غیرسرکاری تنظیم آکسفیم کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال میں تعلیم آن لائن ہونے سے ہندوستان میں ڈیجیٹل تقسیم سے بھی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ہندوستان کے 20 فیصدی سب سے غریب گھروں میں سے صرف تین فیصد کے پاس ہی کمپیوٹر اور صرف نو فیصدی کے پاس ہی انٹرنیٹ کی پہنچ رہی۔
نئی دہلی:غریبی کے خاتمے کے لیے کام کرنےوالی غیرسرکاری تنظیم آکسفیم کی تازہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس نےہندوستان اور دنیا بھر میں موجودہ عدم مساوات کو اور گہرا کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ‘دی ان اکولٹی وائرس’نام کی اس رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ کورونا کی وجہ سے معیشت کی رفتار تھم گئی ہے، بڑی تعداد میں غریب ہندوستانی بےروزگار ہو گئے ہیں تو دوسری جانب ہندوستان کے ارب پتیوں کی ملکیت میں35 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستانی ارب پتیوں کی ملکیت35 فیصدی بڑھی ہے اور 2009 سے ان ارب پتیوں کی ملکیت90 فیصدی بڑھ کر 422.9 ارب ڈالر ہو گئی ہے، جس کے بعد ہندوستان ارب پتیوں کی ملکیت کے معاملے میں دنیا میں امریکہ، چین، جرمنی، روس اور فرانس کے بعد چھٹےمقام پر پہنچ گیا ہے۔’
آکسفیم کے مطابق، مارچ 2019 سے جب سے مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ہندوستان کے ٹاپ 100ارب پتیوں کی ملکیت12.97 ٹرلین بڑھی ہے۔ یہ رقم اتنی زیادہ ہے کہ اس سے ملک کے 13.8 کروڑ غریب ہندوستانیوں میں سے ہرایک کو 94045 روپے کا چیک دیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں آمدنی کے عدم مساوات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وبا کے دوران مکیش امبانی کو ایک گھنٹے میں جتنی آمدنی ہوئی اتنی کمائی کرنے میں ایک غیر ہند مندمزدور کو دس ہزار سال لگ جا ئیں گے،یا مکیش امبانی نے جتنی آمدنی ایک سیکنڈ میں حاصل کی، اسے پانے میں ایک غیر ہنر مزدور کو تین سال لگیں گے۔
رپورٹ کے مطابق،کوروناوبا پچھلے سو سالوں میں صحت کا سب سے بڑا بحران ہے اور اس کی وجہ سے1930 کی ‘مہامندی’ کے بعد سب سے بڑا اقتصادی بحران پیدا ہوا۔
رپورٹ کے لیے آکسفیم کے ذریعے کیے گئے سروے میں 79ممالک کے 295 ماہرین اقتصادیات نے اپنی رائے دی، جس میں جیفری ڈیوڈ، جیتی گھوش اور گیبریل زکمین سمیت 87 فیصدجواب دہندوں نے وبا کی وجہ سےاپنے ملک میں آمدنی کے عدم مساوات میں بہت یا بہت زیادہ اضافے کا اندازہ کیاہے۔
رپورٹ کے مطابق مکیش امبانی، گوتم اڈانی، شیونادر، سائرس پوناوالا، ادے کوٹک، عظیم پریم جی،سنیل متل، رادھاکرشن دمانی، کمار منگلم برلا اور لکشمی متل جیسے ارب پتیوں کی ملکیت مارچ 2020 کے بعدوبا اور لاک ڈاؤن کے دوران تیزی سے بڑھی۔
رپورٹ کہتی ہے کہ دوسری طرف اپریل 2020 میں ہر گھنٹے 170000 لوگ بےروزگار ہو گئے۔آکسفیم مطابق، اصل میں وباکے دوران ہندوستان کےٹاپ11 ارب پتیوں کی ملکیت میں ہوئےاضافے سے اگلے 10 سالوں کے لیے نریگااسکیم یا وزارت صحت کو چلایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نے لگ بھگ ہر ملک میں اقتصادی عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان کی سب سے بڑی ان آرگنائزڈ ورک فورس کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ اس دوران 12.2 کروڑ روزگاروں کا نقصان ہوا، جس میں سے 75 فیصدی ان آرگنائزڈ سیکٹر سے تھے۔
ان آرگنائزڈ مزدوروں کے پاس گھر سے کام کرنے کے کم موقع تھے اورآرگنائزڈ سیکٹرکے مقابلے ان کا روزگار زیادہ متاثر ہوا۔کنسٹرکشن سائٹ، کارخانوں وغیرہ میں مزدوری میں لگے چار سے پانچ کروڑ مہاجر مزدور خصوصی طور پر متاثر ہوئے۔
کو رونا سے صحت اورتعلیمی عدم مساوات میں اضافہ
گزشتہ ایک سال میں ایجوکیشن آن لائن ہونے سے ہندوستان میں ڈیجیٹل تقسیم سے عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف بایجو(موجودہ ویلیو10.8ارب ڈالر)اور ان اکیڈمی(1.4ارب ڈالر ویلیو)جیسی نجی تعلیم فراہم کرنےوالی کمپنیوں نے غیرمعمولی گروتھ دیکھا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کے 20 فیصدی سب سے غریب گھروں میں سے صرف تین فیصدی کے پاس ہی کمپیوٹر اور صرف نو فیصدی کے پاس انٹرنیٹ کی پہنچ رہی۔
ہیلتھ کیئر کے تناظر میں آکسفیم کو پتہ چلا کہ موجودہ وقت میں ہندوستان کورونا وائرس سے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثر ملک ہے اور عالمی سطح پر غریب، حاشیے پر موجود اور کمزورکمیونٹی میں کورونا کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیماری کا پھیلاؤ غریب کمیونٹی کے بیچ تیزی سے ہوا۔ اکثر گھنی آبادی والے علاقوں میں لوگ غلاظت میں رہتے ہیں اور مشترکہ ٹوائلٹ اورپانی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں ٹاپ 20 فیصد گھروں کے 93 فیصدی کے مقابلے سب سے غریب 20 فیصدی گھروں میں سے صرف چھ فیصدی فیملی بہتر صفائی کی حالت میں رہے۔
کورونا سے صنفی عدم مساوات میں اضافہ
کورونا وائرس کی وجہ سے صنفی عدم مساوات کی بات کریں تو خواتین میں بےروزگاری کی شرح15 فیصدی سے بڑھ کر 18 فیصدی ہو گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا،‘خواتین کی بےروزگاری میں اضافہ سے ہندوستان کی جی ڈی پی میں لگ بھگ آٹھ فیصدی یعنی 218 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔’
انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز ٹرسٹ کی جانب سےکرائے گئے سروے کے مطابق، اس دوران جن خواتین کی نوکریاں برقرار رہیں، ان میں سے 83 فیصدی کی آمدنی میں کٹوتی کی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا،‘آمدنی کا ذریعہ چھن جانے اور نوکری جانے کے علاوہ مستقل صحت خدمات اور آنگن باڑی مراکز کی خدمات کے متاثر ہونے کی وجہ سے غریب خواتین کی صحت پراثر ہوا ہے۔’
رپورٹ میں کہا گیا،‘ایسا اندازہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے بند ہونے سے 2.95 کروڑ غیر مطلوبہ حمل، 18 لاکھ اسقاط حمل(جس میں سے 10 لاکھ 40 ہزار غیر محفوظ اسقاط حمل شامل ہیں)اور 2165 زچگی اموات کا امکان ہے۔’
اتنا ہی نہیں کورونا کی وجہ سے خواتین کے خلاف گھریلوتشدد کے معاملے بھی بڑھے ہیں۔ 30 نومبر 2020 سے گھریلو تشدد کے معاملے گزشتہ12 مہینوں میں لگ بھگ 60 فیصدی بڑھے ہیں۔
آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہر نے کہا، ‘اس رپورٹ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ غیر منصفانہ معاشی نظام سے کیسے سب سے بڑے معاشی بحران کے دوران سب سے مالدار لوگوں نے بہت زیادہ ملکیت حاصل کی، جبکہ کروڑوں لوگ بےحد مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں۔’
بیہر نے کہا، ‘کورونا وائرس کو شروعات میں مساوات لانے والا مانا گیا، لیکن لاک ڈاؤن لگائے جانے کے بعد اس نے سماج میں پھیلے عدم مساوات کو اور بڑھایا۔’بتا دیں کہ آکسفیم انڈیا کی رپورٹ آکسفیم انٹرنیشنل رپورٹ کا حصہ ہے، جس کو ورلڈ اکانومک فورم کے افتتاح پر ‘داووس ڈائیلاگ’کے دوران جاری کیا گیا۔
آکسفیم انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر گیبریلابوچر نے کہا، ‘امیر اور غریب کے بیچ گہری کھائی کورونا جتنی مہلک ہو رہی ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں