خصوصی تحریر: مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔
ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کو،اُن کے ناول’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کی تازہ اشاعت دِکھا رہا تھا۔اُنہوں نے اُدھرسرحد پار اپنے سیل فون کا کیمرہ اور ڈسپلے آن کر رکھا تھا، اِدھر میں اپنی لائبریری سے اپنے سیل فون پر ناول کا سرورق، ابتدائی صفحات، پس سرورق ایک ایک کرکے سب دکھاتا گیا اور وہ خوش ہوتے رہے اور پرلطف جملے پھینکتے رہے۔ یہ سارا خوب صورت منظرایک ویڈیو میں موجود ہے۔
یہ اُن کی آواز کی آخری ریکارڈنگ نہیں ہے جومیرے پاس محفوظ ہو۔ اسی مختصر سے عرصے میں وہ کووڈ کا شکار ہوکر ہسپتال جا پہنچے ۔ ہمارا رابطہ وہاں بھی رہا۔ وہ وہاں سے اپنی آواز میں پیغام ریکارڈ کرکے مجھے بھیجتے رہے اور ہر بار کہتے رہے کہ وہ قدرے ٹھیک تھے اورمحبت کرنے والوں کی دعاؤں کا اثر ہو رہاتھا۔
وہ کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو بھی گئے تھے مگر اندر اتنی توڑ پھوڑ ہو چکی تھی کہ سنبھل نہ پارہے تھے ۔ ہسپتال سےگھر منتقل ہوئے مگرصحت کی بحالی کا عمل جیسے رک سا گیا تھا۔ اسی فون نمبر سے، کہ جس پر فاروقی صاحب سے بات ہوتی تھی، یا وہ کوئی میسیج بھیج دیا کرتے تھے ، اس سے مجھے آخری وائس میسج آیا۔
یہ پیغام فاروقی صاحب کی اپنی آواز میں نہ تھا، ان کی بیٹی مہر افشاں نے ایک پیغام ریکارڈ کرکے مجھے بھیج دیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ فاروقی صاحب کی ہدایت پر وہ یہ اطلاع دے رہی تھیں کہ وہ آہستہ روی سے صحت کی طرف بڑھ رہے تھے۔
اس بیچ میں خود ہسپتال جا پہنچا ۔ ہوا یوں کہ اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ یہ تو بعد میں بچوں نے بتایا تھا کہ بے ہوش ہو کر گرنے اور ہوش میں آنے کے درمیان میری آنکھیں ایک جگہ ساکت ہو گئی تھیں، ہونٹ کھلے تھے اور زبان دہری ہو کر تالو کو چھو رہی تھی۔ جب مجھے ہوش آیا تو مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ اس دوران مجھ پر کیا گزری تھی۔ بس ایک نقاہت تھی کہ بدن میں ہر کہیں دندنا رہی تھی۔
تاہم یاسمین اور بچے کچھ زیادہ خوف زدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے مجھے ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔ وہاں سے ڈسچارج ہوا تو میرے آرام کی خاطر سیل فون وغیرہ دور رکھ چھوڑے گئے تھے۔ شاید یہی وہ لمحات تھے کہ فاروقی صاحب کی رحلت کی خبر آئی تھی۔ میرے سیل پر مسلسل فون آرہے تھے۔ کشور ناہید کا فون آیا تووہ سیل میرے پاس لے آئے۔ فون کی گھنٹی سننے سے پہلے ہی بجتے بجتے بند ہو گئی تھی۔
یاسمین نے سیل میرے ہاتھ میں تھما دیا اور بس اتنا کہا: ’’شمس الرحمن فاروقی صاحب‘‘ اور سر ایک طرف گرا لیا۔ میں نے ’’اناللہ واناالیہ راجعون‘‘پڑھا۔ میں یوں سامنے دیکھ رہا تھاجیسے وہاں چھت نہ تھی ، موت تھی، جس کا چہرہ میں نے دیکھا تھا اور جس کا چہرہ میں دیکھ رہا تھا۔
اردو ادب کی آبرو شمس الرحمن فاروقی ہم میں نہیں رہے ہیں مگر اُن کی عہد ساز شخصیت ایسی ہے کہ اردو ادب کا مستقل باب ہو گئی ہے۔ وہ15 جنوری 1936 کو پرتاب گڑھ ،یوپی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم و فضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے ورثے میں پائی۔ تیرہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر، اور بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور باپ کی طرح پڑھنے لکھنے کی طرف راغب۔
فاروقی صاحب کے دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ فراق گورکھپوری کے استاد تھے۔ فاروقی صاحب کے نانا محمد نظیر کی دلچسپی کا علاقہ بھی تعلیم رہا ۔ ان کا ایک زمانے میں قائم کیا ہوا سکول اب کالج بن گیا ہے۔ فاروقی صاحب نے اپنی یادداشتوں میں بتا رکھا ہے کہ وہ اسکول کے زمانے سے شاعری کی طرف راغب ہو چکے تھے۔
تب انہوں نے ایک قلمی رسالہ ’’گلستان‘‘بھی نکالا تھا۔ میٹرک کر لیا تو پہلا افسانہ لکھا۔ کوئی ستر سال پہلے انہوں نے اپنا پہلا مختصرناول’’دلدل سے باہر‘‘ لکھا جو ’’معیار‘‘ میرٹھ میں چار قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ یہ فاروقی صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز تھا۔ انہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی ۔
جس کی بابت وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ ان کی تصویر اخبارات میں شائع ہوئی اور لوگ بہت متاثر ہوئے تھے۔ عملی زندگی کا آغاز انہوں نے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو کر کیا تھا ۔ مقابلے کا متحان پاس کرکے وہ پوسٹل سروس میں آگئے اور یہاں اہم عہدوں پر رہے۔ ان کی شادی جمیلہ خاتون سے ہوئی جن کا فاروقی صاحب نے ہمیشہ ذکر بہت محبت سے کیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 2007میں جب جمیلہ خاتون کی رحلت پر میں نے فاروقی صاحب سے پرسے کا فون کیا تھا تو ان کا ذکر کرتے کرتے ان کی آواز بار بار بھرا جاتی تھی۔ وہ خود کو بہت تنہا محسوس کر رہے تھے اور بار بار کہتے تھے کہ میں اس بی بی کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ کئی برس پہلے جب آخری بار فاروقی صاحب کے ساتھ جمیلہ خاتون پاکستان آئی تھیں تو یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ وہ فاروقی صاحب کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھ رہی تھیں اور فاروقی صاحب کو جو کچھ چاہیے ہوتا تھا جمیلہ خاتون کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ فاروقی صاحب نے جمیلہ خاتون کے حوالے سے بجا طور پرلکھا تھا:
اک مدت تک نصف صدی سے بھی زیادہ
جس نے مجھے جی جان سے رکھا دل شاد
جب یہاں ان کا ناول چھپنے جا رہا تھا تو وہ بار بار کہتے تھے کہ اپنی خاتون خانہ کے لیے لکھی گئی اس نظم کو ضرور اس میں شامل اشاعت رکھیں۔ فاروقی صاحب نے اس نظم میں لکھا تھا:
تو دوست تھی عاشق تھی مرے دل کا ملاذ
مانوسی خوشبو تری سانسوں کے محاذ
دن میں کبھی ہنس دیتا ہوں بھولے سے مگر
بے روئے میں سو جاؤں وہ راتیں ہوئیں شاذ
شمس الرحمن فاروقی صاحب ہمیشہ کہا کرتے کہ یہ جمیلہ خاتون تھیں جن کی مدد سے وہ ’’شب خون‘‘جیسا رسالہ چار دہائیوں تک مسلسل نکالتے رہے تھے۔ ’’شب خون‘‘ کا پہلا شمارہ جون 1966 کی تاریخ کے ساتھ 18 مئی 1966 کو منظر عام پر آیا تھا جس پر مرتب اور منتظم کی حیثیت سے جمیلہ فاروقی کا ہی نام تھا ۔
’’شب خون‘‘ نے کئی نسلوں کی ادبی تربیت کی اور اس کے دو آخری ضخیم شمارے جون2005 میں شائع ہوئے۔ اس کے بعد ’’خبر نامہ شب خون‘‘ کے نام سے کچھ صفحات شائع ہوتے رہے اور پھر یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا تاہم ان انتالیس چالیس برسوں میں اس رسالے نے ایسے ایسے مباحث اٹھائے کہ فاروقی صاحب کا نام سب سے زیادہ ادبی دنیا میں مسلسل گونجنے لگاتھا۔2005 میں شائع ہونے والے ان آخری دو شماروں میں سے ایک شمارہ اس انتخاب پر مشتمل ہے جو لگ بھگ چوبیس ہزار صفحات پر مشتمل ’’شب خون‘‘ میں چھپنے والی تحریروں سے کیا گیا ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔ میرے کئی افسانے انہوں نے شب خون کا حصہ بنائے؛’’گانٹھ‘‘(شمارہ277)،ماخوذ تاثر کی کہانی‘‘(شمارہ 242)، ’’موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ‘‘(شمارہ 280)، ’’بدن برزخ‘‘ سلسلے کے تینوں افسانے(شمارہ293-298) حتیٰ کہ اس آخری انتخاب میں بھی میرا افسانہ شامل کیا۔
میں اسے اپنی ٹوپی پر سجی کسی قلغی سے کم نہیں سمجھتا کہ شمس الرحمن فاروقی جب چالیس برس تک شب خون میں چھپنے والی منتخب تحریروں کو ایک بار پھر چھانٹ پٹخ کرکڑا انتخاب کررہے تھے؛ جی منتخب تحریروں سے انتخاب تو انہوں نے راجندر سنگھ بیدی، انتظار حسین، خالدہ حسین، منشایاد، رشید امجد، سریندر پرکاش، صدیق عالم، انور سجاد، اسد محمد خان کے ساتھ اس خاکسار کے افسانے’’سورگ میں سور‘‘ کو دیکھا اور انتخاب کا حصہ بنا لیا تھا۔
جس زمانے میں فاروقی صاحب نے تنقید میں اپنا نام بنایا وہ زمانہ ترقی پسندوں کی قدرے پسپائی کا زمانہ تھا ۔ فاروقی صاحب کو ترقی پسندوں نے ایک حریف کے طور پر لیا اور ان کی شہرت جدیدیت کے ایک علم بردار کے طور پر ہوئی۔ ان کی تنقیدی خیالات کو بہت توجہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ ان کا سب سے زیادہ توجہ بٹور لینے والا کام چار جلدوں پر مشتمل کتاب’’شعرشور انگیز‘‘تھی۔
میر تقی میر کی تفہیمات کاایسا قرینہ کہ دوست دشمن سب اس کے معترف ہوئے اور انہیں سرسوتی ایوارڈ ملا۔ میں اسے بھی اپنا اعزاز سمجھتا ہوں کہ جب یہاں ڈاکٹرصفدر رشید نے ان کی تنقیدی تحریروں کا ایک انتخاب چھاپنا چاہا اور ان سے اس کی اجازت طلب کی گئی تو انہوں نے مجھے حکم دیا تھا کہ یہ انتخاب میں کروں اور اس کا مقدمہ بھی لکھوں۔
خیر ،یہیں بتاتا چلوں کہ ہمارے بیچ سب کچھ اچھا بھی نہیں تھا۔ اور پاکستان میں، یا پھر دہلی میں جو ملاقاتیں رہیں ان میں ہم ان مسائل پر بھی بات کر لیتے تھے جن پر ہمارا نقطہ نظر مختلف ہو جاتا تھا۔ تاہم میں ہمیشہ ان کے معاملے میں محتاط اور مؤدب رہا ہوں کہ ان کے مقام اور مرتبے سے آگاہ تھا۔ ’’گنج سوختہ‘‘،’’سبز اندر سبز‘‘،’’چار سمت کا دریا‘‘،’’آسماں محراب‘‘،’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘،’’افسانے کی حمایت میں‘‘،’’لفظ و معنی‘‘،’’عروض آہنگ اور بیان‘‘،’’اردو غزل کے اہم موڑ‘‘،’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘،’’قبض زمان‘‘،’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ اور اور…ان کی فتوحات یاد کیے چلیں اور فاروقی صاحب کی عظمت کی دھاک دل پر بیٹھتی چلی جاتی ہے۔
اس سب کے باوجود فاروقی صاحب کی تحریریں اور خیالات ایسے نہیں ہیں کہ آپ کو ٹھس بیٹھے رہنے دیں۔ آپ انہیں پڑھ کر سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں اور بساط بھراختلاف بھی کرتے ہیں ۔ اُن کی کتاب ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں موجود خیالات سے ایسا ہی طالب علمانہ اختلاف میں نے اپنی نیشل بک فاونڈیشن سے 2006 میں چھپنے والی کتاب’’اردو افسانہ : صورت و معنی‘‘ میں کیا تھا ۔ یہ کتاب اُنہیں ملی تو انہوں نے25 اگست 2006 کو مجھے لکھ بھیجا تھا:
’’… خوب بہت خوب۔ کم ہی لوگوں نے ’’افسانے کی حمایت میں‘‘پراتنی عمدہ گفتگو کی ہے۔جزاک اللہ‘‘
انہوں نے مجھ سے درجن بھر کتابیں مطالبہ کر کے منگوائیں ۔ ظاہر ہے یہ کتب وہاں کچھ لوگوں کو پڑھنے کے لیے دی گئی ہوں گی۔ اچھا،یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں،منٹو پر ان کی کتاب’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘پر بھی مجھے کچھ ایسے اختلافی خیالات کا اظہار کرنا پڑاتھا میں نے خود کو وہاں بھی مؤدب پایا جہاں میں سرے سے اُن کے خیالات نہ مان رہا تھا۔ شاید یہی سبب رہا ہوگا کہ اجمل کمال نے اپنے ایک مضمون میں میرے اختلافی نقاط کو تو اہم کہا مگر میرے لہجے پر ’’فدویانہ‘‘ کی پھبتی کس دی تھی۔
مجھے یاد ہے جب’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ پر میری لکھی ہوئی تحریر انہیں ملی تو انہوں نے اجمل کمال کے اسی جملے کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا،کہ’’ کیا فدوی ایسا ہوتا ہے؟‘…میں ایک لمحے کے لیے ان کی بات سمجھ نہ پایا تھا۔ انہوں نے قہقہہ لگایا اوردہلی میں ہونے والی اس ملاقات کا ذکر کیا جس کا ذکر اس دیباچے میں تھا۔
میں نے اس تحریر کے آغاز میں ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کی اشاعت پر ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا ہےجس کی ویڈیو امر شاہد نے بک کارنر کے صفحات پر فراہم کر دی ہے۔ آپ اس میں فاروقی صاحب کی آواز کو سن سکتے ہیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے اسے پھر سے سنا ہے۔ اور جب میں اس ناول کے خوب صورت صفحات دکھاتے ہوئے اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں وہ بہت لطف لے کر فرمارہے ہیں:
’’ وہاں ایک صاحب ہوتے ہیں محمد حمید شاہد، کیا اُن کا دیباچہ بھی اس میں شامل ہے؟‘‘
تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں ۔
انہوں نے یہ تحریرکتاب کی اشاعت سے پہلے نہ صرف پڑھی تھی ، اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار اس قدر فروانی سے کیاتھا کہ مجھے حجاب آنے لگا تھا۔ اس موقع پر ان کا اس محبت سے اس تحریر کا ذکر ایسا ہے کہ اس کی یاد بھی میری زندگی کا سنہری سرمایہ ہوگئی ہے ۔
(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)