ڈیجیٹل میڈیا آزادآوازوں کی جگہ ہے اور اس پر ‘سب سے بڑے جیلر’ کی نگاہیں ہیں۔اگر یہی اچھا ہے تو اس بجٹ میں پردھان منتری جیل بندی یوجنا لانچ ہو، منریگا سے گاؤں گاؤں جیل بنے اور بولنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ منادی کی جائے کہ جیل بندی یوجنا لانچ ہو گئی ہے،برائے مہربانی خاموش رہیں۔
ڈیر جیلر صاحب،
ہندوستان کی تاریخ اِن کالے دنوں کی امانت آپ کو سونپ رہی ہے۔ آزاد آوازوں اور سوال کرنے والے صحافیوں کو رات میں‘ان کی’پولیس اٹھا لے جاتی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں ایف آئی آرکر دیتی ہے۔ ان آوازوں کو سنبھال کر رکھیےگا۔ اپنے بچوں کو وہاٹس ایپ چیٹ میں بتائیےگا کہ سوال کرنے والا ان کی جیل میں رکھا گیا ہے۔
برا لگ رہا ہے لیکن میری نوکری ہے۔جیل بھجوانے والا کون ہے،اس کا نام آپ کے بچے خود گوگل سرچ کر لیں گے۔جو آپ کے بڑے افسر ہیں،آئی اے ایس اورآئی پی ایس،اپنے بچوں سے نظریں چراتے ہوئے انہیں صحافی نہ بننے کے لیے کہیں گے۔ سمجھائیں گے کہ میں نہیں تو فلاں انکل تمہیں جیل میں بند کر دیں گے۔ ایسا کرو تم غلام بنو اور جیل سے باہر رہو۔
بھارت ماتا دیکھ رہی ہے، گودی میڈیا کے سر پر تاج پہنایا جا رہا ہے اور آزاد آوازیں جیل بھیجی جا رہی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر آزاد صحافیوں نے اچھا کام کیا ہے۔کسانوں نے دیکھا ہے کہ یو ٹیوب چینل اور فیس بک لائیو سے کسانوں کے مظاہرے کی خبریں گاؤں گاؤں پہنچی ہیں۔ انہیں بند کرنے کے لیے معمولی غلطیوں اور الگ دعووں پرایف آئی آر کیا جا رہا ہے۔
آزاد آواز کی اس جگہ پر ‘سب سے بڑے جیلر’ کی نگاہیں ہیں۔ جیلر صاحب آپ اصلی جیلر بھی نہیں ہیں۔ جیلر تو کوئی اور ہے۔ اگر یہی اچھا ہے تو اس بجٹ میں’پردھان منتری جیل بندی یوجنا’ لانچ ہو،منریگا سے گاؤں گاؤں جیل بنے اور بولنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ جیل بنانے والے کو بھی جیل میں ڈال دیا جائے۔ ان جیلوں کی طرف دیکھنے والا بھی جیل میں بند کر دیا جائے۔ منادی کی جائے کہ پردھان منتری جیل بندی یوجنا لانچ ہو گئی ہے۔ برائے مہربانی خاموش رہیں۔
سوال کرنے والے صحافی جیل میں رکھے جا ئیں گے تو دو باتیں ہوں گی۔ جیل سے اخبار نکلےگا اور باہر کے اخباروں میں چاٹوکار لکھیں گے۔ وشو گرو بھارت کے لیے یہ اچھی بات نہیں ہوگی۔
میری گزارش ہے کہ سدھارتھ وردراجن، راجدیپ سردیسائی ، امت سنگھ،صدیق کپن سمیت تمام صحافیوں کے خلاف معاملے واپس لیے جائیں۔ مندیپ پنیا کو رہا کیا جائے۔ایف آئی آر کا کھیل بند ہو۔
میری ایک بات نوٹ کرکے پرس میں رکھ لیجیے۔ جس دن عوام یہ کھیل سمجھ لےگی اس دن ملک کے گاؤں اور دیہاتوں میں ٹریکٹروں، بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے ،ہوائی جہازوں،بلیٹ ٹرین، منڈیوں،میلوں، بازاروں اور پیشاب خانوں کی دیواروں پر یہ بات لکھ دےگی۔
غلام میڈیا کے رہتے کوئی ملک آزاد نہیں ہوتا ہے۔ گودی میڈیا سے آزادی سے ہی نئی آزادی آئےگی۔
(یہ مضمون رویش کمار کےفیس بک پیج پرشائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر