جیل جانے کے بعد تنازعہ ہونے پر ہاتھرس سے بی جے پی ایم پی راج ویر سنگھ دلیر نے کہا کہ وہ جیلر کے بلاوے پر جیل احاطہ میں واقع ان کے دفتر میں چائے پینے گئے تھے۔کسی سے ملنے نہیں گئے تھے۔ کانگریس نے کہا ہے کہ اگر ایم پی واقعی ملزمین سے ملنے گئے تھے تو یہ شدید طو رپرقابل اعتراض ہے۔
نئی دہلی: ہاتھرس میں19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے چار ملزمین سے ملنے کے لیے سوموار کو بی جے پی ایم پی راج ویر سنگھ دلیر ڈسٹرکٹ جیل پہنچ گئے تھے۔اپوزیشن نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک عوامی نمائندے کو اس جیل میں جانے سے بچنا چاہیے تھا جہاں ہاتھرس معاملے کے چاروں ملزم بند ہیں۔
دلیر نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ جیلر کے بلاوے پر جیل احاطہ میں واقع ان کے دفتر میں چائے پینے گئے تھے۔ وہ وہاں کسی سے ملنے نہیں گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایس ایس پی سے ملاقات کرنے گئے تھے، مگر ان کوکووڈ انفیکشن ہونے کی وجہ سے وہ ملاقات کیے بغیر ہی واپس لوٹ رہے تھے۔ اس دوران جیل کے ٹھیک سامنے کچھ حامیوں نے انہیں روکا۔ وہ ان سے بات کر ہی رہے تھے کہ جیلر باہر نکل آئے اور انہوں نے انہیں چائے پینے کے لئے اپنے دفتر میں بلا لیا تو وہ چلے گئے۔
غورطلب ہے کہ ہاتھرس میں دلت کمیونٹی کی لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ اور اس کی موت کے معاملے میں تمام چار ملزمین اسی جیل میں بند ہیں۔اس سوال پر کہ کیا وہ جیل میں ان ملزمین سے ملنے گئے تھے، دلیر نے کہا کہ وہ کسی سے ملاقات کرنے نہیں گئے تھے اور انہیں کسی تنازعہ میں غیرضروری طور پر نہ گھسیٹا جائے۔
بہرحال، کانگریس نے اس پر کہا کہ اگر ایم پی واقعی ملزمین سے ملنے گئے تھے تو یہ شدید طور پرقابل اعتراض ہے۔
کانگریس رہنماارادھنا مشرا نے کہا،‘ہاتھرس معاملے پر پوری دنیا کی نظر ہے۔ ایسے میں ہاتھرس کے ایم پی کا جیل احاطہ میں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اگر وہ ملزمین سے ملنے گئے تھے تو یہ شدید طور پرقابل اعتراض ہے۔’
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایم پی دلیر کو اس جیل میں نہیں جانا چاہیے تھا، جہاں ہاتھرس واقعہ کے ملزم بند ہیں۔
معلوم ہو کہ ملزمین کی حمایت میں ہاتھرس میں مبینہ طور پراشرافیہ کمیونٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ چار اکتوبر کی صبح ہاتھرس میں بی جے پی کے ایک رہنما راج ویر سنگھ پہلوان کے گھر پر ملزمین کی حمایت میں 500 لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں معاملے کے ایک ملزم کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔
اس دوران الزام لگایا گیا کہ چاروں نوجوانوں کو غلط الزام لگاکر گرفتار کیا گیا ہے۔ انہیں انصاف ضرور ملنا چاہیے۔
اس سلسلے میں راج ویر سنگھ پہلوان نے کہا تھا، ‘ریپ نہیں ہوا ہے۔ متاثرہ کے اہل خانہ نے شروع میں صرف ایک شخص(ملزم)کا نام کیوں لیا اور پھر تین اور نام شامل(ایف آئی آر میں)کیا گیا؟ لڑکی کا گلا دبانے اور دیگر الزام جھوٹے ہیں۔ اب سی بی آئی مناسب طریقے سے جانچ کرےگی۔ ہمیں ان پر پورا بھروسہ ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمام کمیونٹی کے ممبر اس اجلاس میں شامل ہوئے، جو کہ ان کے ذاتی مقام پرمنعقد ہوا، اس کے لیے انتظامیہ سے کسی طرح کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔گزشتہ تین اکتوبر کو ہاتھرس ضلع میں واقع متاثرہ کی فیملی کے گھر سے تقریباً 500 میٹر دور ٹھاکرکمیونٹی کے سینکڑوں لوگوں نے ملزمین کی حمایت میں اکٹھا ہوکراحتجاجی مظاہرہ کیا اور ان کے لیےانصاف کا مطالبہ کیا تھا۔
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس کے واقعہ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم بنائی تھی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد لاپرواہی اورلاپرواہی کے الزام میں دو اکتوبر کوایس پی وکرانت ویر، سرکل آفیسررام شبدٹ، انسپکٹر دنیش مینا، سب انسپکٹر جگ ویر سنگھ، ہیڈ کانسٹبل مہیش پال کوسسپنڈ کر دیا گیا تھا۔معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کو دے دی گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں