فکر و نظر

تاریخی احتجاجات کی سرگزشت: حالیہ احتجاج-عدالت اور حکومت کا امتحان

 ہندوستان دو راہے پر کھڑا ہے اور عدالت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ پڑوسی ملک کی عدالتوں نے ‘نظریہ ضرورت’ کی نا مبارک اصطلاح وضع کر کے ایوب خان، یحیی خان، ضیاء الحق اور  پرویز مشرف کی آمریت کو سند جواز بخشا اور آئین کی پامالی کا سبب بنتی رہی ہیں۔ ہماری عدالتوں نے بھی’آستھا/عقیدہ’ اور ‘جَن بھاونا/عوامی امنگوں’ کی نا معقول اصطلاحات وضع کر کے گزشتہ دنوں میں اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

آزادی کا خواب سلطنت عظمیٰ برطانیہ کی غلامی سے نکل کر قوم بننے کی طرف ہمارے سفر کی نوید تھا، کچھ دور اور کچھ دیر صحیح سمت میں چلتے رہنے کے بعد ہماری سواری باد بہاری نے غلط راستہ پکڑ لیا۔

گزشتہ8 جنوری کو بھی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔کسان رہنماؤں اور مرکزی حکومت کے درمیان 8 ویں دور کی بات جیت بھی کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم ہو گئی۔12 جنوری کو سپریم کورٹ نے متنازعہ زرعی قوانین کے نفاذ پر تا حکم ثانی حکم امتناعی جاری کیا اور اس کی آئینی حیثیت نیز فوائد ونقصانات کا جائزہ لینے کے لیے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔

کسان مظاہرین عدالتی اقدام سے مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ بقول ان کے ان سے مشاورت نہیں کی گئی اور اس لیے بھی کہ مذکورہ چار رکنی کمیٹی کے تین اراکین پہلے ہی حکومتی موقف کے حامی ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ کسان متنازعہ قوانین کے رد کیے جانے سے کم کسی بھی بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

احتجاج کو مزید مؤثر بنانے کے لیے دور دراز دیہی علاقوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں سے جوق در جوق دہلی کی طرف پا بہ رکاب ہیں۔ حتمی طور پر ابھی بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن بظاہر حالات کے بگڑنے اور بے قابو ہونے کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

حکومت اور عوام کے درمیان محاذ آرائی کی تاریخ طویل ہے، اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ نیا اور اہم یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں۔ موجودہ اور سابقہ احتجاجات اور ان کے مقابلہ حالیہ حکومتی رد عمل کو درست طریقے پر سمجھنے کے لیے ماضی کا جائزہ لیا جا جانا چاہیے۔

جنوبی ہند کی ہندی مخالف تحریک

سال 1950 میں دستورِ ہند کے نفاذ کے ساتھ ہی ہندی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے نفاذ کے لیے پندرہ سال کی مہلت دی گئی تاکہ اس مدت میں غیر ہندی ریاستیں ہندی کو فروغ دیں اور ہندی دوست ماحول پیدا کریں۔ جنوبی ہند میں اور خاص طور پر تمل ناڈو میں بڑی بے چینی کا ماحول تھا۔

تمل کلچر اکیڈمی نے 1956 میں ہندی کی بالادستی کے خلاف ایک قرار داد پاس کی جس پر مشہور تمل رہنماؤں نے دستخط کیے تھے جن میں سی این انادورائی، ای وی راما سوامی (پیریار) اور راجا گوپالاچاری شامل تھے۔

ان لوگوں کی رائے تھی کہ ہندی بھی دیگر زبانوں کی طرح علاقائی زبان ہے لہذا اسے پورے بھارت پر مسلط کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، اور اس بات کے جواب میں کہ ہندی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے انا دورائی نے بڑا دلچسپ جواب دیا تھا کہ اگر کثرت ہی معیار ہے تو ہمیں مور کی بجائے کوّا کو اپنا قومی پرندہ بنانا چاہیے۔

26 جنوری1965 کو ہندی کے نفاذ کے لیے دی جانے والی پندرہ سالہ مدت پوری ہو رہی تھی۔ ڈی ایم کے رہنما انا دورائی نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو لکھا کہ ہندی کے نفاذ کے اعلان کو ایک ہفتہ کے لیے ٹال دیا جائے تاکہ جنوبی ہند کے لوگ بھی یوم جمہوریہ کی تقریب میں دل وجان سے شریک ہوں، لیکن شاستری اور ان کی کابینہ نے اس حکیمانہ مشورہ کو نہ مانا۔

تمل ناڈو اور کرناٹک کے عوام سراپا احتجاج ہو گئے۔ہندی کے نام پر پتلے پھونکے گئے، ہندی کتابیں جلائی گئیں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، پوسٹ آفس اور دیگر عوامی خدمات کے اداروں سے ہندی کے بورڈ اور تختیوں کو اکھاڑ پھینکا گیا۔ پولیس تھانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، انہیں آگ کے حوالے کیا گیا، پولیس پر جان لیوا حملے ہوئے، گاڑیاں جلائی گئیں اور خود کشیوں کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ تشدد کا کوئی طریقہ ایسا نہ تھا جو آزمایا نہ گیا ہو۔

درجنوں انسانی جانوں کے ضائع ہونے اور کڑوروں کی املاک کی تباہی کے پیچھے مرکزی حکومت کی ایک بڑی ناکامی تھی اور وہ یہ تھی کہ اس نے جنوبی ہند کے جذبات کی گہرائی کو نہیں سمجھا۔ اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت میں دو محاذ بن گئے۔31 جنوری 1966 کو بنگلور میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ ایس نیجالنگپا، بنگال کانگریس کے صدر اتُل گھوش، سینئر مرکزی وزیر سنجیوا ریڈی اور کانگریس صدر ک کامراج نے ایک قرار داد پر دستخط کر کے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ غیر ہندی علاقوں پر ہندی زبان کو مسلط کرنا مناسب نہیں ہے اس سے قومی وحدت کو زک پہنچے گی۔


یہ بھی پڑھیں:کسانوں کا مظاہرہ: کسی نے اس سے پہلے بی جے پی کے ہوش اس طرح کبھی نہیں اڑائے


اتنا کچھ ہونے کے باوجود مرارجی دیسائی نے، جو اس وقت کانگریس میں تھے، ہندی کے حق میں ایک پریس کانفرنس بلائی اور جنوبی ہند کو ہندی زبان کے فوائد سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ تمل ناڈو کے دو مرکزی وزراء نے استعفیٰ دے دیا۔ وزیر اعظم شاستری نے وقت کی نزاکت کو بھانپ لیا، آل انڈیا ریڈیو کے ذریعہ انہوں نے “من کی بات”عوام کے سامنے رکھی اور نہرو کا حوالہ دیتے ہوئے ہندی، انگریزی اور علاقائی زبانوں سے متعلق چار نکاتی فارمولے کا اعلان کیا، اور ملک میں امن بحال ہو گیا۔

صاحبانِ بصیرت کا خیال ہے کہ اگر اس وقت کانگریس کی اعلیٰ قیادت دو حصوں میں تقسیم نہ ہوئی ہوتی اور وزیر اعظم اپنی ضد پر قائم رہتے تو بعید نہیں کہ پیریار اور انادورائی کی قیادت میں ہندوستان سے علیحدہ “ڈراوڈ نایڈو”نامی ریاست کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک پھر سر اٹھا لیتی، جو 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد سرد خانہ میں ڈال دی گئی تھی۔

جے پی آندولن اور ایمرجنسی

جنوری 1974 میں گجرات کے کانگریسی وزیر اعلیٰ چمن بھائی پٹیل، جسے چمن چور بھی کہا جاتا تھا، کی بد عنوانی کے خلاف طلبہ تحریک شروع ہوئی۔ مظاہروں نے طول پکڑا اور شدت اختیار کر گئے۔ آگ زنی، توڑ پھوڑ اور پولیس کے ساتھ محاذ آرائی شروع ہوئی تو چمن چور کو برخاست کر کے گورنر رول نافذ کر دیا گیا۔

اس سے حوصلہ پا کر بہار کے طلبہ نے اپنی کانگریسی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اس زمانہ میں بہار کا سیاسی بحران اتنا گہرا تھا کہ مارچ 1967 سے جولائی 1973 کے درمیان گیارہ وزیر اعلیٰ آئے اور دو بار گورنر رول لگا گیا۔ بد عنوانی اور مہنگائی سے بد حال وبیزار عوام بھی اس احتجاج میں شریک ہو گئے۔ چھاتر سنگھ سمیتی، اے بی وی پی اور کمیونسٹ پارٹی نے احتجاجات کی قیادت کی۔

پٹنہ میں جلاؤ گھیراؤ ہوا، گولیاں چلیں، بہت سے طلبہ زخمی ہوئے اور کم سے کم تین ہلاک بھی ہو گئے۔ اسی طرح گیا ضلع میں طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں بیس سے زیادہ لوگ گھائل ہوئے اور تین مر گئے۔ 18 مارچ 1974 کو طلبہ نے جے پرکاش نارائن کو بہار آنے کی دعوت دی تھی، وہ فورا نہیں آئے، البتہ طلبہ کے حق میں بیانات دیتے رہے۔5 جون کو انہوں نے گاندھی میدان پٹنہ میں تاریخی جلسہ کو خطاب کیا اور احتجاج میں عملی طور پر شریک ہو گئے۔

حادثات و واقعات کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حالات بد سے بد تر ہوتے گئے یہاں تک کہ 26 جون 1975 کو ملک ایمرجنسی کے گُھپ اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ مطلق العنان سنجے گاندھی نے دسمبر 1976 میں کسی دن کہا تھا کہ ؛

آنے والی نسلیں انتخابات کی تعداد سے نہیں، بلکہ ہماری حصولیابیوں سے ہمیں یاد رکھیں گی۔

پنجاب صوبہ تحریک

پنجابی سِکھ آزادی کے بعد سے ہی اپنے لیے ایک الگ صوبہ کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ ان کا مطالبہ یہ کہہ کر ٹھکرایا جاتا رہا کہ ان کی زبان ان کے مذہب میں پیوست ہے۔ اگر لسانی بنیاد پر انہیں ایک صوبہ دے دیا گیا تو دیر سویر وہ سِکھوں کے لیے علیحدہ ملک کے مطالبہ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اور چونکہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے لہذا مذہب کی بنیاد پر علیحدگی یا ریاست سازی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سال 1960 اور 1961 میں ماسٹر تارا سنگھ اور روحانی پیشوا گرو فتح سنگھ نے احتجاجات اور مظاہروں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ دونوں رہنما بار بار بھوک ہڑتال کرتے اور ان کے ساتھ اکالی دل کے رضاکار گرفتاریاں دیتے تھے۔اس معاملہ میں جواہر لال نہرو کا رویہ تو سخت تھا ہی، پنجاب کے کانگریسی وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کائرون ان سے بھی زیادہ سخت تھے۔

ہزاروں اکالی رضا کاروں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ کائرون نے پولیس کو ہدایت دی تھی کہ دیہاتی مظاہرین کو گرفتار کرنے کی بجائے ان سے مالی جرمانہ لیا جائے، دلیل یہ تھی کہ دیہاتی کسان فرصت کے دنوں میں شہید ہونا گوارا کر لے گا لیکن اپنی محنت سے کمائی ہوئی پھوٹی کوڑی جرمانہ میں دینا برداشت نہیں کرے گا، لہذا ان کے اندر جرمانہ کا خوف پیدا کر کے انہیں مظاہروں سے دور رکھا جا سکتا ہے۔

اس کے بر خلاف شہریوں کو گرفتار کرو کیوں کہ شہری مظاہرین جرمانہ کی صورت میں پیسہ آسانی سے ادا کر دیں گے لیکن بال بچوں سے دور جیلوں میں پڑے رہنا ان کے لیے بہت اذیت ناک ہوگا۔

اگست 1961 میں ماسٹر تارا سنگھ بھوک ہڑتال پر بیٹھے۔48 دن گزرنے کے بعد حالات قابو سے باہر ہونے کو آئے تو جواہر لال نہرو نے ان کے مطالبہ پر سنجیدہ غور وفکر کی یقین دہانی کروائی تو انہوں نے ہڑتال ختم کی۔ اس کے بعد پھر حکومت نے اسے ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا اور تحریک چلتی رہی۔

سال 1965 کی بھارت-پاک جنگ میں سکھ فوجی کمانڈروں اور جوانوں نے جاں نثاری و قربانی کی لازوال تاریخ رقم کی۔ اسی طرح پنجابی عوام بھی خدمت وطن میں پیش پیش رہے۔کسانوں نے سڑکوں کے کنارے فوجی جوانوں کو کھلانے پلانے کے اسٹال لگائے، بہتوں نے فوجیوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا،  زخمی فوجیوں کا علاج ومعالجہ کیا۔

مذہب سے اوپر اٹھ کر انہوں نے مسلح افواج کے جاں بازوں کی خدمت کی۔ تب جا کر دہلی کی مرکزی حکومت کو ان کی حب الوطنی کا یقین آیا اور وہ ان کے دیرینہ مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے پر مائل ہوئی۔ ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ہماچل اور ہریانہ کو الگ کر کے ایک نومبر 1966 کو اندرا گاندھی کے دور حکومت میں پنجاب صوبہ کے قیام کا اعلان کیا۔

بھارت کے کسانوں اور خاص طور ہر پنجابیوں کے دن پھر سے بہت کٹھن اور راتیں انتہائی نا مہربان ہو گئی ہیں۔پتہ نہیں اس بار بھارت سرکار انہیں کس قسم کی اگنی پرکچھا سے گزارنا چاہتی ہے۔

مذکورہ بالا تاریخی واقعات نے ثابت کر دیا کہ عوامی جذبات کی بے حرمتی کرنے اور خرابی بسیار کا سبب بننے کے بعد ناچار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے ہیں بصورت دیگر ایمرجنسی کے نفاذ نے وقتی طور پر جمہوریت کے چاند کو گہنایا اور حکمراں کے چہرے کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیا ہے۔

 یاد رکھنا چاہیے کہ آمریت حکمرانوں کی ایک خاص قسم کی ذہنی کیفیت کا نام ہے، وہ ہمیشہ وردی ہوش ہی نہیں ہوتی ہے۔ چند بھدے اور بدصورت اصول سے تشکیل پاتی ہے۔ طالع آزما قوتیں پہلے مرحلوں میں حزب اختلاف کو بے ضرر کرتی ہیں، احتجاجات اور مظاہروں کو بے ثمر کرتی ہیں، ذرائع ابلاغ کو ڈرا کر یا لالچ دے کر نکیل ڈالتی ہیں اور عدالتوں کو زیر اثر کر کے من مانے فیصلے کرواتی ہیں۔

یہ سارے اقدامات سیاسی بحران پیدا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں تا کہ انہیں طول دے کر آئینی بحران کی راہ ہموار کی جائے اور آمریت مسلط کر دی جائے۔ وطن عزیز کو حالیہ دنوں ان تمام چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات محض اماوس کی رات میں فراق کے مارے دلوں کا المیہ نہیں ہیں، ان میں شہر بے چراغ کی کسی مانوس چاپ سے خالی گلیوں کا نوحہ بھی سنائی دیتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے موقع پر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ہندوستان دو راہے پر کھڑا ہے اور عدالت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ایسے میں بہت کچھ اس کے کردار پر منحصر ہے۔

پڑوسی ملک کی عدالتوں نے’نظریہ ضرورت’کی نا مبارک اصطلاح وضع کر کے ایوب خان، یحیی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت کو سند جواز بخشا اور آئین کی پامالی کا سبب بنتی رہی ہیں۔ ہماری عدالتوں نے بھی’آستھا/عقیدہ’ اور ‘جَن بھاونا/عوامی امنگوں’ کی نا معقول اصطلاحات وضع کر کے گزشتہ دنوں میں اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔

ہماری جمہوریت مزید کسی جوکھم کی متحمل نہیں ہو سکتی، ہم مزید اس قسم کی کسی عدالتی اصطلاح اور سیاست کے نام ہر غیر سیاسی اقدام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔