اندازہ ہے کہ افغانستان، فلسطین،عرب-اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جوبائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو برقرار رکھے گی مگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ سے اب کچھ زیادہ چیخ و پکار سنائی دےگی۔
سال 2016میں جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کے لیےجدوجہد کر رہے تھے، ہندوستانی اپوزیشن کانگریس کی صدرسونیا گاندھی علاج کے سلسلے میں امریکہ میں تھیں۔ واپسی پر جب و ہ پارلیامنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آئیں، تو وقفہ کے دوران سینٹرل ہال میں کئی صحافی اور سیاستدان ان کی خبر و خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے ارد گرد جمع تھے۔
مختلف موضوعات کے علاوہ امریکی سیاست بھی زیر بحث تھی۔ چونکہ وہ امریکہ سے تازہ وارد ہوئی تھیں، اکثر افراد ان سے متوقع امیدوارں، اور ان کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ بزنس مین ڈونالڈ ٹرمپ کے نہ صرف ری پبلکن پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے کے قوی امکانات ہیں، بلکہ وہ امریکہ کے آئندہ صدر بھی ہوسکتے ہیں۔
محفل میں بس ایک قہقہہ بلند ہوا۔ کسی نے لقمہ دیا کہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کی صورت میں نظریات اور کام کرنے کے طریقہ کے پیش نظر اس کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اچھی جوڑی جمے گی۔ واقعی اگلے چار سال کے عرصے میں ہیوسٹن میں ہاؤڈی مودی اور پھر اس سال فروری میں احمد آباد میں نمستے ٹرمپ جیسے پبلک تقریبات کا انعقاد کرکے، دونوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ سفارتی آداب و تعلقات کو کسی بھی حد تک ذاتی تشہیر کے لیےاستعمال کرسکتے ہیں۔
ستمبر 2018میں جب دہلی میں ہندوستان او رامریکہ کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس ہو رہی تھی، تو میرے سمیت کئی صحافی امریکہ وزیردفاع جم میٹس کی توجہ مبذول کرکے سوال کرنے کی کوشش کر رہے تھے، کہ اسی دوران پیچھے سے ان کے وفد میں شامل ایک امریکی صحافی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ سوال پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، مائٹس اس عہدہ پر بس چند دن کے مہمان ہیں۔
شاید اسی شام جب امریکی وفد ابھی دہلی کے ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار ہو رہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کی مخالفت کرنے پر جم مائیٹس کے خلاف ٹویٹ داغا اور چند دن بعد ان سے استعفیٰ لے لیا۔
اپنے چار سالہ دور حکومت میں مائٹس، وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن، تین قومی سلامتی مشیروں مائیکل فلئن، ایچ آر میک ماسٹر اور جان بولٹن کے علاوہ ٹرمپ نے 503افسران کو معطل کرکے یا ان کو دیگر کم رتبہ والے عہدوں پر ٹرانسفر کرکے بتادیا کہ و ہی حرف آخر ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے اپنے پہلے چیف آف اسٹاف رینی پریبس کو تو انہوں نے چند ماہ میں ہی فارغ کر دیا۔
دفتری روایت و قواعد و ضوابط کے مطابق چیف آف اسٹاف کے ذریعے ہی امریکی صدر سے ملاقات اور اوول آفس تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی انتطامیہ کا سربراہ ہونے کے ناطے وہ صدارتی مصروفیات کا نہ صرف نگراں ہوتا ہے بلکہ ملاقاتوں کے لیےاور فائلیں صدر کو پیش کرنے کے قبل ان کو پڑھ کر بریف بھی تیار رکھتا ہے۔
ایک بار جب ہوم لینڈ سکریٹری ٹام بوسرٹ بغیر کسی اپائنٹمنٹ کے اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کر رہے تھے، تو پریبس نے کمرے میں داخل ہو کر، بوسرٹ کو خوب برا بھلا کہا اور ان کو قواعد و ضوابط یاد دلائے۔ شاید ان کو ٹرمپ کے کام کرنے کے غیر روایتی طریقہ کا اندازہ نہیں تھا، یا وہ نئے صدر کو دفتری ضوابط میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ اگلے ہی دن اس پاداش میں ان کو برخاست کر دیا گیا۔
جون 2019 کو جب امریکی فضائیہ کے طیارے ایران کے تین ٹھکانوں پر بمباری کے لیےقطر، افغانستان اور خلیج فارس کے فوجی اڈوں سے پرواز کرنے والے تھے، اور وہائٹ ہاؤس کے آپریشن روم میں اسکرین کے سامنے ٹرمپ اپنے معاونین کے ساتھ بیٹھ گئے تھے، کہ انہوں نے سی آئی اے کے سربراہ جا ن برنان سے پوچھا کہ اس حملے میں کتنے افرا د کی ہلاکت کا اندیشہ ہے؟ جب اس نے کہا کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو سو کے قریب افراد ہلاک ہوسکتے ہیں، تو آپریشن سے دس منٹ پہلے ٹرمپ نے اس آپریشن کو رد کرنے اور صرف ایرانی کمانڈو دستہ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کا ہی تعاقب کرنے اور ہلاک کرنے کاحکم دے دیا۔
کئی جہاز تو فضا میں بلند ہوچکے تھےکہ ان کو اپنے مستقر واپس آنے کے لیے کہا گیا۔ ٹرمپ کے دور حکومت کی خاص بات یہ تھی کہ پوری طاقت وہائٹ ہاؤس میں ہی مرکوز ہو گئی تھی۔ کسی بھی امریکی افسر میں یہ طاقت نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اپنے بل بوتے پر کوئی فیصلہ کرسکے۔ اس دوران تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، سی آئی اے، پنٹاگن و دیگر ادارے ایک طرح سے عضو معطل بن کر رہ گئے تھے۔
دنیاکے حکمراں بھی جان گئے تھے کہ اپنے ملکوں میں امریکی سفیروں کی نا ز برداری کرنے کے بجائے بس صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنرکوشیشے میں اتارکر ٹرمپ تک براہ راست رسائی حاصل کرکے ہی کام نکالے جاسکتے ہیں۔ کسی حد تک ٹرمپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ ان کے خلاف امریکی میڈیا سمیت کئی طاقتوں نے مجتمع ہو کرمہم چلائی اور ان کی ناکامی میں رول ادا کیا۔
ان کا واضح اشارہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے، جو ان کے دور میں مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ مگر اس قدر سخت مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے70ملین ووٹ لےکریہ ثابت کردیا کہ امریکی سوسائٹی کس قدر بٹ چکی ہے اور ان ورکنگ کلاس میں ان کی اپیل خاصی پر اثر ہے، جس کے امریکی سیاست اور سماج میں خاصے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اندازہ ہے کہ افغانستان، فلسطین،عرب-اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جوبائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو برقرار رکھے گی مگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ سے اب کچھ زیادہ چیخ و پکار سنائی دےگی۔ایران اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی اقدامات پر امریکی حکومت کی پالیسی تبدیل ہوسکتی ہے۔ابھی فی الحال بائیڈن کی ٹیم کی ترجیحات میں چین یعنی ایشیا پیسیفک، ماحولیات اور کورونا وائرس سے نمٹنا شامل ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ میں امریکی اسٹیبلشمنٹ و ڈیپ اسٹیٹ اب دوبارہ اپنے رنگ میں نظر آئےگی۔ چونکہ بائیڈن کی عمر کے پیش نظر ان کی صحت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہتی ہے، اس لیے نائب صدر کملا ہیرس اپنے پیش روؤں کے برعکس خاصی فعال نظر آئیں گی۔ ان کے والد ڈونالڈ ہیرس ویسٹ انڈیز کے ملک جمیکا سے امریکہ آئے تھے جبکہ والدہ شیاملہ گوپالن ہندوستان کے شہر چنائی سے امریکہ وارد ہوئی تھیں۔ چونکہ انہوں نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیاتھا، اس لیے امید ہے کہ کم از کم اس معاملے میں وہ ہندوستانی حکومت پر دباؤ بنائے رکھے گی۔
گزشتہ برس اگست کے اقدامات کے بعد جب ہندوستان نے کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں تو کملا ہیرس نے کہا تھا کہ’ہمیں کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ وہ اپنی اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔’انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں اور اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو گی۔’ ایک موقع پر انھوں نے بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر پر بھی براہ راست سخت تنقید کی۔
امریکی کانگریس کی ایک اور ہندوستانی نژاد رکن پرامیلا جے پال نے جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک قراداد پیش کی تھی، تو جئے شنکرجو اس وقت امریکہ میں ہی تھے، نے امریکی کانگریس کی عمارت میں خارجہ امور کی کمیٹی کے کشمیر پر ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں جے پال موجود ہوں گی۔
کملا ہیرس نے اس کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت کو کانگریس کو یہ بتانے کا حق نہیں ملتا ہے کہ اجلاس میں کون سے ارکان شریک ہو سکتے ہیں۔کملا ہیرس ہندوستان کے متنازعہ شہریت قانون پربھی تنقید کرتی رہی ہیں۔اس قانون کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیے جانے کے امکانات کے الزامات لگ رہے ہیں۔
گو کہ چین کے ساتھ نپٹنے کےلیے امریکہ کو ہندوستان کی ضرورت پڑےگی، مگر اگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ بیجنگ پر انگشت نمائی کرتا ہے توہندوستان کو بھی اسی پلڑے میں رکھنا پڑے گا۔فی الحال ہندوستانی حکومت بائیڈن کے حالیہ بیانات ے سخت خائف تو ہے مگردیکھا گیا ہے کہ ڈیموکریٹک حکومتوں کا رویہ ہندوستان کے تئیں خاصا نرم رہاہے۔ 1975میں پہلے جوہری دھماکوں کے بعد جب امریکی کانگریس میں ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی قرار داد پیش ہوئی توبس ایک ووٹ سے مستر د ہوئی۔
وہ ایک ووٹ، جس نے ہندوستا ن کو پابندیوں سے بچایا، نئے سینیٹر بائیڈن کا تھا۔ اسی طرح 2005میں صدر جارج بش اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جوہری معاہدہ پر دستخط تو کیے مگر جوہری تکنیک کے عدم پھیلاؤ کی ٹریٹی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے ہندوستان کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کی امریکی کانگریس میں ڈیمو کریٹس نے خاصی مخالفت کی۔ اس وقت پھر بائیڈن نے ہی اپنی پارٹی کے اراکین پارلیامان کو منوا کر 2008میں ہندوستان کوچھوٹ دلوانے کا قانون پاس کروالیا۔
ہندوستان اس وقت ناٹو پلس پانچ کے اتحاد میں چھٹے ملک کی حیثیت سے شرکت کا خواہاں ہے۔ اس اتحاد میں ناٹو ممبران کے علاہ اسرائیل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان شامل ہیں۔ یعنی کوارڈ کے بعد ہندوستان ا مریکہ کی قیادت میں ایک اور اتحاد کی ممبرشپ کا خواستگار ہے۔ امیدہے کہ اگر امریکہ ہندوستان کو اس اتحاد میں شامل کرواتا ہے، یا کچھ رعا یتیں دلواتا ہے، بائیڈن انتظامیہ کے لیے لازم ہے کہ اس کے بدلے مودی حکومت کو اقلیتوں کے تئیں اپنے رویہ میں تبدیلی کرنے اور کشمیر کے حوالے سے کسی مثبت پیش رفت کرنے پر مجبور کرے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر