سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹرسریش چوہان کے اپنے شو ‘بند اس بول’کے متنازعہ ٹریلر میں‘جامعہ کے جہادی’کہتے نظر آ رہے ہیں۔ جامعہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یونیورسٹی اور ایک کمیونٹی کی امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ یو پی ایس سی کی ساکھ کو بھی داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
نئی دہلی:جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مرکزی وزارت تعلیم کو خط لکھ کر یونیورسٹی کی امیج کو خراب کرنے کے لیے سدرشن نیوز چینل اور اس کے چیف ایڈیٹرسریش چوہان کے کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔چوہان کے نے 26 اگست کو اپنے شو بند اس بول کا ایک ٹریلر ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے ہیش ٹیگ یو پی ایس سی جہاد کے ساتھ نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا بڑا انکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس ویڈیو میں انہوں نے جامعہ رہائشی کوچنگ اکادمی(آرسی اے)سے پڑھ کر یو پی ایس سی کا اگزام پاس کرنے والوں کو جامعہ کا جہادی بتایا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ کے پی آراو احمد عظیم نے کہا، ‘ہم نے وزارت تعلیم کو خط لکھ کر انہیں اس پورے معاملے کی جانکاری دی اور انہیں بتایا کہ سدرشن چینل نے نہ صرف جامعہ اور ایک خاص کمیونٹی کی امیج خراب کرنے کی کوشش کی بلکہ یو پی ایس سی کی امیج بھی خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔’
جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی اس معاملے پر عدالت کا رخ نہیں کرےگی۔
انہوں نے کہا، ‘چوہان کے نے جہادی کی نئی سیکولر تعریف پیش کی ہے۔ ہم انہیں بہت زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ جہاں تک ہمارے طلبا کاتعلق ہے، آرسی اے کے 30 طالبعلموں کا اس بار سلیکشن ہوا تھا، جس میں سے 16 مسلم ہیں اور 14 ہندو ہیں۔ چونکہ اب انہوں نے سب کو جہادی کہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 16 مسلم اور 14 ہندو جہادی ہیں۔ ہندوستان کو جہادیوں کی ایک نئی سیکولر تعریف دی گئی ہے۔’
وہیں، جامعہ ٹیچرایسوسی ایشن نے سریش چوہان کے کی ہندوستان اور جامعہ مخالف تبصرے کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مانگ کی ہے۔جامعہ ٹیچر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے، ‘سدرشن چینل کے مدیر کے ذریعے توہین آمیز لفظوں کا استعمال کیا گیا، جو کھلے طور پر اکساتا ہے اور ساتھی شہریوں کے خلاف زہر اگلتا ہے اور لوگوں کو بانٹنے کی کوشش کرتا ہے۔’
ان الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے چوہان کے نے کہا کہ وہ وہی کہیں گے، جو ان کے جمعہ رات کو نشر ہونے والے شو میں انہیں کہنا ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘مجھے نہیں پتہ کہ آرسی اے میں ہندو ہیں یا نہیں۔ جہادی لفظ کی مخالفت کرنے والوں کو پہلے بتانا چاہیے کہ کیا انہیں یہ توہین آمیز لگتا ہے۔ میں اپنے رخ پر قائم ہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ نوکر شاہی میں ان کی(مسلم) تعداد کیسے بڑھ رہی ہے؟’
انہوں نے آگے کہا، ‘یہ اس لیے کیونکہ انہیں پچھلے دروازے سے حمایت دی جا رہی ہے، ان کے پاس اسلامک اسٹڈیز، اردووغیرہ چننے کااختیار ہے۔ اگر میرا شو غیر آئینی پایا جاتا ہے اور یہ براڈکاسٹنگ کے معیار پر کھرا اترتا نہیں پایا جاتا تو میرے خلاف کارروائی کی جائے۔’
بتا دیں کہ اس سے پہلے آئی پی ایس ایسوسی ایشن نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کو فرقہ وارانہ اور غیرذمہ دارانہ بتایا تھا۔
A news story targeting candidates in civil services on the basis of religion is being promoted by Sudarshan TV.
We condemn the communal and irresponsible piece of journalism.
— IPS Association (@IPS_Association) August 27, 2020
تنظیم نے ٹوئٹ کر کہا تھا کہ سدرشن ٹی وی پر ایک نیوز اسٹوری میں مذہب کی بنیاد پر سول سروس کے لوگوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔ ہم اس طرح کے فرقہ وارانہ اور غیرذمہ دارانہ صحافت کی مذمت کرتے ہیں۔چوہان کے نے آئی پی ایس ایسوسی ایشن کے بیان کو افسوس ناک بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مدعے کو جانے بغیر اس طرح کا تبصرہ کر رہے ہیں۔اگر ایسوسی ایشن چاہتا ہے تو ان کے شو میں آکر اپنی بات رکھ سکتا ہے۔
Unfortunate that @IPS_Association twisting without knowing the issue.
Issue is sudden spike in no of people of certain category selected in UPSC Civils in the last few years.
You're invited to participate in our program for informed discussion, if you care for UPSC objectivity. https://t.co/jy4wJXhljk
— Suresh Chavhanke “Sudarshan News” (@SureshChavhanke) August 27, 2020
قابل ذکر ہے کہ نیوش چینل سدرشن نیوز نے جمعہ28 اگست کو نشر ہونے والے اپنے ایک شو کا ٹریلر جاری کیا ہے۔اس میں چینل کے ایڈیٹران چیف سریش چوہان کے ‘نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا بڑاانکشاف ’ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
ٹریلر سامنے آنے کے بعد سے ہی اس کو لے کر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اورشو کا لہجہ فرقہ وارنہ ہونے کی وجہ سے اس پرفوراً کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔دریں اثنا ایک آزادانہ تھنک ٹینک انڈین پولیس فاؤنڈیشن نے بھی ٹریلر کے ٹون کے خلاف ٹوئٹ کیا ہے اور اسے ‘نفرت پھیلانے’اور ‘شدت پسندی کی مثال’بتایا ہے۔
The hate story carried on a Noida TV channel against minority candidates joining IAS /IPS is dangerous bigotry. We refrain from retweeting it because it is pure venom. We hope #NewsBroadcastingStandardsAuthority, #UPPolice and concerned government authorities take strict action.
— Indian Police Foundation (@IPF_ORG) August 27, 2020
انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘آئی اے ایس/آئی پی ایس میں شامل ہونے والے اقلیتی افراد کے خلاف نوئیڈا کے ٹی وی چینل پر چلائی جا رہی ہیٹ اسٹوری خطرناک ہے۔ ہم اسے ری ٹوئٹ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر زہرہے۔ ہمیں امید ہے کہ نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی، یوپی پولیس اور متعلقہ سرکاری اتھارٹی سخت کارروائی کرےگی۔’
اس کے علاوہ کئی آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں نے سدرشن نیوز کے اس ٹریلر پر سخت اعتراض کیا ہے اور اسے فرقہ وارانہ بتایا ہے۔تحسین پوناوالا نے دہلی پولیس اور نیشنل براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کے صدررجت شرما کے پاس شکایت دائر کرکے اس پر کارروائی کی مانگ کی ہے۔ پوناوالا نے ٹوئٹ کر کےاس کی جانکاری دی ہے۔
اس کے جواب میں چوہان کے نے کہا کہ اس طرح کی سازش کے پیچھے ‘دہشت گرد گروپ کے مکھیا ذاکر نایک’ شامل ہیں۔
Not only terror group, but the leader of all the terror groups #ZakirNaik is involved in this conspiracy. Watch #UPSC_Jihad 1st and then react #नौकरशाही_जिहाद from 28 Aug 8pm daily https://t.co/vsPSOh7NbM
— Suresh Chavhanke “Sudarshan News” (@SureshChavhanke) August 27, 2020
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سدرشن ٹی وی اور سریش چوہان کے اس طرح کے پروگرام کی وجہ سے تنقید کے گھیرے میں ہیں۔جون 2018 میں دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی)نے سدرشن نیوز کو ایک نوٹس جاری کر کےاس رپورٹ پر معافی مانگنے کو کہا تھا جس میں انہوں نے دہلی کے بوانا علاقے کے کچھ مقامی لوگوں کو مبینہ طور پر ‘روہنگیا’ اور ‘بنگلہ دیشی ‘ بتایا تھا۔
کمیشن نے چینل سے کہا تھا کہ اس کا ثبوت پیش کریں، ورنہ بنا شرط تحریری معافی مانگیں۔اس کے علاوہ سال 2018 میں چوہان کے نے ایک ٹوئٹ کرکے اس سال دسمبر میں بلندشہر میں ہوئے تشدد کو تبلیغی جماعت کےاجتماع سے جڑا ہوا بتایا تھا۔ بلندشہر میں تین دسمبر 2018 کو مبینہ گئوکشی کو لےکرہوئےتشدد میں انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل کر دیا گیا تھا۔
بعد میں بلندشہر پولس نے ٹوئٹ کرکے وضاحت دی تھی کہ یہ تشدد جماعت کے لوگوں کی اجتماع کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔بتا دیں کہ ہندوستان میں مختلف سول سروسز کے امتحانات کی ذمہ داری یوی پی ایس سی کی ہے، جو قومی سطح پر ایک لمبے پروسس میں انہیں کرواتا ہے۔
آئی اے ایس،آئی پی ایس اورآئی ایف ایس میں جانے کے خواہش مند امیدوار ان میں حصہ لیتے ہیں۔حالانکہ ان امتحانات میں عمر،تعلیمی اہلیت امتحان دینے کی کوششوں کے بارے میں کئی ضابطےہیں، لیکن کسی بھی مذہب کے ہندوستانی اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔
Categories: خبریں