گزشتہ سال آکسیجن حادثے کی محکمہ جاتی جانچ میں دوالزامات میں ملی کلین چٹ کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن سرکار نے نئےالزام جوڑتے ہوئے دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ متھرا جیل میں رہائی کے وقت ہوئی حجت یہ اشارہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کا روریہ ان کے لیےنرم ہونے والا نہیں ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان ایک ستمبر کی نصف شب کوتقریباً سات مہینے بعد متھرا جیل سے رہا ہو گئے۔ٹھیک تین سال پہلے بی آرڈی میڈیکل کالج کے آکسیجن حادثے میں انہیں دو ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت انہیں چھ مہینے سے زیادہ وقت تک جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی تھی۔
آکسیجن حادثہ کے پہلے کفیل ایک گمنام شخصیت تھے، لیکن آکسیجن معاملےکے دوران میڈیا و سوشل میڈیا میں نشرہوئی ایک تصویر نے ان کی پوری زندگی بدل کر رکھ دی۔گورکھپورکے بسنت پور محلے میں رہنے والے 46 سالہ کفیل خان نے اپنی زندگی کے 12 سال منی پال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس، گنگٹوک میں گزارے ہیں۔
اس سے پہلے گورکھپور میں انہوں نے امر سنگھ چلڈرین اسکول اور مہاتما گاندھی انٹر کالج سے اسکولی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ اور ان کے بڑے بھائی دونوں نے وہیں سے پڑھائی کی ہے۔والد چاہتے تھے کہ دونوں ڈاکٹر بنیں۔انٹر کے بعد کفیل خان کا سلیکشن منی پال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور سی پی ایم ٹی دونوں میں ہوا۔ منی پال میں ان کی آل انڈیا رینکگ 30 تھی، تو گھروالوں کی رضامندی سے وہ منی پال چلے گئے۔
وہاں سے انہوں نے ایم بی بی ایس اور پھر ایم ڈی کیا۔ پھر کچھ سال تک وہاں کے ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرک میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔سال2013 میں گھروالوں کے کہنے پر وہ واپس گورکھپور آئے۔ ماں اور بھائی چاہتے تھے کہ وہ یہیں پر اپنی میڈیکل پریکٹس کریں۔ اس کے بعد ڈاکٹر شبستا ان کی ہمسفر بنیں۔
سال2013 سے اپریل 2016 تک انہوں نے بی آرڈی میڈیکل کالج میں سینئر ریزیڈنٹ کے بطورکام کیا۔ اپریل میں ان کا کانٹریکٹ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ وقت تک گھروالوں کے اسپتال میں کام کیا۔اسی سال اگست میں بی آرڈی میڈکل کالج کے ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرک میں ان کاسلیکشن اسسٹنٹ پروفیسر کے بطور ہو گیا۔
ڈاکٹر کفیل خان کا پورا گھر بےحد تعلیم یافتہ ہے۔ والد شکیل احمد خان محکمہ آب پاشی میں انجینئر تھے، جن کا مارچ 2003 میں انتقال ہو گیا تھا۔ڈاکٹر کفیل کے بڑے بھائی عدیل نے ایم بی اے کرنے کے بعد اپنا بزنس شروع کیا۔ ڈاکٹر کفیل کے سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر (ایم ایس آرتھو) ہیں۔
ایک بھائی کاشف جمیل بھی بزنس کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم سی اے اور ایم بی اے کیا ہے۔ یہ وہی ہیں، جن پر جون 2018 میں جان لیوا حملہ ہوا تھا۔قابل ذکر ہے کہ0 اگست 2017 کو بی آرڈی میڈیکل کالج میں لکویڈ آکسیجن کم ہونے اور شام تک اس کے پورے طور پر ختم ہونے کی جانکاری آکسیجن پلانٹ کے آپریٹروں نے صبح 11.20 کے قریب ہی بی آرڈی میں اس کی ذمہ داری سنبھالنے والوں کو دے دی تھی۔
شام تک یہ خبر مقامی میڈیا تک بھی پہنچ گئی۔ کئی صحافیوں کو آپریٹروں کی جانب سے لکھے گئے خط کی کاپی وہاٹس ایپ پر مل گئی تھی۔ اسی خط کی بنیاد پر گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ نے بھی 10 اگست کو شام میں خبر شائع کی تھی۔میڈیکل کالج اورضلع انتظامیہ کے ذمہ دار لوگ آکسیجن پلانٹ کے لیے لکویڈ آکسیجن اور متبادل کے طور پر مطلوبہ تعداد میں جمبو سلینڈر کا انتظام کرنے میں ناکام رہے اور 10 اگست کی رات 7.30 بجے وہ بھیانک واقعہ رونما ہوگیا، جو بی آرڈی میڈیکل کالج آکسیجن معاملہ یا آکسیجن حادثے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
غور طلب ہے کہ11اگست کی صبح تقریباً11.30 بجے جب میں بی آرڈی میڈیکل کالج کے 100بیڈ کے انسفلائٹس وارڈپہنچا تھا، تو وارڈ کے باہر جمبو سلینڈر رکھے جانے والے کمرے کے پاس ڈاکٹر کفیل خان کو بےچینی سے گھومتے اور موبائل پر بات کرتے ہوئے دیکھا۔
اسی وقت ایک پک اپ سے جمبو سلینڈر اتارے جا رہے تھے۔ انسفلائٹس وارڈ کے اندر مردہ خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔وارڈ کے باہر ایک روزنامہ کے فوٹوگرافر اور کچھ اسٹرنگر موجود تھے۔ کچھ دیر بعد ایک خاتون گود میں بیمار بچہ لیے آئی۔ وہ بےتحاشہ روئے جا رہی تھی۔
ڈاکٹر کفیل خان نے وارڈ کے باہر ہی بچہ کو دیکھا اور اسے گود میں لے لیا۔ پھر وہ بچہ کو گود میں لیے بھاگتے ہوئے اسے بھرتی کرانے وارڈ کے اندر چلے گئے۔ وہاں موجود فوٹوگرافر نے فوراًیہ تصویر لے لی۔یہ تصویر اور ایک چھوٹی سی خبر اگلے دن کچھ اخباروں میں آکسیجن کی کمی سے بچوں کی موت کی ہلا دینے والی خبروں کے بیچ شائع ہوئی۔
آکسیجن واقعہ سے رنجیدہ لوگوں کو ایک ڈاکٹر کا یہ انسانی چہرہ بھا گیا اور دیکھتے دیکھتے سوشل میڈیا میں یہ تصویر وائرل ہو گئی۔ ساتھ ہی ڈاکٹر کفیل خان بھی چرچہ میں آ گئے۔واضح ہوکہ10اگست سے 12اگست کی شام تک آکسیجن حادثے کے لیے ڈاکٹر کفیل کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا رہا تھا۔
پھر11اگست کی شام جب اس وقت کے ڈی ایم راجیو روتیلا انسفلائٹس وارڈ کے ایک کمرے میں صحافیوں کو اس حادثے کے بارے میں جانکاری دے رہے تھے، تو ڈاکٹر کفیل خان ان کے داہنے طرف کھڑے تھے اور ان سے ضروری اطلاعات شیئر کر رہے تھے۔
اسی بریفنگ میں ڈی ایم نے معاملے کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اس کمیٹی نے 24 گھنٹے کے اندر اپنی رپورٹ دے دی۔ اس رپورٹ میں بھی ڈاکٹر کفیل خان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔
جانچ رپورٹ کےنتائج میں ان کے بارے میں صرف دو لائنیں لکھی گئی تھیں ‘ڈاکٹر کفیل خان (نوڈل 100 بیڈ اےای ایس وارڈ )نے بتایا کہ وارڈ کا اے سی خراب ہو جانے کے بارے میں ڈاکٹر ستیش کمار کو تحریری طو رپرواقف کرایا تھا لیکن وقت سے ٹھیک نہیں کیا گیا۔’
پھر12 اگست کووزیرصحت سدھارتھ ناتھ سنگھ اورطبی تعلیم کے وزیر آشوتوش ٹنڈن بی آرڈی میڈیکل کالج آئے۔ یہاں آنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے ‘اگست ماہ میں بچوں کی موت تو ہوتی ہے’والا بیان دیا۔
اس بیان کی خوب مذمت ہوئی اور وزیر کے ذریعےپرنسپل راجیو مشرا کوسسپنڈ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن 12 اگست کی شام سے اچانک ساری انگلیاں ڈاکٹر کفیل خان کی طرف اٹھنے لگیں۔انہیں انسفلائٹس وارڈ کاانچارج بتاتے ہوئے آکسیجن کی کمی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ فیس بک پر پوسٹ لکھ کر انہیں آکسیجن کی چوری کرنے والا، پرائیویٹ پریکٹس کرنے والا بتایا جانے لگا۔
یہ بھی پڑھیں:یوگی حکومت کے آگے نہیں جھکوں گا، ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا: ڈاکٹر کفیل خان
ان پر ایک پرانے ریپ معاملے کے الزام، جسے جانچ میں فرضی پایا گیا تھا، کا بہت سنسنی خیز طریقے سے ذکر ہونے لگا۔سوشل میڈیا اور بےنام ویب سائٹس میں ان کے خلاف طرح طرح کے انکشافات ہونے لگے، تونیوز چینلوں میں انہیں‘ولن’بتایا جانے لگا۔
دہلی، لکھنؤ سمیت تمام جگہوں سے آئے صحافی اپناکیمرا لیے میڈیکل کالج سے داؤد پور کی طرف پہنچ گئے، جہاں ان کے گھروالوں کا ایک اسپتال تھا۔اس طرح 11اگست سے 12 اگست تک 48 گھنٹے تک سوشل میڈیا میں ایک ہیرو کی طرح سرخیاں بٹور رہا ڈاکٹر اب ولن بن چکا تھا۔
اس کے بعد13 اگست کو وزیراعلیٰ بی آرڈی میڈیکل کالج آئے۔ پریس کانفرنس جب ختم ہو رہا تھا، تبھی ایک صحافی نے سیاق سے ہٹ کر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے بارے میں سوال پوچھا۔وزیراعلیٰ اپنی کرسی سے اٹھ چکے تھے۔ ان کا چہرہ تنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتا پایا جائےگا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائےگی۔ اسی شام ڈاکٹر کفیل خان کو سسپنڈ کر دیا گیا۔
بتاتے چلیں کہ 11اگست کی رات ہی لکھنؤ سے آکر گورکھپور میں کیمپ کر رہے میڈیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر کے کے گپتا نے لگ بھگ تمام نیوز چینلوں کو انٹرویو دیا۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کفیل خان نے وزیراعلیٰ کے سامنے پرائیویٹ پریکٹس کی بات قبول کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اسٹاک میں 52 سلینڈر تھے، تو ڈاکٹرخان 3 سلینڈر لاکر کیا تیر مار لیں گے۔
ڈاکٹر گپتا نے ہنستے ہوئے نیوز چینل کے صحافیوں سے کہا کہ آپ ہی لوگوں نے تو انہیں‘ہیرو’بنایا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آکسیجن حادثے کے وقت جس پرائیویٹ پریکٹس کو بہت بڑا مدعا بنایا گیا، اس کے بعد کے تین سالوں میں ایک آدھ معاملے کو چھوڑکر کسی ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اور آج یہ کون نہیں جانتا کہ آج بھی بی آرڈی میڈیکل کالج کیمپس اور اس کے آس پاس سرکاری ڈاکٹرپرائیویٹ پریکٹس کر رہے ہیں!ڈاکٹر گپتا نے لکھنؤ واپس جاکر 22 اگست کو تفصیلی رپورٹ پرنسپل سکریٹری میڈیکل ایجوکیشن کو بھیجی اور حکومت سے رضامندی ملنے کے بعد حضرت گنج تھانے میں 23 اگست 2017 کو ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
اس ایف آئی آر میں ڈاکٹر کفیل سمیت نو لوگوں کے نام تھے۔ دو ستمبر کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران ان پر لگ رہے الزامات کی صفائی دینے خود ڈاکٹر کفیل خان یا ان کے گھر کا کوئی ممبر سامنے نہیں آیا۔بقول ڈاکٹر کفیل ان سے کہا گیا تھا کہ اس واقعہ کے بارے میں چپ رہنا ہوگا۔ کچھ دن میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائےگا۔
انہوں نے بتایا تھا، ‘میں ڈر گیا تھا اس لیے چپ رہا۔ گرفتار ہونے اور جیل میں چھ مہینے بیتنے تک بھی خاموشی اخیتار کیےرہا، لیکن جب لکویڈ میڈیکل آکسیجن کی فراہمی کرنے والی کمپنی پشپا سیلس کے ڈائریکٹرمنیش بھنڈاری کو ضمانت مل گئی، تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے اس معاملےکا سچ سب کے سامنے لانا چاہیے۔ اس کے بعد جب 17 اپریل 2018 کو میری بیوی ڈاکٹر شبستا مجھ سے ملنے آئیں، تو میں نے ان سے کہا کہ میں ایک خط لکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے ایک گھنٹے میں خط لکھا اور بیوی کو دے دیا۔’
یہ چٹھی آکسیجن حادثے میں پہلی بار ڈاکٹر کفیل کی بات لےکر لوگوں کے سامنے آئی۔ اسی خط سے لوگوں نے جانا کہ معاملے کے دن وہ چھٹی پر تھے۔آکسیجن ختم ہونے کی جانکاری ان کے ساتھی ڈاکٹر نے وہاٹس ایپ پر بھیجی۔ وہ ڈاکٹر وارڈ میں ڈیوٹی پر تعینات تھے۔
ڈاکٹر کفیل رات ڈھائی بجے اپنے بسنت پورواقع گھر سے بی آرڈی میڈیکل کالج روانہ ہو گئے۔ پوری رات مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ آکسیجن سلینڈر کاانتظام کرتے رہے۔اس معاملے میں25اگست 2018 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی سنگل بنچ نے ڈاکٹر کفیل خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا آرڈر دیا۔
آکسیجن حادثے کے کیس میں ضمانت پر چھوٹنے کے بعد ڈاکٹر کفیل نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں چھٹی پر ہونے کے باوجود اس رات میڈیکل کالج جانے اور آکسیجن سلینڈر کاانتظام کرنے کے واقعہ پر کوئی افسوس نہیں ہے۔انہوں نے کہا تھا، ‘حالانکہ میرا یہی کام میرا قصور بن گیا۔ لیکن اس طرح کی آفت پھر آتی ہے تو انجام کی پرواہ کیے بنا میں پھر موقع پر جاؤں گا بھلے اس کے لیے پھر کارروائی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔’
جیل سے رہا ہونے کے بعد انہیں لگتا تھا کہ وہ جلد بحال ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگرسرکار نے ان کو واپس لے لیا تو وہ پہلے کی طرح بی آرڈی میڈیکل کالج میں کام کرنے لگیں گے۔یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ان کوواپس نہیں لیا گیا تو کیا کریں گے، تو ان کا جواب تھا کہ وہ انسفلائٹس کے علاج کے لیے ایک ادارہ بنائیں گے، جہاں تمام سہولیات دستیاب ہوں۔
لیکن نہ تو وہ بحال ہو پائے اور نہ اپناادارہ شروع کر سکے۔ ایک کے بعد ایک معاملے سامنے آتے گئے۔ بھائی پر جان لیوا حملہ ہوا۔ستمبر 2018 میں بہرائچ ضلع اسپتال میں جاکر انسفلائٹس کا معاملہ اٹھانے پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ پھر ان پر غبن کا کیس درج کیا گیا اور بڑے بھائی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نےملک کے مختلف حصوں میں میڈیکل کیمپ لگانا شروع کیا۔
پچھلے سال محکمہ جاتی جانچ میں دو الزامات میں کلین چٹ ملنے کے بعد لگا کہ ڈاکٹر کفیل خان کی برخاستگی ختم ہو سکتی ہے لیکن سرکار نے دوبارہ محکمہ جاتی جانچ شروع کر دی۔اس بار کچھ نئے الزام بھی جوڑ دیے گئے۔ بحالی کے تمام امکانات بھی ختم ہو گئے۔اس کے بعد سی اے اے- این آرسی کے خلاف 12 دسمبر 2019 کو ڈاکٹر کفیل خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گیٹ پرتقریرکیا۔
اس تقریر کو لےکر13 دسمبر 2019 کو ان کے خلاف دفعہ153 اے کے تحت کیس درج کیا گیا۔ بعد میں اسی کیس میں ان پر دفعہ153 بی، 109 اے، 505 (2) بھی جوڑ دی گئی۔ڈیڑھ مہینے تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اچانک انہیں 29 جنوری کو انہیں ممبئی سے گرفتار کر لیا گیا۔
انہیں دس فروری کو اس معاملے میں سی جےایم کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ ضمانت ملنے کے تین دن بعد بھی وہ رہا نہیں ہو سکے۔
پھر13فروری کو سول لائنس تھانے کے انسپکٹر نے سی او کو رپورٹ دی کہ ڈاکٹر کفیل خان کا12 دسمبر کو دیا گیابیان نفرت اور تشددکو پھیلانے والا تھا۔ اس تقریر کے بعد علی گڑھ میں کئی دن تک ہنگامہ ہوا۔ ان کا باہر رہنا نظم ونسق کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے انہیں نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔
سی او نے اسی دن یہ رپورٹ ایس ایس پی کو دی۔ ایس ایس پی نے اسی دن اس پر اپنی رپورٹ دیتے ہوئے ڈی ایم سے سفارش کی کہ ڈاکٹر کفیل خان پراین ایس اےلگا دی جائے۔ڈی ایم نے ان کی رپورٹ سے رضامندی ظاہری کی اوراین ایس اےلگانے کا آرڈر دیا گیا۔ این ایس اے میں ان کی حراست کو اسٹیٹ ایڈوائزری بورڈ نے بھی منظوری دے دی۔
تین مہینے بعد پھر تین مہینے کے لیے این ایس اےکی مدت بڑھا دی گئی۔ اگست مہینے کی 13 تاریخ کو ایک بار پھر این ایس اے تین مہینے کے لیے بڑھا دی گئی تھی۔گزشتہ ایک ستمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کفیل خان کا بیان نفرت اور تشدد پھیلانے والا نہیں تھا بلکہ وہ قومی اتحاد کو مضبوط کرنے والا ہے۔ انہیں جلد رہا کیا جائے۔
اسی دن دیر رات ڈاکٹر کفیل رہا ہو گئے۔ انہوں نے پھر یہ کہا کہ وہ اپنی نوکری واپس پانا چاہتے ہیں۔ سیلاب متاثرین کے بیچ جاکر کام کرنا چاہتے ہیں لیکن پچھلی بار کی ہی طرح حکومت کا رویہ ان کے لیے نرم نہیں ہے۔ہائی کورٹ کے آرڈر کے باوجود انہیں جیل سے رہا کرنے میں ضلع اور جیل انتظامیہ نے جو حجت کی، وہ اسی بات کی دلیل ہے۔
(مضمون نگار گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)