ادبستان

پنجابی نغموں میں سنائی دے رہی ہے کسانوں کے مظاہرے کی بازگشت

نئےزرعی  قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کو پنجاب کے گلوکاروں کی طرف سےبھی بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ نومبر کے اواخر سے جنوری کے پہلے ہفتے تک الگ الگ  گلوکار وں  کے دو سو سے زیادہ  ایسے گیت آ چکے ہیں، جو کسانوں کے مظاہروں  پرمبنی ہیں۔

کنول گریوال اور حرف چیمہ کے نئے البم کسانوں کے مظاہروں پر مبنی ہیں۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/حرف چیمہ)

کنول گریوال اور حرف چیمہ کے نئے البم کسانوں کے مظاہروں پر مبنی ہیں۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/حرف چیمہ)

پنجابی گلوکاراور اداکار دل جیت دوسانجھ اس وقت  سے سرخیوں میں ہیں جب سے ان کے خلاف انکم ٹیکس کی جانچ کی خبر اڑی ہے۔ دوسانجھ کا قصور بس اتنا ہی ہے کہ انہوں نے نہ صرف کسانوں کے مظاہرے کی حمایت کی تھی بلکہ ایک بار وہ دہلی کے سنگھو بارڈر پر بھی دکھائی دیے تھے اور کنگنا رناوت سے بھی الجھے تھے۔

انہیں جس طرح سے نشانا بنایا گیا وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کسانوں کے مظاہرے اور کسانوں کی پریشانیوں کی جتنی سمجھ سرکار کو ہے پنجاب کے گلوکاروں کی اس کی سمجھ اس سے کہیں زیادہ کم ہے۔پنجابی کے کئی دوسرے آرٹسٹ اس مظاہرے میں بہت زیادہ متحرک  ہیں اور کچھ تو اس مظاہرے کا چہرہ بھی بن چکے ہیں۔

دل جیت دوسانجھ اس لیے نظر آ جاتے ہیں کہ وہ ہندی کی کچھ فلموں میں کام کر چکے ہیں اور ہندی علاقوں میں انہیں پہچانا جانے لگا ہے۔وہ سرخیوں میں بھی اسی لیے آئے کہ کسانوں کے مظاہرہ کوکور کر رہے دہلی کے صحافی انہیں پہچانتے تھے اس لیے انہیں خاب کوریج بھی مل گیا۔ اس کے علاوہ کنگنا سے ٹوئٹر پر ان کی جھڑپ بھی سرخیوں میں آ گئی۔

اس پورے دور میں اگر کسانوں کے مظاہرے کا کوئی آرٹسٹ  چہرہ بن سکے تو وہ کنور گریوال اور حرف چیمہ جیسے لوگ ہیں۔ یہ آرٹسٹ اس پورے دور میں سنگھو بارڈر پر متحرک  دکھائی دیے۔

کنور گریوال تو بہت سارے اجلاس میں کسان رہنماؤں کے ساتھ منچ پر بھی نظر آئے۔ بلاشبہ کنور گریوال اس وقت پنجابی لوک سنگیت کا سب سےمقبول نام ہیں، جن کے پروگرام کے ٹکٹ نہ صرف ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں بلکہ بعد میں بلیک بھی ہوتے ہیں۔

کسانوں کے مظاہرہ میں کنور گریوال کی یہ موجودگی ہی اہم  نہیں ہے بلکہ اس دوران حرف چیمہ کے ساتھ ان کے چار البم بھی آ گئے ہیں پاتشاہ، اعلان، پیچا اور اتہاس۔ یہ چاروں کسانوں کے مظاہرےپر ہیں۔پاتشاہ کہتا ہے ہم نے سڑکوں کو ہی اپنا قلعہ بنا لیا ہے۔ اعلان کے بول ہیں تینو دلیئے ایکٹھ پریشان کروں گا۔ جبکہ پیچا کہتا ہے ویلا آ گیا جاگ کسانا، پیچا پے گیا سینٹر نال۔

ایک چینل پر حرف چیمہ پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ ‘اب لگتا ہے کہ ہم واقعی لوک کلاکار ہو گئے ہیں۔’ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف حرف چیمہ اور کنور گریوال ہی کسانوں کے مظاہرہ کو لےکرمتحرک  ہیں۔ پنجابی آرٹسٹ  کے کسانوں کے مظاہروں کی حمایت کاصحیح اندازہ  لگانا ہو تو ہمیں سوشل میڈیا ایپ ٹیلی گرام پر شروع ہوئے چینل‘کسان آندولن میوزک‘ کو دیکھنا ہوگا۔

یہ چینل تو پہلے بن گیا تھا لیکن27 نومبر سے اس میں البم اور ان کے گیت ڈالنے شروع کیے گئے۔ چار جنوری تک اس میں223 البم ڈالے جا چکے ہیں اور سب پوری طرح کسانوں کے مظاہرے پر ہی ہیں۔بتادیں کہ45 دن پرانے مظاہرے کے حساب سے شایدیہ ایک ویلیوڈ ریکارڈ ہوگا۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پنجابی میوزک انڈسٹری میں ان دنوں شاید کسانوں کے مظاہرہ کے علاوہ کسی اورموضوع پر کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

ان میں سے کوئی بھی البم ویسا غیرتخلیقی نہیں ہے جیسے کہ عام طور پر مظاہرہ  کرنے والے لوگوں کے نغمے اور موسیقی ہوتے ہیں۔یہ سب پیشہ ور گلوکاروں کے پوری طرح پروفیشنل البم ہیں۔ کچھ میں پاپ میوزک ہے تو کچھ میں ریپ، لیکن زیادہ تر پنجاب کےروایتی  لوک گیت ہیں۔

حالانکہ تقریباً سب میں موسیقی کا انداز بالکل نیا ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب کے کچھ ڈاڈی جتھے بھی کسان تحریک  کو لےکرمتحرک ہو گئے ہیں۔پنجاب کا ڈاڈی موسیقی بنیادی طور پرمذہبی کتھاؤں کے طرزکوبیان  کرنے کے لیے استعمال  ہوتا ہے۔ ڈاڈی جتھے گاؤں گاؤں جاکر اپنے گانے اور کہانیوں سے لوگوں میں جوش بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ اب وہ کسان تحریک  کو لےکر لوگوں میں جوش بھر رہے ہیں۔

ان سے ہر دوسرا البم دہلی کو وارننگ دیتا دکھائی دیتا ہے، کچھ تو اسے چیلنج بھی دے رہے ہیں۔ تقریباً آدھا درجن البم ایسے ہیں جن کا عنوان ہے سن دلیئی۔کچھ ایسے ہیں جو دہلی کا گھمنڈ توڑنا چاہتے ہیں۔ کچھ وزیراعظم نریندر مودی کے گھمنڈ کی بھی بات کرتے ہیں۔ کچھ ان کا مذاق بھی بناتے ہیں۔ جن کا مذاق بنایا گیا ان میں کنگنا رناوت بھی ہیں۔ جبکہ بہت سارے صرف اپنے حق کی بات کر رہے ہیں۔

پنجابی کی‘ببیہا بولے‘طرز کا ایک گیت‘ببیہا مودی دا‘بھی ریلیز ہوا ہے۔ گرمیت سنگھ لانڈرا کا ڈاڈی جتھا کہتا ہے دہلی اب تمہیں پتہ لگ گیا ہوگا کہ کسان کسے کہا جاتا ہے۔پما ڈمیوال دہلی کی سرد راتوں میں دھرنا دے رہے بزرگ کسانوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بار میں کسی سے نیا سال مبارک نہیں کہہ پاؤں گا۔

صرف مرد گلوکار ہی نہیں خاتون گلوکار بھی پورے جوش سے متحرک ہیں۔ روپندر ہانڈا گا رہی ہیں پیچا دلی نال چڑیا پیا، پارہ جٹا د وی چڑیا پیا۔

گلریز اختر دہلی کی سرحد پر دھرنا دے رہے اپنے شوہر سے کہتی ہیں تم اپنے کھیتوں کی چنتا چھوڑ دو، اگر تم کھیتوں کے راجا ہو، تو میں بھی کھیتوں کی رانی ہوں، میں کھیتوں کو پانی بھی لگا دوں گی اور باقی کام بھی کر دوں گی، پھر جب تم یہ لڑائی جیت کر آؤ گے تو دلی سے اپنے گاؤں تک چپے چپے پر دیے جلاؤں گی۔

یہاں‘ہے ساڈا حق‘ نام کے البم کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس البم کو تمل ناڈو کے موسیقاروں  اور نغمہ نگاروں  کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے۔ البم کے کور پر دو ہی زبان ہیں گرمکھی اور تمل۔ہم دہلی کی سرحدوں پر جو دیکھ رہے ہیں وہ کسانوں کا صبر وتحمل  اور اس سے پیدا ہورہاسیاسی  دباؤ ہے جبکہ یہ گیت بتا رہے ہیں کہ کسانوں کا غصہ ایک سماجی  اور ثقافتی  گہرائی بھی پا چکا ہے۔

ٹھیک یہیں پر ایک نظر پنجابی میوزک انڈسٹری پر بھی ڈال لینی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا غیر فلمی میوزک انڈسٹری پنجابی میوزک انڈسٹری ہی ہے۔اگر اسے پنجابی کی مذہبی موسیقی سے الگ کر دیں تو بھی کچھ اندازوں کے مطابق اس کا سالانہ کاروبار ایک ہزار کروڑ روپے کےآس پاس ہے۔اس انڈسٹری کا مرکز چنڈی گڑھ کے پاس موہالی میں ہے، جہاں ہر روز دو درجن سے زیادہ گیت ریکارڈ ہوتے ہیں۔

ویسے پنجاب کی یہ میوزک انڈسٹری محبت، لڑکیوں کی خوبصورتی، شراب اور پھوہڑ چٹکلوں کے لیے ہی زیادہ جانا جاتی رہی ہے۔ لیکن نئے رجحان کودیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان دنوں موہالی میں کسانوں کے مظاہرہ  کے علاوہ کسی اورموضوع پر ریکارڈنگ شاید نہیں چل رہی۔

پنجابی میوزک انڈسٹری میں ایک کہاوت ہے آج جو پنجاب سن رہا ہے، کل اسے پورا ملک  سنےگا۔ کیا اس بار بھی یہی ہوگا؟

(مضمون نگارریسرچ اسکالر  ہیں۔)