ہاتھرس گینگ ریپ کو لےکراحتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے پی ایف آئی کے ذریعے فنڈنگ کیے جانے کے دعوے کیے گئے تھے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ای ڈی نے کہا ہے کہ تنظیم کی جانب سے100 کروڑ روپے کی فنڈنگ کیے جانے کی بات سچ نہیں ہے۔
نئی دہلی: ای ڈی نے بھیم آرمی اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)میں کوئی رشتہ ہونے سے انکار کر دیا ہے۔انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق، اس نے یہ بھی کہا کہ ہاتھرس گینگ ریپ کو لےکراحتجاجی مظاہرہ کروانے کے لیے 100 کروڑ کی فنڈنگ سامنے آنے کی بات بھی جھوٹ ہے۔
بتا دیں کہ گزشتہ دنوں کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ای ڈی کو پی ایف آئی سے جڑے اکاؤنٹ میں سو کروڑ روپے ڈالے جانے کی بات پتہ چلی ہے، اس میں سے پچاس کروڑ ماریشس سے آئے ہیں اور اب ایجنسی اس کے ذرائع اور مقصد کی جانچ کر رہی ہے۔
معلوم ہو کہ پی ایف آئی ایک مسلم تنظیم ہے جس کوشدت پسند مانا جاتا ہے۔ اس کے اکثر کارکن کیرل اور کرناٹک میں موجود ہیں اور یہ لگاتار اتر پردیش سرکار کے نشانے پر ہیں۔اس سے پہلے اتر پردیش سرکار نے شہریت(ترمیم) قانون مخالف مظاہرین اور پی ایف آئی کی فنڈنگ کے بیچ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔
اب ای ڈی کی یہ وضاحت اتر پردیش پولیس کے ذریعے بھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد ودیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کے بعد آئی ہے۔آزاد پر یہ ایف آئی آر تب درج کی گئی تھی، جب وہ ہاتھرس میں مبینہ گینگ ریپ کی شکار ہوئی 19سالہ دلت متاثرہ کے اہل خانہ سے ملنے ان کے گھر گئے تھے۔
انڈیا ٹو ڈے کے مطابق، اتر پردیش کےسابق ڈائریکٹر جنرل پولیس برج لال نے دعویٰ کیا تھا کہ بھیم آرمی اور دیگر تنظیم متاثرہ فیملی کو بہلانےپھسلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برج لال اتر پردیش ایس سی ایس ٹی کمیشن کے صدربھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پی ایف آئی اور اس سے متعلق کیمپس فرنٹ آف انڈیا ہاتھرس معاملے کو لےکر ہو رہے مظاہرے میں متحرک تھے اور دنگا بھڑ کانے کے لیے انہوں نے سو کروڑ روپے دیے تھے۔
برج لال نے دعویٰ کیا،‘معاملے میں ایک نیا موڑ تب آیا جب بھیم آرمی چیف چندرشیکھر اپنے حامیوں کے ساتھ خاتون کو دیکھنے اسپتال میں گئے۔ پہلے سے ہی تناؤکی شکارفیملی الگ الگ مشورہ دینے والوں کی وجہ سے الجھن میں پڑ گئی ہے اور اب وہ سی بی آئی جانچ اور نارکو/پالی گراف ٹیسٹ سے بچ رہے ہیں۔’
حالانکہ،ملزمین کے بجائے متاثرہ کےاہل خانہ کا نارکو ٹیسٹ کرانے کے اتر پردیش سرکار کے فیصلے کی کافی تنقید ہوئی۔اس بیچ،اہل خانہ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے الزام لگایا ہے کہ مبینہ طور پر پولیس انہیں ان کے گھر میں قید کرکے رکھ رہی ہے اور کسی سے بھی ملنے سے روک رہی ہے۔
وہیں، پولیس نے ہاتھرس جا رہے کیرل کے صحافی صدیق کپن سمیت تین دیگر لوگوں کو راستے میں گرفتار کر لیا تھا اور کہا تھا کہ وہ پی ایف آئی کے ممبر ہیں۔ ان چاروں پر سیڈیشن اور یواے پی اےکے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس کے واقعہ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم بنائی تھی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد لاپرواہی اورلاپرواہی کے الزام میں دو اکتوبر کوایس پی وکرانت ویر، سرکل آفیسررام شبدٹ، انسپکٹر دنیش مینا، سب انسپکٹر جگ ویر سنگھ، ہیڈ کانسٹبل مہیش پال کوسسپنڈ کر دیا گیا تھا۔معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کو دے دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ریاستی پولیس نے کم سے کم 19 شکایتیں درج کی ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش سرکار کو بدنام کرنے اور ذات پات کی بنیاد پرکشیدگی کو بڑھانے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کی گئی ہے۔
Categories: خبریں