سدرشن نیوز کے بند اس بول شو کے‘نوکر شاہی جہاد’ایپی سوڈکےٹیلی کاسٹ کو روکتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہونے کے ناطے یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صحافی کو ایسا کرنے کی پوری آزادی ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سدرشن ٹی وی کے شو‘بند اس بول’کے متنازعہ ایپی سوڈکے ٹیلی کاسٹ پر منگل کو روک لگا دی ہے۔اس کا ٹیلی کاسٹ منگل اور بدھ کو کیا جانا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلی نظر میں ہی یہ مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے والامعلوم ہوتا ہے۔
J Chandrachud, after dictating the order, orally remarks that the court was thinking to appoint a committee of five distinguished citizens who can come up with certain standards for the electronic media.
— Live Law (@LiveLawIndia) September 15, 2020
غورطلب ہے کہ ‘بند اس بول’سدرشن نیوز چینل کے ایڈیٹران چیف سریش چوہانکے کا شو ہے۔ اگست کے آخری ہفتے میں جاری ہوئے اس کے ایک ایپی سوڈ کے ٹریلر میں چوہانکے نے ہیش ٹیگ یوپی ایس سی جہاد لکھ کر نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا انکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس شو کو28 اگست کو رات آٹھ بجے نشرہونا تھا،لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلموں کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے اسی دن اس پر روک لگا دی تھی۔اس کے بعد 9 ستمبر کو وزارت اطلاعات ونشریات نے چینل کو شو نشر کرنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے اسے نوٹس بھیجا تھا، لیکن ٹیلی کاسٹ روکنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد اس شوکے ٹیلی کاسٹ کے بارے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزار کے وکیل نے اس شو کے ٹیلی کاسٹ پرعبوری روک لگانے سمیت کئی راحت مانگی تھی۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اندو ملہوترا اور جسٹس کےایم جوزف کی تین رکنی بنچ نے اس شو کی دو کڑیوں کے ٹیلی کاسٹ پر روک لگاتے ہوئے کہا، ‘اس وقت پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ یہ پروگرام مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے والا ہے۔’
بنچ نے کہا،‘اس پروگرام کودیکھیے،کیساہنگامہ پیداکرنےوالاشوہےکہ ایک کمیونٹی ایڈمنسٹریٹوسروس میں داخل ہو رہا ہے۔’بنچ نے کہا، ‘دیکھیے اس شو کاموضوع کتنا اشتعال انگیز ہے کہ مسلمانوں نے سروسز میں گھس پیٹھ کر لی ہے اور یہ حقائق کے بغیر ہی یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کوشک کے دائرے میں لے آتا ہے اور ان پر بھی الزام لگتا ہے۔’
سدرشن ٹی وی کی جانب سے سینئر وکیل شیام دیوان نے بنچ سے کہا کہ چینل اسے قومی مفاد میں ایک تحقیقی خبر مانتا ہے۔اس پر بنچ نے دیوان سے کہا،‘آپ کا موکل ملک کا نقصان کر رہا ہے اور یہ قبول نہیں کر رہا کہ ہندوستان متنوع ثقافت والاملک ہے۔آپ کے موکل کو اپنی آزادی کے حق کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے۔’
لائیولاء کےمطابق جسٹس چندرچوڑ نے کہا،‘جب آپ کہتے ہیں کہ جامعہ کے اسٹوڈنٹ سول سروسز میں ہو رہی‘گھس پیٹھ’ کا حصہ ہیں،تویہ قابل قبول نہیں ہے۔ آپ کسی ایک کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنا سکتے، اور ایک خاص طریقے سے ان کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔’جسٹس جوزف نے اس میں جوڑا، ‘وہ بھی غلط حقائق اور غلط بیانات کی بنیاد پر۔’
J Chandrachud : This is an insidious attempt to malign a community.#SudarshanNews#SureshChavhanke @SureshChavhanke
— Live Law (@LiveLawIndia) September 15, 2020
جسٹس چندرچوڑ نے کہا،‘یہ ایک کمیونٹی کو بدنام کرنے کی مکاری ہے۔’اس بات پر دیوان نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ کسی کمیونٹی یاادارے کو اس طرح نشان زد نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ موضوع الگ ہے۔اس پر جسٹس چندرچوڑ نے کہا، ‘اس ملک کی سب سے بڑی عدالت ہونے کے ناطے ہم آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔ اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحافی کو ایسا کرنے کی پوری آزادی ہے۔’
J Chandrachud : As a Supreme Court of the nation we cannot allow you to say that Muslims are infiltrating civil services. You cannot say that the journalist has absolute freedom doing this.#SudarshanNews#SureshChavhanke
— Live Law (@LiveLawIndia) September 15, 2020
چینل کے ایڈیٹران چیف سریش چوہانکے نے 26 اگست کو اپنے شو بند اس بول کا ایک ٹریلر ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے ہیش ٹیگ یوپی ایس سی جہاد کے ساتھ نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کا انکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔اس ویڈیو میں انہوں نے جامعہ رہائشی کوچنگ اکادمی(آرسی اے)سے پڑھ کر یوپی ایس سی کےامتحان پاس کرنے والوں کو جامعہ کا جہادی بتایا تھا۔
جامعہ ملیا اسلامیہ نے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ اس وقت ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے چوہانکے نے کہا تھا، ‘مجھے نہیں پتہ کہ آرسی اے میں ہندو ہیں یا نہیں۔ جہادی لفظ کی مخالفت کرنے والوں کو پہلے بتانا چاہیے کہ کیا انہیں یہ توہین آمیزلگتا ہے۔ میں اپنے رخ پر قائم ہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ نوکر شاہی میں ان کی(مسلم)تعداد کیسے بڑھ رہی ہے؟’
انہوں نے آگے کہا تھا، ‘یہ اس لیے کیونکہ انہیں پچھلے دروازے سے حمایت دی جا رہی ہے، ان کے پاس اسلامک اسٹڈیز، اردوزبان وغیرہ چننے کااختیار ہے۔ اگر میرا شو غیرآئینی پایا جاتا ہے اور یہ براڈکاسٹر کے معیار پر کھرا اترتا نہیں پایا جاتا تو میرے خلاف کارروائی کی جائے۔’
ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منگل کو اس معاملے کی شنوائی کے دوران بنچ نے کہا، ‘ہم میڈیا پر کسی طرح کی سینسرشپ کا مشورہ نہیں دے رہے ہیں، لیکن میڈیا میں آٹومیٹک کنٹرول کا کوئی نہ کوئی نظام ہونا چاہیے۔’بنچ نے کہا، ‘ہم میڈیا رپورٹنگ کے بارے میں کچھ معیار کیسےطے کریں۔’ بنچ نے کہا کہ میڈیا میں آٹومیٹک کنٹرول کا کچھ انتظام ہونا چاہیے اور اس سوال پر ہم سالیسیٹر جنرل کو سنیں گے۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے بنچ سے کہا کہ صحافیوں کی آزادی سب سے اوپرہے اور پریس کو کنٹرول کرنا کسی بھی جمہوری نظام کے لیے مہلک ہوگا۔عدالت نے کہا کہ پیش عرضی میں کچھ موضوعات کی رپورٹیگ کیسے کی جائے، اس بارے میں گائیڈ لائن بنانے اور آٹومیٹک کنٹرول کے گائیڈ لائن بنانے کی اپیل کی گئی ہے۔
بنچ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اسٹیٹ ایسے گائیڈ لائن تھوپے کیونکہ یہ توآئین کے آرٹیکل 19 میں درج بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے لعنت ہو جائےگا۔عدالت نے کہا کہ ٹی وی چینل کے ریونیو کا ماڈل اور اس کی ملکیت کی نوعیت ویب سائٹ پر عوامی دائرے میں ہونی چاہیے۔
بنچ نے کہا، ‘میڈیا کا حق شہریوں کی طرف سے ہے اور یہ میڈیا کاخصوصی حق نہیں ہے۔’بنچ نے عرضی پرشنوائی کے دوران مشورہ دیا کہ الکٹرانک میڈیا کے ریگولیشن میں مدد کے لیے ایک کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔بنچ نے کہا، ‘ہماری رائے ہے کہ ہم پانچ روشن خیال شہریوں کی ایک کمیٹی بنا سکتے ہیں جو الکٹرانک میڈیا کے لیے کچھ معیار تیار کریں گے۔ ہم سیاسی تفرقہ انگیزی نہیں چاہتے اور ہمیں ایسے ممبر چاہیے، جن کا ایک وقار ہو۔’
عدالت نے اس شوکے خلاف دائرعرضی پر شنوائی کے دوران کہا کہ کچھ میڈیا ہاؤس کے شو میں ہونے والی بحث باعث تشویش ہے، کیونکہ اس میں ہر طرح کی ہتک آمیز باتیں کہی جا رہی ہیں۔شنوائی کے دوران بنچ نے کچھ میڈیا ہاؤس کے ذریعے مجرمانہ معاملے کی جانچ کیے جانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جب صحافی کام کرتے ہیں تو انہیں غیرجانبدارانہ تبصرہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجرمانہ معاملوں کی جانچ دیکھیے، میڈیا اکثر جانچ کے ایک ہی حصہ کوفوکس کرتا ہے۔
بنچ نے دیوان سے کہا، ‘ہم آپ کے موکل (سدرشن ٹی وی)سے تھوڑاصبروتحمل برتنے کی امید کرتے ہیں۔عرضی گزارکی جانب سے سینئر وکیل انوپ چودھری نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے معاملہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پاس بھیجا تھا لیکن وزارت نے کوئی منطقی آرڈر پاس نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت نے دوسرے فریق کو سنا ہی نہیں اور شوکے ٹیلی کاسٹ کی اجازت دے دی۔وزارت نے چینل کے اس بیان پر بھروسہ کیا کہ وہ ضابطوں پر عمل کرےگا۔اس سے پہلے عدالت نے 28 اگست کو سدرشن ٹی وی کےشو‘بند اس بول’پرٹیلی کاسٹ سے پہلے ہی پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا۔ اب عدالت نے معاملے کو 17 ستمبر کے لیے لسٹ کیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں