انٹرویو:سدرشن نیوزکے متنازعہ‘یوپی ایس سی جہاد’پروگرام میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن پر کئی طرح کے الزام لگائے گئے ہیں۔اس پروگرام، اس سے متعلق تنازعہ اور الزامات کو لےکر زکوٰۃ فاؤنڈیشن کے بانی اورصدرسید ظفر محمود سے بات چیت۔
اگست مہینے کےآخری ہفتے میں سدرشن نیوز چینل نے اپنے ایک پروگرام‘بند اس بول’کے ایک ایپی سوڈ کا ٹریلر جاری کیا، جس کا عنوان ‘یوپی ایس سی جہاد’تھا۔‘بند اس بول’اس چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے کا شو ہے۔اس کے ٹریلر میں چوہانکے نے ہیش ٹیگ یوپی ایس سی جہاد لکھ کر نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کاانکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس نام اور پرومو کے مواد کو لےکر کافی تنازعہ ہوا۔ جس دن پروگرام کا ٹیلی کاسٹ طے تھا، اسی دن دہلی ہائی کورٹ نےاس پر روک لگا دی۔بعد میں کورٹ نے معاملے سے وزارت اطلاعات ونشریات سےفیصلہ لینے کو کہا جس نے چینل کی جانب سےملے جواب کے بعد اس کے ٹیلی کاسٹ کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد 11 ستمبر سے 14 ستمبر تک اس پروگرام کے چار ایپی سوڈ دکھائے گئے۔
حالانکہ باقی ایپ سوڈ پر سپریم کورٹ نے روک لگاتے ہوئے چینل کی سخت سرزنش کی ہے، جس کی شنوائی اب بھی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔جن ایپی سوڈ کاٹیلی کاسٹ ہوا، ان میں ایک پینل نے الزام لگایا ہے کہ یوپی ایس سی میں منظم طریقے سے مسلمانوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے اور ایک غیر سرکاری تنظیم ‘زکوٰۃ فاؤنڈیشن’کے ذریعے اس کی کوچنگ دی جا رہی ہے۔
اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اس فاؤنڈیشن کو برٹن کی مدینہ ٹرسٹ نام کے ایک ادارے سے فنڈنگ ملتی ہے، جو ہندوستان مخالف سرگرمیوں میں شامل ہے۔اس کے علاوہ چینل نے کئی اور الزام لگائے ہیں،مثلاً؛کہا گیا کہ مسلمانوں کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچایا جا رہا ہے تاکہ وہ یوپی ایس سی میں آ سکیں۔
کہا گیا کہ ‘یہ لوگ’اُردو لیتے ہیں ان کو نمبر زیادہ ملتا ہے اس لیے یہ لوگ یوپی ایس سی میں آ رہے ہیں۔ انٹرویو میں مسلمانوں کو زیادہ نمائندگی مل رہی ہے جس سے ان کاسلیکشن زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرے کمیونٹی کے مقابلےان کا سلیکشن9.5 فیصد زیادہ ہے۔یہاں تک کہا گیا کہ اڑان فنڈ کے ذریعےیوپی ایس سی کی تیاری کرنے والے مسلمان طلبا کو جو فنڈنگ ہوتی ہے، اس سے ان کو دوسری کمیونٹی کی بہ نسبت ناجائز فائدہ مل رہا ہے۔
ان تمام مدعوں پر ہندوستانی سول سروس میں سابق بیوروکریٹ رہے اور زکوٰۃ فاؤنڈیشن کے بانی اور صدر سیدظفر محمود سے بات چیت۔
‘یوپی ایس سی جہاد’پروگرام اور اس کو لےکر ہوئے تنازعہ پر کیا کہیں گے؟
یہ تنظیم پچھلے بیس سال سے چل رہی ہے۔ زکوٰۃ فاؤنڈیشن کاقیام1997میں ہوا تھا، پہلے تو غیر رسمی طور کام شروع کیا گیا تھا، لیکن 2001 میں چیرٹیبل ٹرسٹ کے طور پر رجسٹریشن کرایا گیا۔ اس کے بعد انکم ٹیکس ایکٹ اور ایف سی آراے میں رجسٹر ہوئی۔
شروع کے دس سالوں تک یعنی1997سے 2007 تک زکوٰۃ فاؤنڈیشن یتیم بچوں کے لیےیتیم خانہ چلاتا تھا، غریب بیوہ عورتوں کو راشن دیتا تھا، غریب لڑکیوں کی شادیوں کے لیے مدد کی جاتی تھی۔ غریب طلبا کی فیس بھرتے تھے۔ کچھ مفت ڈسپنسری چلتی تھیں۔
اس طرح کے کام جب تک ہم کر رہے تھے تب تک کسی کو کوئی دقت نہیں تھی۔ خاص کر ان کو، جن کا آپ نام لے رہے ہیں ان ٹی وی چینل والوں کو۔ لیکن نومبر 2006 میں جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ سامنے آ گئی، اسے کابینہ نےمنظوری دے دی اور پارلیامنٹ میں پاس ہو گئی۔
اس کے عمل کے لیےسکریٹریز کی کمیٹی بنا دی گئی اور اس میں کابینہ سکریٹری کو اس کا انچارج بنا دیا گیا،یہ بتا دوں کہ وہ سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پورے ہندوستان میں سماجی، اقتصادی اورتعلیمی شعبوں میں مسلمان باقی مذہب کے ماننے والوں سے بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر علاقوں میں ایس سی سے بھی پیچھے ہیں۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پسماندگی کے بہت سے اسباب ہیں لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی میں مسلمانوں کی جو نمائندگی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔سال2011 کی مردم شماری کےمطابق ملک کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی14.2 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں1.5فیصد بہت کم ہے۔ سچر کمیٹی نے یہی بنیادی وجہ بتائی۔ اسے یو پی اے سرکار نے قبول بھی کر لیا اور اس پر عمل بھی شروع کیا۔
آئین کے آرٹیکل 15 اور 16 میں یہ بات درج ہے کہ یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ نشاندہی کرے کہ سماج میں کمزور طبقے کون کون سے ہیں اور ان کے لیے کیا مثبت اقدام کیے جائیں، کیاخصوصی منصوبےبنائے جائیں۔ یہ سرکار کا کام ہے اور وہ اچھی طرح کرتی بھی رہی۔
زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا نے یہ تجوزیر رکھی کہ سرکار کی ان کوششوں میں وہ اپنی خدمات دےگا۔ تب سے ان کی قیادت میں ایک نئی یونٹ بنائی گئی، جس کا نام ہے کوچنگ گائیڈنگ سینٹر فار سول سروسز۔تب سے لےکر اب تک ملک بھر میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن نے 40 اورینٹیشن پروگرام چلائے ہیں۔ یہ ملک بھر میں ہوا ہے، کوئی بھی ریاست اس سے اچھوتا نہیں رہا۔
اس کی بنیادپرکل ہند سطح کا ایک تحریری امتحان ہوتا ہے۔اس میں شارٹ لسٹ کرکے، انٹرویو لےکر انہیں دہلی لاکر رعایتی شرحوں پر ہاسٹل میں رکھا جاتا ہے اور ان کا ایڈمشن ان جانےمانے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں کروایا جاتا ہے، جن کی کامیابی کی شرح زیادہ ہے اور پھر ان کی دیکھ ریکھ کرتے رہتے ہیں۔
تو اس طرح ہمارے کام شروع کرنے سے سماج میں جو لوگ حاشیے پر تھے، وہ سرکار کا حصہ بن گئے اور وہ بااختیار ہونے لگے۔ تب لوگوں کو پریشانی ہونے لگی اس لیےیہ لوگ یہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن میں کیا کیا خامیاں نکالی جا سکتی ہیں۔
آپ کے یہاں سے پڑھ کر سول سروسز میں جانے والوں کی تعداد لگ بھگ کتنی ہوگی؟
اس سے پہلے آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ سول سروسز کے امتحانات تین سطحوں پر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے پری لمنری امتحان ہوتا ہے، اس کے بعد مینس۔پری لمنری میں تقریباً10 لاکھ لوگ بیٹھتے ہیں۔ان میں سے 25-30 ہزار لوگ سلیکٹ ہو پاتے ہیں، جن کو مینس کے لیے بلایا جاتا ہے۔ مینس اگزا م میں2500-3000 لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں، جن کو انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔
ہمارا آل انڈیا ٹیسٹ سال میں ایک بار ہوتا ہے، جو آن لائن ہی ہوتا ہے، اس میں سلیکٹ ہونے والوں کو ہم پری لمنری کے لیے کوچنگ دلواتے ہیں، جس کی 90 فیصد فیس ہم دیتے ہیں اور 10 فیصد فیس امیدوار دیتا ہے۔ان میں سے کچھ لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں، تو کچھ اور لوگ اگلے سال کی تیاری کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگ دوسرے امتحانات بھی دلاتے ہیں۔ جو بچہ پری لمس میں سلیکٹ ہو پاتے ہیں، انہیں ہم مینس کے لیے تیاری کرواتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں جو بچہ اپنی سطح پرکوشش کرکے مینس کے لیے سلیکٹ ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ جب ہم سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کو بھی ہم کوچنگ دلواتے ہیں۔پری لمس سے نکلنے کے بعد مینس کے لیے صرف تین مہینے کا وقت ہوتا ہے۔ ان کے لیے ہر گھنٹہ اہم ہوتا ہے اس لیے جیسے ہی ہمیں کوئی ای میل بھیجتے ہیں تو ہم فوراً ان کی مدد کے لیے آگے آ جاتے ہیں۔
جب مینس کے نتیجہ نکلتے ہیں، اس میں دونوں طرح کے بچہ ہوتے ہیں۔ جو پری لمس میں آئے تھے اور جو باہر سے پری لمس پاس ہوکر آئے تھے۔ اس کے بعد انٹرویو کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں۔اس وقت کچھ اور لوگ ہمیں درخواست بھیجتے ہیں جو اپنی طاقت پر پری لمس اور مینس پورا کر چکے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی بھی پوری مدد کرتے ہیں۔ اس طرح تین مرحلوں میں تین طرح کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔
کسی کی ہم 100 فیصد مدد کر چکے ہوتے ہیں، کسی کی 50 فیصد مدد کر چکے ہوتے ہیں اور کسی کی 10 فیصد مدد۔ ان سب کو ملانے سے پچھلے 10-11 سالوں میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی طرف سے اب تک 149 امیدوار سلیکٹ ہو چکے ہیں۔
چینل کا الزام ہے کہ اڑان کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی جوفنڈنگ ہوتی ہے، اس سے مسلمانوں کوناجائز فائدہ مل جاتا ہے کیونکہ یہ ہندوؤں کو دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2011 کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے اُردو چنا، ان کا 40.9 فیصد سلیکشن ہوا۔ انٹرویو میں سلیکٹ ہونے والوں میں مسلمانوں کی تعداد دوسری کمیونٹی کے مقابلے9 فیصد زیادہ ہے۔ ان کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
جیسے میں نے پہلے بھی بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 15 اور 16 میں سماج کے کمزور طبقوں کی نشاندہی کرکے انہیں ملک کے مین اسٹریم میں لانے کے لیے سرکاروں کو خصوصی قدم اٹھانے پڑیں گے۔ اس کے تحت وزارت برائےاقلیتی امور بنایا گیا۔
اوریہ صرف مسلم اقلیتوں کے لیے نہیں ہے، ہندوستان میں جتنی بھی اقلیت ہیں ان کے لیے ہے۔ جو منصوبے بنتے ہیں، وہ سب کے لیے بنتے ہیں، جن میں جین بھی شامل ہیں، سکھ بھی شامل ہے… تو اگر ان کو لڑائی کرنا ہے تو حکومت سے لڑیں اور آئین سے لڑیں کہ آپ نے کیوں ایسا کیا۔
دوسری بات، یہ واضح کردوں کہ اُردو پر ان کا ڈیٹا بالکل غلط ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس کا کوئی سیاق وسباق بھی نہیں دیا گیا۔اُردو میں اصل میں بالکل الٹا معاملہ ہے۔ اردو میں ہونا یہ چاہیے کہ جو لوگ اردو جانتے ہیں وہ اردو میں پڑھائی چنے۔ لیکن اس امتحان میں بیٹھنے والے جو 20-30 سال کے نوجوان ہیں، ان میں 95-97 فیصد کو اُردو نہیں آتی۔
اگر ان کے گھروں میں اُردو بولی بھی جاتی ہے تو انہیں لکھنا نہیں آتا۔ اگر لکھنا آتا بھی ہے تو اتنی خوداعتمادی نہیں ہوتی کہ وہ اس سے کوئی فائدہ لے سکیں۔ لہٰذا اُردو کااختیار صرف دو یا تین فیصد بچے ہی لیتے ہے۔ ان کی گنتی انگلیوں پر کی جا سکتی ہے۔لیکن اس کااثر کسی کے نتیجہ پر تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ایسے ہی ہوا کہ آپ کہیں کہ جو لوگ ملیالم یا کنڑ لیں گے تو اس زبان میں جانچنے والوں کی وجہ سےیہ ان کے حق میں ہوگا، تو اس لیے اس بات میں کوئی تک ہی نہیں ہے، اسے خارج کر دیا جانا چاہیے۔
تیسری بات، جہاں تک انٹرویو میں مسلمانوں کو فائدہ ہونے کا سوال ہے، تو میں کہوں گا کہ پہلے تو جو صاحب یہ اعتراض کر رہے ہیں، وہ اتنی قابلیت رکھتے ہوں کہ حکومت ہند انہیں لے جاکر انٹرویو میں بٹھا دے۔
یوپی ایس سی ایک آئینی اکائی ہے۔اس کا اتنا ہی احترام کرنا چاہیے، جتنا آئین کا کرتے ہیں۔ جب تک کہ حکومت ہندیا کوئی عدالت یا کوئی اتھارٹی اس کے اندر کوئی خرابی نہ نکالے، لیکن ایک آئینی اکائی پر ہوا میں تیر چلاکر اس پرالزام لگانا اور اس کی توہین کرنا صحیح نہیں ہے، یہ آئین کی توہین ہے۔
اس ادارے کو آئین کے تحت بنایا گیا ہے، جس کے اندر ایک نظام ہوتا ہے جو آزادی کے بعد سے ہی مضبوطی سے چل رہی ہے۔ ہندستان میں اگر کسی ادارہ کے خلاف کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، جو پوری طرح سے شفاف ہے، وہ یوپی ایس سی ہی ہے۔
جب یہ بات اٹھی تب آر ایس ایس سے متاثر سنکلپ سنستھا کا نام بھی آیا۔ اس کاقیام 1986 میں ہوا تھا۔ اس کا ویژن اسٹیٹمنٹ کہتا ہے کہ بچوں کو سول سروسز میں‘قومی قدروں’کے ساتھ لانا چاہیے۔ پچھلے سالوں میں50فیصد سے زیادہ بچہ ان سےتربیت حاصل کرکےیوپی ایس سی میں آئے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے نوکر شاہی کا بھگواکرن ہوا ہے۔
آپ اتنے سالوں تک سول سروسز میں رہے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس بات میں دم ہے کہ 1980 کے وسط تک لیفٹ لبرلز نوکر شاہی میں زیادہ تعداد میں تھے اور بعد میں بی جے پی ، آر ایس ایس والوں کو لگا کہ اس میں ہمارے جیسی سوچ رکھنے والوں کو آنا چاہیے۔ پھر اس حساب سے کوئی پروجیکٹ چلا؟
اس کے جواب میں میں ایک شعر پڑھنا چاہتا ہوں کہ؛
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی طرف سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہم اچھے کام میں بھروسہ رکھتے ہیں اور ہمارا کام آئینی بھی ہے۔ رجسٹریشن سے لےکر ہر پہلو میں ہم آئینی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں۔ ایف سی آراے سے لےکر ہر قانون کے تحت ہماری تنظیم چل رہی ہے۔
ہم حکومت ہند کے تمام ضابطوں کے حساب سے چل رہے ہیں۔ لیکن دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں، اس میں میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔ زکوٰۃ فاؤنڈیشن کا یہ ماننا ہے کہ دوسروں کی تنقید کرنے یا کسی کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کوچنگ انسٹی ٹیوٹ پر جو سوال اٹھے ہیں، وہ ایک طرح سے یوپی ایس سی کے منتخب امیدواروں پر بھی سوال ہیں۔ لوگ اب سول سروس کو اس طریقے سے دیکھیں گے کہ کون کس کمیونٹی سے آیا ہے، یہ انصاف کرےگا کہ نہیں کرےگا۔ اب جس طرح کی بحث چھڑی ہے، کیا لوگوں کے اندر نوکر شاہی پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے؟
میں ایسا قطعی نہیں سوچتا۔ انہوں نے پچھلے کچھ دنوں کے اندر جو بھی کیا ہے، ان کا بہت ہی تنگ ایجنڈہ ہے۔ ابھی انہوں نے سول سروس کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے پہلے بھی انہوں نے کسی نہ کسی کو نشانہ بنایا تھا۔اگر ان کے کئی سالوں کے پچھلے ریکارڈ کو اٹھاکر دیکھیں، تو ہمیشہ سے ان کا ایسا ہی منفی رخ رہا ہے۔ ان کی کسی نہ کسی کو نشانہ بناکر ملک کے اندر آئینی نظام میں رکاوٹ النے کی کوشش رہی ہے۔ یہی ان کا کام ہے۔ یہی کر رہے ہیں۔
اور مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ان کا شو کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے۔ ان کو باربار یہ شکایت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ یہ کیوں نہیں دکھا رہے، ہم ہی دکھا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔سماج میں ایسےعناصر ہیں جن کو زیادہ تر لوگ پسند نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ بھی انسانی مزاج کا حصہ ہے۔ اوپر والے نے سب کو شعور دیا، صحیح غلط کی سمجھ دی، لیکن اب یہ اس انسان پر ہے کہ وہ کس راستے کو پکڑے، نہ پکڑے۔
تو کئی لوگ اس راستے جاتے ہیں، جہاں اکثریت نہیں جا رہی ہے، تو اس کے لیے انگریزی میں لفظ ہے ایبریشن(Aberration)، یہ وہی ہیں۔اور مجھے لگتا ہے کہ ہندستان کا آئین ہے، اس کے تحت بنے ہوئے قانون، اس کے تحت مقررافسر، اس کے علاوہ عدالتیں، میڈیا ہے اور مقننہ ہیں، یہ سب لوگ مل کر ان سے نمٹنے میں اہل ہیں اور اس کو لےکر ہمیں بالکل مطمئن رہنا چاہیے۔
سول سوسائٹی کے طور پر ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنا کام اچھے سے اچھے طریقے سے کرتے رہیں، جو آئینی نظام میں پوری طرح ٹھیک بیٹھتا ہو اور انسانی نظام میں ٹھیک بیٹھتا ہو۔ اس طرح کے ایبریشن کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ نے نوکرشاہوں کو قریب سے دیکھا ہے، پہلے وہ سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹررہے ناگیشور راؤ کو دیکھیں، وہ کس طرح کے بیان دے رہے ہیں۔ تو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اندر کی فرقہ واریت باہر آ رہی ہے، آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
پھر میں وہی بات کہوں گا سماج میں سوچ چلتی رہتی ہے اور کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں اچھی سوچ ڈالنے کی اور کچھ اور لوگ کم اچھی سوچ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔نیوٹن کے اصول کے مطابق ہرعمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ اثر تو ہوگا۔ لیکن ہمارے لیے تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت صحیح طریقے سے سوچ رہی ہے۔
انہیں آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کوانسان کی بھلائی دکھتی ہے۔ 95 فیصد سے زیادہ لوگ اچھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ بولتے نہیں ہیں۔جو بولنے والے لوگ ہیں، ان میں بھی ایسا نہیں ہے کہ ایک طرف بول رہے ہوں، دوسری طرف کے لوگ بھی خوب بولتے ہیں۔ وہ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں تک تحریری طورپر اپنی بات بھی بھیجتے ہیں۔ تو یہ ایک مسلسل عمل ہے۔
باقی میں کہوں گا کہ ہم میں سے ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ آج سے 40-50 سال بعد یا آخری وقت میں جب پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو دیکھیں کہ ہم نے دوسروں کی بھلائی میں کیا کیا، انسانیت کے لیے کیا کیا۔ سماج میں خرابی پیدا کرنے کے بجائے اس کا انتظام ابھی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آخری سوال جب اس شو کا پرومو دیکھا، کیا آپ کو لگا نہیں ہے کہ تبھی اس پر ایکشن لیا جانا چاہیے تھا، جو ایپی سوڈ پرٹیلی کاسٹ ہوئے ہیں وہ بھی نہیں ہونے چاہیے تھے؟
سرکاریں اور جو اسے چلانے والی اکائیاں ہیں، وہ بہت بڑا سسٹم ہیں، اس میں ہمیشہ ایسے نہیں ہو سکتا کہ میرے پسند کی ہی بات ہو، یا آپ ہی کے پسند کی بات ہو۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں سدھار بھی ہوتے رہتے ہیں۔شو پر ایک بار روک لگی، پھر کسی طریقے سے روک ہٹ گئی۔ اس کے بعد پھر دوبارہ روک لگ گئی۔ میں یہی کہوں گا کہ آخر میں اچھی طاقتوں کی، انسانیت کی طاقتوں کی ہی جیت ہوتی ہے۔
لیکن اس عمل میں کئی بار اوپر نیچے ہو جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خاموشی سے ہم اپنا اچھا کام جاری رکھیں۔آپ کے توسط سے میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جتنے بھی الزام زکوٰۃ فاؤنڈیشن کے اوپر اس ٹی وی کے ذریعے لگائے گئے ہیں، وہ سب غلط ہیں۔ سو فیصدی غلط ہیں، بے بنیاد ہیں۔ ہم ان کی تردید کرتے ہیں۔
زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے بورڈ کی میٹنگ کے ہونے کے بعد ہم آگے اس بارے میں غور کریں گے کہ کیا کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ جانچ کرائیں گے تاکہ بدنیتی کے ساتھ جو اس طرح الزام لگائے جا رہے ہیں، وہ آئندہ کسی اور پر نہ لگیں۔
Categories: فکر و نظر