سال2021 میں جاتے ہوئے کیا ان سب سے نجات پانا ممکن ہوگا، جن میں ہم نے سال 2020 بتایا ہے؟
نئے سال کی پہلی صبح اب دن میں بدلنا چاہتی ہے۔دھند باہر ہوا میں تیر رہی ہے۔ اب کھڑکی سے پیڑوں کی شکلیں کچھ کچھ واضح ہونے لگی ہیں۔آوازیں آ رہی ہیں، وہی جانی پہچانی، پرانی لیکن کتنی ضروری؛گاجر ہے، گھیا ہے، گوبھی ہے، مٹر ہے…۔ رینو ہوتے تو ان کی آوازیں بھی آپ سن سکتےلفظوں کو پڑھتے ہوئے۔
وہ جو آواز لگا رہا ہے یااطلاع دے رہا ہے کیا اس کی بھی کوئی شکل ابھرتی ہے ان آوازوں سے؟ سال کی آخری رات بھی وہ آزاد پور منڈی میں صبح یا رات کے 3 بجے ہی گیا ہوگا!منڈی!نوین اور پروین کی یاد آ جاتی ہے۔ ہمارے منڈی ویر! منڈی سے تھوک بھاؤ میں کمہڑا خرید لانے پر ان کے چہرے کی چمک۔ رسوئی میں کمہڑے ہی کمہڑے! ہم خردہ بیچ بھی سکتے ہیں: آپس میں چلنے والا مذاق!
کتنے پیکٹ بن جا ئیں گے؟ سنجے کا سوال۔ آج روپ نگر میں 16 پیکٹ زیادہ چاہیے، نندتا کی رسوئی کو اطلاع یا مانگ۔ آج سن لائٹ کالونی کون جائےگا؟ اور کھجوری میں کیا دونوں وقت چاہیےیا ایک وقت؟سنسان سڑکیں:پہلی بار جیسے شہر کی شکل دکھ رہی تھی۔ چھوٹے، بڑے تھیلے پیٹھ پر ٹانگے، ماتھے پر رکھے دھیر قدم بڑھاتے بچے،، جوان، بوڑھے۔ مرد اور عورت۔
اتنے سال ہو گئے دہلی میں رہتے۔ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ اتنے مزدور یہاں رہتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہ تھا۔ سوائے ان مزدوروں کے جو یہاں تھے اور نہیں تھے۔پہلی بار دیر رات نوین کا گھبراہٹ سے بھرا فون آیا۔ پھر ایک ویڈیو۔ جھنڈ کے جھنڈ دہلی کی سرحد پر۔ نوین نے کہا، ‘یہ نکل پڑے ہیں۔ کیسے، کہاں جا ئیں گے؟ کسی سے بات کیجیے۔ کیا اسٹیڈیم نہیں کھولے جا سکتے؟’
گوتم بھان کو فون لگاتا ہوں۔ وہ سرکار کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ منیش سسودیاسرحد کے پاس ہی ہیں۔ نکل پڑے لوگوں کو رک جانے کے لیے مناتے ہوئے۔ کوئی نہیں سنتا۔ کیونکہ کسی کو خود سنے جانے کی آس نہیں ہے۔
کوئی بس نہیں ہے، ٹرین نہیں ہے۔ پیر، پیر اور پیر۔ پیر اور سڑک۔نوین اور عثمان بےچین تھے۔ کچھ تو کرنا چاہیے۔ اور مزدور ڈھابہ کا خاکہ بنتا ہے۔ رسوئی جمع لی جاتی ہے۔ چولہا، گیس سیلنڈر، سب کا انتظام ہو جاتا ہے۔
مزدور ڈھابہ والی سڑک پر بندر ہیں اور ہم ہیں۔ اکا دکا گاڑی۔ موٹر سائیکل۔ نقاب پوش لوگ کیلے ایک ایک کر پھینکتے ہوئے۔بندرسے ہمدردی رکھنے والا سماج کوئی چھوٹا موٹا نہیں ہے۔ رج کے کنارے کیلے کے دو تین ٹھیلے۔ ایک پتلی سی سنٹی کے ساتھ ٹھیلے والا اطمینان سے ان بندر سے پیار کرنے والوں کے انتظار میں۔ رج کی چہاردیواری پر انتظار میں بندر۔
ٹھیلے کو ان سے کوئی خدشہ نہیں۔ ڈر نہیں کہ کیلے کو وہ لپک لیں گے۔ سمجھوتہ ہے دونوں کے بیچ۔ ٹھیلہ انہی کے لیے ہے اور ان کے لیے ہمدردی کی کمی نہیں ہے۔ ہمدردی کی قیمت چکانے والوں کی بھی۔کون سی ہمدردی آسان ہے اور کون مشکل؟ آپ کس کو اپنی ہمدردی دے پاتے ہیں اور کس کو نہیں؟ دینا کیا دکھنا چاہیے؟ فوٹو کوئی نہیں کھینچےگا، سب ایک دوسرے کو ہدایت دیتے ہیں۔
لوکیش کہتی ہیں کہ سرکار نے ایک ایک نام مانگا ہے، کسے آپ کتنا راشن دے رہے ہیں، اس کا حساب۔ راشن کا تھیلا دیتے وقت فارم پر لینے والے کا دستخط چاہیے۔ آدھار کارڈ، فون نمبر کے ساتھ!اوہ! کیا یہ کہاوت اس ملک کی نہیں ہے کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کسے کیا دیا۔ پھر اس فہرست کی کیا درکار؟ کسے کیا، کتنی بار دیا گیا، اس کا حساب رکھنا کیا اس کی توہین نہیں؟
‘واہ !تو تم لوگ ریلیف بانٹ رہے تھے؟’پولیس افسر نے الف سے پوچھا۔ الف سے پوچھ تاچھ چل رہی ہے۔ ان کے فون ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ فروری مارچ میں کئی دن لگاتار شمال مشرقی دہلی میں گھوم رہے تھے۔
اس سوال کا اندازہ پہلے سے تھا۔ سو، الف کے پاس وہ فہرست تھی۔ ان سب کی جنہیں ان دو مہینوں میں ایک اور ایک سے زیادہ بار انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے راشن پہنچایا تھا۔نام، نام اور نام۔ افسر نگاہ دوڑاتا ہے، ورق پلٹتا ہے۔ ‘صرف انہیں لوگوں کو کیوں راشن دے رہے تھے؟’ کیا اوروں کا نقصان نہیں ہوا تھا؟
الف کہنا چاہتا ہے کہ ‘انہی’ کا زیادہ نقصان ہوا تھا۔‘انہی’ کے زیادہ گھر تباہ ہوئے تھے۔ ‘انہی’ کے لوگ زیادہ مارے گئے تھے۔ یہ کہنے کی جگہ وہ کہتا ہے، نہیں آپ یہ نام بھی دیکھیے۔ نام صرف ‘انہی’ کے نہیں۔ ‘ان کے’بھی ہیں۔ ہم نے انہیں بھی راشن دیا ہے۔
افسر شک اور طنز سے مسکراتا ہے، ‘ان کے’ نام اتنے کم؟ تم بھی ‘ان میں’ سے ہوکر ان کا ہی ساتھ دیتے ہو؟ کیا تم اصل میں تم ہی ہو؟ یا تم نے بھیس اور نام بدل رکھا ہے؟
الف کے پاس اس کا جواب نہیں کہ وہ باقی اچھے بچوں کی طرح صرف اپنی پڑھائی اور کریئر پر دھیان دینے کی جگہ بھٹک کیوں رہا تھا؟ اس کے نام سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سہی بھارتیہ ہے۔ پھر غلط لوگوں کے لیے وہ ہلکان کیوں ہو رہا ہے؟
رمضان کا مہینہ آ پہنچا ہے۔ روزہ کھولنے کے لیے کئی لوگوں کے پاس کچھ نہیں۔ پروین شام کے کھانے کو افطار جیسا بنانے کے حق میں ہے۔ کیا ایک کھجور بھی جوڑ دیں؟ ایک کیلا، بسکٹ کا ایک پیکیٹ؟ بچوں کے لیے کچھ نہیں؟ دودھ اگر ہو سکے!
کیاامول والوں سے بات کی جا سکتی ہے؟ سبھگ نے کسی سے بات کی ہے۔ ایک ٹن دودھ کا پاؤڈر رعایتی قیمت پر۔ لیکن اس کے چھوٹے پیکٹ کیسے بنیں گے؟ کوئی صاف جگہ؟ کتنے لوگ چاہیے؟نہیں!طے ہوتا ہے کہ دودھ کے ساتھ جوکھم نہیں لے سکتے۔ تھوڑی گندگی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ من مسوس کر تجویزکو رد کر دیا جاتا ہے۔
ڈھابے پر بھی روزےدار ہیں۔ راشد کا روزہ پابندی سے چل رہا ہے۔ سرور کے افطار کے لیے کیا ہوگا؟ پوری، کدو؟ دہلی میں لوگ کمہڑا کو کدو کیوں کہتے ہیں؟گرمی ہے۔ ماسک کے نیچے پسینہ۔ سنتھیٹک دستانے پوری اور سبزی کی گرمی سے پھٹ جاتے ہیں۔ سنجے ڈھابے کی ٹیم کے لیے لسّی اور دہی لانے مدر ڈیری ہوکر آتے ہیں۔
ستیش کو کہیں سے کسی بینکر کی پیش کش ہے۔ کچھ مدد کا۔ کچھ لوگ مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سہی جگہ پہنچ رہی ہے، اس کا ثبوت چاہتے ہیں۔ ہمدردی بے حدمحتاط ہےاورشک میں بھی مبتلا۔کچھ اور لوگ مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنا نام نہیں چاہتے۔ وہ ‘ان میں’ سے نہیں۔ ان کی مدد بھی شک کی نگاہ سے دیکھی جائےگی۔
لوکیش کی مجبوری ہے۔ مددگمنام نہیں ہو سکتی۔ سرکار کو پائی پائی کا حساب چاہیے۔شہریوں کو سیکولر شراکت داری کی اجازت نہیں ہے۔الف کے پاس طویل فہرست ہے۔ شاستری پارک کی پلاسٹک کی پنی والی جھگیوں میں کوئی نہیں پہنچ رہا۔ رچا اور پوروا کے فون بند نہیں ہوتے۔ دہلی، دہلی کے باہر۔
دیکھیے، ڈپلی کیشن بہت ہو رہا ہے۔ لسٹ ملاتے رہیے۔ کچھ لوگ راشن جمع کر رہے ہیں۔ کتنا کر لیں گے بھائی؟ ب اکتا کر کہتا ہے۔ ہم اس مدد سے کوئی ان کی زندگی نہیں بدل رہے۔نتاشا نروال کی پیٹھ میں درد رہتا ہے۔ سو، وہ بیچ بیچ میں تھیلے بناتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ کرفیو پاس نتاشا کے پاس نہیں۔ کسی کو راستے میں انہیں ساتھ لینا ہوگا۔
پولیس نے نوٹس بھیجی ہے۔ نتاشا کے گھر وہ آنے والی ہے۔ نتاشا، دیوانگنا… پنجرہ توڑ! پولیس چاہتی ہے کہ ہم مان لیں کہ نتاشا، دیوانگنا نے ہی دہلی میں آگ لگائی ہے۔‘آگ لگانے کے بعد پانی لےکر پہنچنے کا ناٹک بہت کرتے ہو تم لوگ!’ ہم پیکٹ بنا رہے ہیں۔ قریب ہی نتاشا کے کمرے پر پولیس ہے۔ ایک ایک گاڑی میں کھانے کے تھیلوں کی بوریاں ڈالی جا رہی ہیں۔
اچانک فون پر خبر ہے: نتاشا، دیوانگنا گرفتار کر لی گئی ہیں۔ ایک گاڑی نکلتی ہے، پھر دوسری۔ ہم ہاتھ دھوتے ہیں اور برتن۔ پھر فرش کی دھلائی۔نتاشا کو کہاں لے گئے ہوں گے؟ آزاد پور میں اور کتنے پیکٹ چاہیے؟ 2020 دھیرے دھیرے پروان چڑھ رہا ہے۔ نتاشا کے والد، دیوانگنا کے ساتھی عدالت پہنچ گئے ہیں۔ ضمانت مل گئی ہے۔ لیکن اسپیشل سیل نے یواے پی اے میں فوراً گرفتار کر لیا ہے۔
عثمان کی پھیری نکل گئی اور نوین کی بھی۔
سال2021 کی پہلی صبح اب دوپہر میں تبدیل ہو گئی ہے۔ 2020 کی یاد سے جھلستی ہوئی!
(مضمون نگاردہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر