سینئرایڈوکیٹ محمود پراچہ دہلی فسادات کے ملزمین کی عدالت میں پیروی کر رہے ہیں۔پراچہ کے اسسٹنٹ وکیلوں کا الزام ہے کہ پولیس کی یہ چھاپےماری تمام ریکارڈ اور دستاویز کو ضائع کرنے کی کوشش تھی۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ٹیم نے دہلی فسادات کے ملزمین کی پیروی کر رہے سینئر ایڈوکیٹ محمود پراچہ کے آفس پر چھاپےماری کی۔پراچہ کے اسسٹنٹ وکیلوں کے مطابق، سرچ ٹیم نے پراچہ کے کمپیوٹر اور مختلف دستاویزوں کو ضبط کرنے پر زور دیا، جن میں کیس کی تفصیلی جانکاری ہے اور اس طرح سے پولیس کی یہ کارروائی غیرقانونی ہے۔
پراچہ کے ایک اسسٹنٹ وکیل نے دی وائر کو بتایا کہ جمعرات کو پولیس کی ٹیم کے لگ بھگ 50اہلکار دوپہر لگ بھگ 12:40 بجے نظام الدین ویسٹ واقع ان کے آفس پہنچے۔ٹیم کی قیادت دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انسپکٹر سنجیو کر رہے تھے۔
انہوں نے پہلے پراچہ سے کہا کہ وہ ان سےتین دستاویز چاہتے ہیں، لیکن بعد میں کہا کہ وہ ان کے ساتھ کمپیوٹر کو بھی لے جانا چاہتے ہیں۔اسسٹنٹ وکیلوں کے مطابق،پراچہ نے چھاپے ماری کرنے والی ٹیم کو یہ بھی بتایا کہ ان کے (پولیس) پاس جس طرح کے آرڈر ہیں، اس میں ان کے کمپیوٹر کو ضبط کرنے کی منظوری نہیں ہے۔ انہوں نے پولیس کو وہ تمام دستاویز مہیا کرانے کی پیشکش بھی کی، جو انہوں نے مانگے تھے۔
پراچہ کے ایک دوسرے اسسٹنٹ وکیل نے بتایا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ (پراچہ)جانکاری شیئر کریں، یہ بھی ایڈووکیٹس ایکٹ اور انڈین ایویڈنس ایکٹ1872 کے تحت وکیل اور موکل کے تعلقات کو ملے خصوصی حق کے خلاف ہے۔
"This is in violation of the order": Advocate @MehmoodPracha tells police regarding seizure of his office computer and laptop https://t.co/5RnLeU4pIg pic.twitter.com/L0Z1YdNvLi
— Aditya Menon (@AdityaMenon22) December 24, 2020
پولیس ٹیم اپنے ساتھ دو لیپ ٹاپ اور ایک پرنٹر لےکر آئی تھی، انہوں نے مبینہ طور پر پراچہ کے کمپیوٹر کو ہیک کیا۔ یہ چھاپےماری شام 6:45 بجے تک چلتی رہی۔پراچہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو لےکر مقامی پولیس میں شکایت درج کرائیں گے۔
پراچہ کے اسسٹنٹ کنور ناوید نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے چھاپےماری کے دوران مقامی پولیس کو بلایا تھا۔انہوں نے کہا کہ چھاپےماری ٹیم نے اپنی کوئی پہچان اجاگر نہیں کی۔ یہ خدشہ تھا کہ یہ چھاپےماری تمام ریکارڈ اور دستاویزکو ضائع کرنے کی کوشش تھی۔
انڈین ایویڈنس ایکٹ 1872 کیا کہتی ہے
انڈین ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ126موکل کے ساتھ وکیلوں کی کسی بھی طرح کی بات چیت کا انکشاف کرنے سے روکتی ہے۔دفعہ128 قانونی صلاح کار کو دفعہ126 کے تحت کسی بھی طرح کی جانکاری اجاگر کرنے سے روکتی ہے، جب تک کہ موکل گواہ کے طور پر قانونی صلاح کار کو نہ بلائے اور اس پر سوال کرے۔
ایکٹ کی دفعہ129 بتاتی ہے کہ جب تک کوئی شخص خود کو گواہ کے طور پر پیش نہیں کرتا، تب تک کوئی بھی اس کے اور اس کے قانونی صلاح کار کے بیچ ہونے والی خفیہ بات چیت کو عدالت میں بتانے کے لیے مجبور نہیں ہے۔
ہندوستان میں قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص ایڈووکیٹس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ وکیل سے صلاح مانگتا ہے، اسے وکیل اورموکل کےخصوصی حق کا فائدہ ہوگا اور اس کی بات چیت ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 126 کے تحت محفوظ ہوگی۔
ٹھیک اسی طرح پراچہ بھی پولیس کو اپنے موکل کی خفیہ جانکاری مہیا نہیں کرا سکتے۔
پراچہ کے اسسٹنٹ وکیل نے کہا، ‘پراچہ نے پولیس کی ٹیم کو ضابطوں اور مختلف فیصلوں اور اس ایکٹ سے جڑے کاغذات دکھائے، جو انہیں کچھ دستاویز پولیس کے ساتھ شیئر کرنے سے روکتے ہیں، لیکن پولیس نے پراچہ کو بتایا کہ وہ ان کا کمپیوٹر ضبط کریں گے۔’
پراچہ بنام دہلی پولیس
اس سال اگست کی شروعات میں دہلی کی ایک عدالت نے دہلی پولیس سے ان الزامات کی جانچ کرنے کو کہا تھا، جن میں پراچہ نے دہلی دنگے معاملے میں کچھ متاثرین اور گواہوں کو جھوٹے بیان دینے کے لیے کہا تھا۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق، دنگے کے ایک متاثر علی نے پولیس کو بتایا کہ اسے شریف نام کے ایک عینی شاہد کو پہچاننے کو کہا گیا تھا، جو ایک دوسرے معاملے میں گواہ تھا اور جسے وہ جانتے تک نہیں تھے۔
دہلی پولیس کے مطابق، علی کا یہ بھی الزام ہے کہ پراچہ نے انہیں کہا تھا کہ اس معاملے میں شریف کا بیان علی کے معاملے کو مضبوط کرےگا لیکن اس کے لیے علی کو یہ بتانا ہوگا کہ شریف نے اس کی دکان جلتی دیکھی تھی۔
حالانکہ، دنگوں کی جانچ میں دہلی پولیس کے اس طرح کے دعوے کی صداقت باربار سوالوں کے گھیرے میں آتی ہے۔
پراچہ نے یہ کہتے ہوئے ان الزامات سے انکار کیا تھا، ‘میرے خلاف الزام یہ ہے کہ ایک موکل میرے پاس آئے اور کچھ دنوں بعد وہ چلے گئے، کیونکہ وہ مایوس تھے کہ میں جج یا پولیس کے ساتھ ان کی کوئی سیٹنگ نہیں کرا پایا۔ میں صرف قانونی طور پر کیس لڑتا ہوں۔ کچھ دوسرے ججوں نے اس سے کہا کہ مجھ سے کیس واپس لے لیں اور چونکہ ہم یہ کام بنا کسی پیسے کے کرتے ہیں تو میں انہیں رکنے کے لیے نہیں کہہ سکا۔ مقصد انصاف ہے۔’
دوسرے الزام کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ‘ضمانت عرضی میں علی نے حلف نامے کے ذریعے کچھ دعوے کیے، جو ان کی موجودہ کہانی سے میل نہیں کھاتے۔ حلف نامہ کسی دوسرے وکیل کے ذریعے دائر کیا گیا۔ اس کی دونوں کہانیوں میں تضادہے۔’
انہوں نے کہا تھا، ‘اب دوسرا الزام یہ ہے کہ حلف نامے پر ایک وکیل کے دستخط تھے، جس کی موت ہو چکی ہے۔ اب مجھے بتائیں، اگر آپ عدالت جاتے ہیں اور حلف نامے کے لیے 20 روپے دیتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ کون حلف نامے پر اسٹیمپ لگا رہا ہے اور کس نے اس کی تصدیق کی ہے؟ حلف نامے اس کے ذریعے تیار کیا گیا۔ میں اس کارروائی میں شامل نہیں تھا۔’
وہ کہتے ہیں،‘میرے کئی موکلوں نے یہ الزام لگاتے ہوئے پہلے ڈی ایس پی نارتھ ویسٹ(دہلی)وید پرکاش سوریہ اور دیگرپولیس حکام کے خلاف شکایت درج کرائی کہ وہ دنگے میں شامل تھے۔ اب وہ سب پہلے سے ہی ملزم ہیں۔اس لیےپولیس سے لےکر امت شاہ سب کا میرے خلاف ایک ہی فریسٹریشن ہے۔ان کا نیریٹو کہ مسلمانوں نے ان دنگوں کی سازش کی تھی، کو میں چیلنج دے رہا ہوں، وہ بھی عدالت کے ذریعے قانونی طور پر۔ آر ایس ایس کے کچھ ممبروں کو بھی میرے معاملوں میں سزا سنائی گئی تھی۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں