خبریں

ہاتھرس: گرفتار صحافی کے معاملے میں ارنب گوسوامی کا حوالہ دینے پر کورٹ نے کہا-ہر معاملہ الگ

اتر پردیش پولیس نے گزشتہ پانچ اکتوبر کو ہاتھرس جانے کے راستے میں کیرل کے ایک صحافی صدیق کپن سمیت چار نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو الہ آباد ہائی کورٹ لےکر جانے کو کہا تھا، جس پر عرضی گزاروں  کے وکیل نے کہا تھا کہ ارنب گوسوامی معاملے کو اسی عدالت میں سنا گیا تھا۔

کیرل کے صحافی صدیقی کپن۔ (فوٹو بی شکریہ: ٹوئٹر/@vssanakan)

کیرل کے صحافی صدیقی کپن۔ (فوٹو بی شکریہ: ٹوئٹر/@vssanakan)

نئی دہلی: صحافی صدیق کپن معاملے کی شنوائی کے دوران جب سینئروکیل کپل سبل نے پوچھا کہ کیوں کورٹ نے ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کی عرضی پر فوراً شنوائی کی اور کپن کی گرفتاری والے معاملے کو نچلی عدالت میں بھیجنے کی خواہش مند ہے، اس پر سپریم کورٹ نے کہا، ‘ہر معاملہ الگ الگ ہوتا ہے۔’

ہندوستان  کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور وی راماسبرامنیم کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس (کے یوڈبلیوجے)کے ذریعے کپن کی گرفتاری کے خلاف ہیبیس کارپس کی عرضی پر شنوائی کر رہے تھے۔

کیرل کےصحافی کپن کو پانچ اکتوبر کو ہاتھرس جاتے وقت راستے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہاتھرس میں مبینہ طور پر گینگ ریپ متاثرہ  دلت لڑکی کے گھر جا رہے تھے۔ لڑکی کی صفدرجنگ اسپتال میں علاج کے دوران موت ہو گئی تھی۔

جب جسٹس بوبڈے نے عرضی گزار کو الہ آباد ہائی کورٹ جانے کو کہا تھا، اس پر سبل نے کہا، ‘ہائی کورٹ نے اسی معاملے میں دیگر ملزمین  کی ہیبیس کارپس کی عرضی پر ایک مہینے کاوقت دیا ہے اور میں یہاں بحث کرنا چاہتا ہوں۔’

انہوں نے کہا، ‘ارنب گوسوامی معاملے میں ضمانت عرضی نچلی عدالت میں زیر التواتھی، باوجود اس کے کورٹ نے اس معاملے کو سنا تھا۔’بار اینڈ بنچ کے مطابق، اس پر سی جےآئی نے سبل سے کہا، ‘ہر ایک معاملہ الگ ہوتا ہے۔’

خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق چیف جسٹس نے اس کے بعد کہا، ‘آپ مجھے پچھلا ایسا کوئی معاملہ دکھائیں، جہاں ایک ایسوسی ایشن نے عرضی دائر کر کےراحت مانگی ہو۔’اس پر سبل نے کپن کی بیوی اور دیگر کو عرضی میں شامل کرنے کی پیشکش کی۔

بنچ نے کہا، ‘ہم قانون کے مطابق معاملے کی شنوائی کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے کو ہائی کورٹ میں سنا جانا چاہیے تھا۔’اس معاملے کی شنوائی کے دوران سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ بھی موجود تھے، جو کہ اتر پردیش سرکار کی جانب  سے پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے حلف نامہ دائر کرنے کا حوالہ دےکر معاملے کوملتوی کرنے کی مانگ کی۔

اس پر سبل نے مانگ کی،‘برائے مہربانی دو ہفتے کے بعد کے لیے اسے لسٹ نہ کریں۔ یہ آزادی کا معاملہ ہے۔’ حالانکہ کورٹ نے کپل سبل کی مانگ کو خارج کر دیا اور معاملے کی شنوائی اگلے ہفتے کرنے کے لیے کہا۔

خاص بات یہ ہے کہ خودکشی کے لیے اکسانے کے معاملے میں مہاراشٹر پولیس کے ذریعےگرفتار کئے گئے ارنب گوسوامی کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ  نے یہ بات کہی تھی،‘ہم ذاتی آزادی کو ختم کرنے کے راستے پر چل رہے ہیں۔’

اس کے بعد گزشتہ 16 نومبر کو کپن معاملے کی شنوائی کے دوران سی جے آئی بوبڈے نے ایک متنازعہ تبصرہ  کرتے ہوئے کہا، ‘ہم آرٹیکل 32 کے تحت دائر کی گئیں عرضیوں کی حوصلہ شکنی کی کوشش کر رہے ہیں۔’حالانکہ اس بیان کی ہر طرف سےتنقید ہونے کے بعد اگلی شنوائی(20 نومبر)کو انہوں نے کہا کہ میڈیا نے اس پر غلط رپورٹنگ کی ہے۔

عدالت میں داخل ایک دیگر حلف نامے میں عرضی گزاروں  کی جانب  سے کہا گیا ہے کہ متھرا جیل میں بند صدیق کپن کو لاٹھیوں سے پیٹا گیا ہے۔

اس میں کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ شوگرمریض  ہونے کے باوجود کپن کو پانچ اور چھ اکتوبر کو دوا لینے اور سونے سے روکا گیا۔ کپن کو جیل حکام کے ذریعے پیٹا اور گھسیٹا گیا، ساتھ ہی ذہنی طور  پرہراساں بھی کیا گیا۔

معلوم ہو کہ اتر پردیش سرکار نےسپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کر کےکہا ہے کہ ہاتھرس کے راستے گرفتار کئے گئے صدیق  کپن ایک صحافی نہیں ہیں، بلکہ شدت پسند تنظیم  پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)کے ممبر ہیں۔

یوپی سرکار نے بتایا کہ کپن صحافت کی آڑ میں دو کمیونٹی کے درمیان کشیدگی  پیدا کرنے اور نظم و نسق کو بگاڑنے کے منصوبہ کے تحت ہاتھرس جا رہے تھے۔

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راماسبرامنیم کی بنچ کے سامنےداخل حلف نامے میں یوپی سرکار نے الزام  لگایا کہ کپن پی ایف آئی کے دفتری سکریٹری  ہیں اور وہ کیرل واقع اس اخبار (تیجس) کا آئی کارڈ دکھاکر صحافی ہونے کی آڑ لے رہے تھے، جو 2018 میں بند ہو چکا ہے۔

کپن کی گرفتاری پر سوال اٹھانے اور ان کی ضمانت کے لیے کیرل یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے ریاستی سرکار نے کہا کہ یہ قابل غور نہیں ہے۔ اس معاملے میں عرضی گزار کی کوئی پوزیشن نہیں ہے کیونکہ ملزم اپنے وکیلوں اور رشتہ داروں کے رابطہ میں  ہے اور وہ خود اپنے وکیلوں کے ذریعےعرضی دائر کر سکتے ہیں۔

حالانکہ اس کے جواب میں حلف نامہ دائر کرکے کےیوڈبلیوجے نے سپریم کورٹ  سے گزارش کی ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت  میں معاملے کی آزادانہ جانچ ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش سرکار کے ذریعے ‘پی ایف آئی’ سے تعلق  بتانا بالکل غلط ہے۔

کے یوڈبلیوجے نے کہا کہ ریاستی  سرکار نے اپنے حلف نامے سے کورٹ کو گمراہ کیا ہے اورحقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا گیا ہے۔