاؤں کے ہوتے ہوئے بھی کوروناکی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن لگانا پڑا اورمتاثرین کی تعداد دن ‘دونی، رات چوگنی’ بڑھنے لگی تو وجئے ورگیہ کورونا سے نجات کے لیے آٹھ دنوں کے ‘مون ورت’ پر بیٹھ گئے۔33 کروڑ دیوی دیوتا،کورونا پچھاڑ ہنومان اور مون ورت کے باوجود بھی ایک وقت میں وجئےورگیہ کا شہر اندور،ملک میں متاثرین کی تعداد کے معاملے میں دوسرے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی مدھیہ پردیش ملک کاسب سے زیادہ متاثر شہر بنا ہوا ہے۔
انفیکشن کے ساتھ پھیلتی گئی فرقہ واریت
اتنے نسخوں کےبعدبھی جب کورونا ملک میں پھیل ہی گیا تھا، تو اب اس کے پھیلنےکے اسباب کو ڈھونڈنا بھی ضروری تھا۔ اس معاملے میں بھی بی جے پی رہنما پیچھےنہیں رہے۔راہل گاندھی تو شروع سے ہی ان کے لیے‘کورونا کریئر’ کی طرح رہے۔ کورونا نہیں پھیلا تھا تو ہنومان بینی وال اور جب پھیل گیا تو ایم پی سادھوی پراچی نے اس کے لیے راہل گاندھی کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔
مارچ میں سادھوی پراچی نے کہا، ‘اٹلی سے لوٹے راہل گاندھی نے ملک میں کورونا پھیلایا ہے، انہیں کورونا پر بولنے کا حق نہیں ہے۔’یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آج جب امت شاہ سے لےکر بی ایس ایڈی یورپا اور شیوراج سنگھ چوہان سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ ان کے رابطہ میں آنے والے لوگ اپنا کورونا ٹیسٹ کرا لیں، تو کیا ان بی جے پی رہنماؤں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے؟
کیا اب سادھوی پراچی یہ کہنے کا حوصلہ دکھائیں گی کہ بی جے پی رہنماؤں نے کورونا پھیلایا ہے، انہیں کورونا پر بولنے کا حق نہیں ہے؟اسی طرح ایک وقت میں بی جے پی رہنماؤں نے انفیکشن کے پھیلاؤ کا سارا قصوردہلی کے نظام الدین واقع تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہوئے لوگوں کے سرپررکھ دیا تھا۔
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کہتے نظر آئے، ‘بھوپال اندور میں جماعتیوں کی وجہ سےانفیکشن پھیلا۔’کرناٹک کی بی جے پی ایم پی شوبھا کرندلاجے نے تو مرکز کے اجتماع کو جماعتیوں کی‘کورونا جہادی یوجنا’ قرار دے دیا تھا، جس کے تحت وہ جان بوجھ کر ملک بھر میں انفیکشن پھیلانے کی سازش کر رہے تھے۔
وہیں، ہماچل پردیش کے پارٹی صدرراجیو بندل نے تو جماعتیوں کو ‘مانو بم’ تک کہہ دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا، مرکز اورریاستی سرکاروں نے کورونا وائرس سے نپٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔لیکن تبلیغی جماعت کے ممبروں سمیت کچھ لوگ ‘مانو بم’ کی طرح گھوم کر ساری کوششوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔’
اس پر سب سے زیادہ متنازعہ بیان تو ہریانہ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر واسمبلی انتخاب لڑ چکیں انٹرنیشنل سطح کی پہلوان ببیتا پھوگاٹ نے دیا تھا۔انہوں نے ٹوئٹر پرتبلیغی جماعت کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ‘پھیلا ہوگا تمہارے یہاں چمگادڑوں سے، ہمارے یہاں جاہل سوروں سے پھیلا ہے۔’
اس بےحد ہی نچلی سطح کے بیان کی کسی بھی بی جے پی رہنما نےمخالفت نہیں کی بلکہ کئی بی جے پی رہنما ببیتا کی حمایت میں اتر آئے تھے۔حقیقت تو یہ تھی کہ اس وقت بی جے پی مقتدرہ جس بھی ریاست میں کورونا پھیلا، وہاں کی سرکار اور مقامی بی جے پی رہنماؤں نے اس کے لیے تبلیغی جماعت کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا تھا۔
یہ اپریل کے شروعاتی ہفتے کی تب کی بات ہے جب ملک میں روزانہ سامنے آنے والے معاملوں کی تعداد محض کچھ سو بھر تھی اور کل مریضوں کی تعداد چند ہزار۔گزشتہ ہفتے بھر سے روز 50 ہزار سے زیادہ معاملے سامنے آ رہے ہیں،کل متاثرین کی تعداد بیس لاکھ سے اوپر پہنچ چکی ہے اور سرخیوں میں تبلیغی جماعت نہیں، ملک بھر کے بی جے پی رہنما ہیں جو اپیل کر رہے ہیں کہ ہمارے رابطہ میں آنے والے لوگ کورونا ٹیسٹ کرا لیں۔
وہیں،ہندوستان دنیاکا تیسرا سب سے زیادہ متاثر ملک بن چکا ہے۔ تو ان حالات میں انفیکشن کو پھیلانے کا قصور کس کے سرپررکھا جائے؟کیا بی جے پی رہنماؤں نے جیسےلفظ جماعت کے لیے استعمال کیے، ویسے ہی لفظ اپنی اعلیٰ قیادت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟
مثلاً، جس طرح جماعتیوں کو سرکاری کوششوں پر پانی پھیرنے والا ‘مانو بم’ بتایا گیا تھا، اسی طرح مدھیہ پردیش میں ضمنی انتخاب میں جیت کے لیے بی جے پی رہنما جو سماجی دوری کوطاق پر رکھ کر لگاتار ریلیاں اور اجلاس کرکے بھیڑ جمع کر رہے ہیں اور پھرپازیٹونکل رہے ہیں، تو کیا وہ‘مانو بم’ کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے؟
ببیتا پھوگاٹ اپنے ہی رہنماؤں کے لیے اب کیا کہیں گی؟ ویسے، جب تنازعہ مسلمانوں سے متعلق ہو اور بی جے پی رہنمادہشت گردی کا ذکر نہ کریں، یہ ممکن ہی نہیں۔بہار کے مظفر پور سے بی جے پی ایم پی اجئے نشاد نے جماعتیوں کو دہشت گرد بتاتے ہوئے ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرنے کی سرکار سے مانگ کر ڈالی تھی۔
ساتھ ہی، مسلم کمیونٹی کو نشانے پر لیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘مدرسوں میں بچوں کو شروع سے ہی شدت پسند اور غلط تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ صرف پنکچر بنانا سکھاتا ہے، اس لیے ان لوگوں نے وبا کو خوفناک بنا دیا۔’کہا جاتا ہے کہ بی جے پی رہنما مسلمانوں کے خلاف بولنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ اس آفت میں بھی انہوں نے موقع ڈھونڈ ہی لیا۔
اپریل میں یوپی کے دیوریا ایم ایل اے سریش تیواری نے بیان دیا کہ لوگ مسلم سبزی والوں سے سبزی نہ خریدیں تو کورونا سے بچے رہیں گے۔اپنے بیان کی حمایت میں انہوں نے کہا تھا، ‘مسلم اپنی سبزی پر پہلے تھوکتے ہیں، پھر اسے بیچتے ہیں۔علاقے میں جب میں دورہ کر رہا تھا تب یہ ساری باتیں مجھے پتہ چلیں۔’
علاج سے امیونٹی تک ہر مرض کا علاج گئوموتر
بہرحال، جب ملک میں انفیکشن پھیلنے لگا اور گائے، گوبر اور گئوموتر علاج بننے میں ناکام ثابت ہوئے تو بی جے پی رہنماؤں نے انہیں ‘امیونٹی بوسٹر’کے طور پر قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔یوپی کے بلیاایم ایل اے سریندر سنگھ نے دعویٰ کیا،‘میں 30 سالوں سے باقاعدگی سے گئوموتر لیتا رہا ہوں، آج تک کبھی بخار نہیں آیا۔اگرلوگ روز 10 ایم ایل گئوموترلیں، تلسی کے دس پتے چبائیں اور رات کو سونے سے پہلے ہلکے گرم پانی میں دو چمچ ہلدی لیں تو کوئی بیماری پریشان نہیں کر سکتی۔’
اسی طرح مغربی بنگال کے بی جے پی ریاستی صدر دلیپ گھوش بھی گئوموتر کے محقق کا رول نبھا چکے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا، ‘گئوموتربیماری سے لڑنے کی قوت کو بڑھاتا ہے۔’
اس دعوے پر سوال کھڑا کرنے والوں کا موازنہ انہوں نے گدھے سے کرتے ہوئے کہا تھا، ‘گدھے کبھی بھی گائے کی اہمیت نہیں سمجھیں گے۔ یہ ہندوستان ہے، بھگوان شری کرشن کی دھرتی۔ یہاں گائے پوجتے ہیں۔ ہمیں صحت مند رہنے کے لیے گئوموتر پینا چاہیے۔ جو شراب پیتے ہیں، وہ کیسے ایک گائے کی اہمیت کو سمجھیں گے۔’
دلیپ گھوش نے یہ بیان مئی میں دیا تھا۔ ڈیڑھ مہینے بعد بنگال میں انہی کی معاون تنظیم کی جنرل سکریٹری اور ایم پی لاکیٹ چٹرجی پازیٹو پائی گئیں۔بھلے ہی بی جے پی رہنماؤں نے گئوموتر، کورونا پچھاڑ ہنومان، مون ورت، یگیہ وغیرہ کے توسط سے کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیابی نہ پائی ہو لیکن کورونا کے علاج اور خاتمے کو لےکر ان کی تحقیق ابھی بھی جاری ہے۔
گوکورونا، کورونا گو بیک
پانچ اپریل کو جب وزیر اعظم مودی کی اپیل پرملک میں دیپک جلانے تھے، اس دن تلنگانہ کے گوش محل ایم ایل اے راجہ سنگھ لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود سماجی دوری کو طاق پر رکھ کر، سڑک پر مشعل جلوس لےکر،کورونا کو جلاکر مارنے کے لیے نکل پڑے اور ‘چائنا وائرس’گو بیک کے نعرے لگائے۔
وہیں، بلیاایم ایل اےسریندر سنگھ کےمطابق، ‘تمام پازیٹو مریض بلیاآ گئے تو دو دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ بلیاکی حالت ایسی ہے کہ ایک طرف گنگا ہے، ایک طرف گھاگھرا (ندی)ہے۔ دو دن میں کورونا مریض ٹھیک ہو جائےگا۔’اس بیچ اتر پردیش پولیس کی انکاؤنٹر والی گولیاں سرخیوں میں رہیں۔ شاید اسی کو دھیان میں رکھ کر ریاست کے لونی ایم ایل اے نریندر سنگھ گرجر نے پولیس کی گولی سے بھی کورونا کا انکاؤنٹر کرنے کا انتظام کر لیا تھا۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں انہوں نے کہا تھا، ‘لاک ڈاؤن کی ان دیکھی کرنے والے کسی دہشت گردسے کم نہیں ہیں۔ لونی میں بنا پولیس کو اطلاع دیے اور اجازت لیے کوئی باہر نکلے تو پولیس ایسےغدار کی ٹانگ توڑ دے۔ تب بھی نہ مانے تو ٹانگ میں گولی مار دی جائے۔ یہ لوگ ملک کے غدار ہیں۔’
گولی مارنے والے پولیس والے کو 5100 روپے کا انعام اور پرموشن کے لیے سرکار کو خط لکھنے کی بات بھی انہوں نے کہی تھی۔یہاں تصور کریں کہ اگریہ ضابطہ پورے ملک میں نافذ کیا جاتا تو عوام بعد کی بات ہے، بی جے پی کے کتنےرہنماؤں کو پولیس کی گولی کھانی پڑتی؟
مدھیہ پردیش میں سرکار گراتے وقت،ایوان میں اکثریت ثابت کرتے وقت، کابینہ کی تشکیل کے وقت، ضمنی انتخاب کی تشہیر کے دوران بی جے پی کے وزیراعلیٰ، وزیر،ایم پی، ایم ایل اے،تنظیم کےرہنما روز لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ کرناٹک کے وزیراعلیٰ شادیوں میں فوٹو اترواتے رہے۔ کیا سب کو گولی ماری جاتی؟
یہ کہا جاتا کہ گیت سنگیت بھی کسی مرض کے علاج کے لیے ایک تھراپی کی طرح کام کر سکتے ہیں۔ بی جے پی رہنماؤں نے کورونا کے علاج میں اس تھراپی کو بھی آزمایا۔ری پبلکن پارٹی آف انڈیا کے راجیہ سبھاایم پی اور اس وقت این ڈی اے سرکار میں مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے تو با قاعدہ ایک نظم لکھ کر ہندوستان سے کورونا کو بھگانے کا انتظام کیا تھا۔
نظم تھی، ‘گو کورونا… کورونا گو۔’
مدھیہ پردیش سے ایم پی سادھوی پر گیہ ٹھاکر نے بھی بھجن کیرتن کے سہارے اٹھاولے جیسی ہی ایک روحانی کوشش کی۔انہوں نےکورونا کوختم کرنے کے لیے25 جولائی سے 5 اگست تک روز شام 7 بجے 5 بار ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے کی عوام سے اپیل کی تھی۔ جس کا اختتام5 اگست کو بھگوان رام کی آرتی کے ساتھ گھر میں دیپ جلاکر کرنا تھا۔
یعنی 5 اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع ہونے کے ساتھ ہی ملک سے کورونا کا ختم ہو جانا تھا، جو بدقسمتی سے ہوا تو نہیں، لیکن کم سے کم بی جے پی رہنما تو ایسا ہی مانتے ہیں۔مدھیہ پردیش اسمبلی کے پروٹیم اسپیکر رامیشور شرما اور راجستھان سے ایم پی جسکور مینا، دونوں ہی یہ بات کہہ چکے تھے کہ ایودھیا میں 5 اگست کو رام مندر بننے کے بعد کورونا ختم ہو جائےگا۔
ویسےکورونا وبا سے لڑنے کا اب تک کا سب سے آسان طریقہ پچھلے دنوں مرکزی وزیر ارجن میگھ وال لےکر آئے۔انہوں نے 24 جولائی کو ‘آتم نربھر بھارت’اسکیم کے تحت ‘بھابھی جی پاپڑ’ لانچ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کوروناانفیکشن سے لڑنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
کیا بس بھگوان کا ہی سہارا ہے؟
بی جے پی رہنماؤں کی ان ذاتی کوششوں اورتحقیق کے بیچ سرکار بھی پیچھے نہیں رہی۔ ہندوستان میں گئوموتر کے بعد گنگا جل ہی ہے جسے ہر مرض کی دوا مانا جاتا ہے۔جب کسی بی جے پی رہنما کو گنگا جل میں پھل (علاج) تلاش کرنے کا خیال نہیں آیا، تو خود وزارت آگے آیا۔
اس نے آئی سی ایم آر کو کورونا مریضوں کے علاج میں گنگا جل کے استعمال پر کلینیکل ٹرائل کرنے سے متعلق ایک تجویز بھیجی۔ حالانکہ، اس کو آئی سی ایم آر نے خارج کر دیا تھا۔بھلے ہی دنیابھر میں کورونا سے دو کروڑ لوگ متاثر ہو گئے ہوں، سات لاکھ سے زیادہ جان گنوا چکے ہوں، ڈبلیو ایچ او اسے وبا بتا رہا ہو، پھر بھی ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ایم ایل اے سریندر سنگھ کے مطابق یہ وبا نہیں ہے۔
ان کے لفظوں میں کہیں تو، ‘کورونا وبا نہیں ہے، کیونکہ وبا اسے کہتے ہیں جو طوفان کی طرح آئے اور مارکر چلی جائے۔’
خیر،کورونا کے علاج اور روک تھام کی تو بات ہو گئی لیکن اس سوال کا جواب ابھی بھی باقی ہے کہ آخر دنیابھر میں کورونا پھیلا کیسے؟ڈبلیو ایچ او اور چین ساتھ مل کر جلد ہی اس پر سائنسی تحقیق جاری کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن،ایم پی ساکشی مہاراج یہ کھوج مہینوں پہلے کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ گوشت کھانے کی وجہ سےکورونا پھیل رہا ہے۔ملک میں انفیکشن کے پھیلاؤ کے شروعاتی دنوں میں انہوں نے میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا، ‘ایسے ایسے ملک ہیں جو 170طرح کا گوشت کھا رہے ہیں۔ چمگادڑ کو نہیں چھوڑ رہے، چوہے کو نہیں چھوڑ رہے، سور کو نہیں چھوڑ رہے، کتے کو نہیں چھوڑ رہے۔ چمگادڑ کھائیں گے، چوہے کھائیں گے تو ان کو تو کورونا ہوگا ہی، ساکشی مہاراج کو نہیں ہوگا۔’
اگرمرکز اور ریاستوں میں حکمراں بی جے پی رہنماؤں نے ایسےغیرحساس اور غیر ذمہ دارانہ بیانات اور مضحکہ خیز دلائل کے سہارے کورونا کو کمتر نہ سمجھتے تو شاید انفیکشن کے بارے میں عوام زیادہ سنجیدہ ہوتی اور بیماری میں کم اضافہ ہوتا۔یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ ہندوستان میں لاک ڈاؤن کی شروعات تب ہو گئی تھی جب مریضوں کی تعدادسو بھی نہیں تھی۔
دو مہینے کے لاک ڈاؤن کے باوجوداگر آج ایک دن میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ مریض ہندوستان میں نکل رہے ہیں، تو صرف اس لیے کہ ہمارے عوامی نمائندوں نے اس وبا کو اتنی سنجیدگی سے ہی نہیں لیا، جتنی کہ ضرورت ہے۔اس لیے موجودہ حالات میں کرناٹک کی بی جے پی سرکار کے وزیر صحت بی شری رام لو کا یہ مجبور سا، لیکن متنازعہ بیان ہی ہندوستان کی حقیقت جان پڑتی ہے، ‘ہمیں کورونا وائرس سے صرف بھگوان ہی بچا سکتے ہیں۔’
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر