ڈاکٹر کفیل خان ان 81 لوگوں میں ہیں، جنہیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جوگیندر کمار کی ہدایت پر گورکھپورضلع کے ہسٹری شیٹرس کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خان کے بھائی نے بتایا کہ ان کا نام اس فہرست میں جون 2020 میں ڈالا گیا تھا، لیکن میڈیا سے یہ جانکاری اب شیئرکی گئی ہے۔
نئی دہلی: ڈاکٹر کفیل خان کو اتر پردیش کے گورکھپور ضلع میں ہسٹری شیٹرس کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔خان ان 81 لوگوں میں ہیں، جنہیں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جوگیندر کمار کی ہدایت پر فہرست میں شامل کیا گیا۔ضلع میں اب کل 1543 ہسٹری شیٹر ہیں یعنی ایسے لوگ ہیں جن کے خلاف مجرمانہ ریکارڈ درج ہیں۔
حالانکہ اس بیچ کفیل خان کے بھائی عادل خان نے بتایا کہ 18 جون 2020 کو کفیل کے خلاف ہسٹری شیٹ کھولی گئی تھی لیکن یہ جانکاری گزشتہ جمعہ کو میڈیا کو دی گئی۔
اس کے بعد سنیچر کو جاری کیےگئے ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر کفیل خان نے کہا، ‘یوپی سرکار نے میری ہسٹری شیٹ کھول دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ زندگی بھر مجھ پر نگرانی کریں گے۔ اچھا ہے، دوسکیورٹی اہلکار دے دیجیے، جو 24 گھنٹے مجھ پر نظر رکھ سکیں۔ کم سے کم فرضی معاملوں سے میں خود کو بچا پاؤں گا۔’
न्यायालय और जाँच रिपोर्ट में चिकित्सा लापरवाही / भ्रष्टाचार से दोषमुक्त हूँ ऑक्सिजन कांड के आरोपी लिखना बंद करें 🙏
इसी वजह से अपराध अधिक है और अपराधियों के हौसले बुलंद हैं
अपराधियों पर कोई करवाई नहीं और राजनीतिक द्वेष में निर्दोष ,बेगुनाह पर करवायी https://t.co/rVSqS1GXur pic.twitter.com/3gb0bcOpvz— Dr Kafeel Khan (@drkafeelkhan) January 30, 2021
انہوں نے کہا، ‘اتر پردیش میں حالت یہ ہے کہ مجرموں پر نگرانی نہیں رکھی جا رہی بلکہ بے قصور لوگوں کے خلاف ہسٹری شیٹ کھولی جا رہی ہے۔’ڈاکٹرخان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اسی وجہ سے جرم زیادہ ہے اورمجرموں کے حوصلے بلند ہیں۔ مجرموں پر کوئی کارروائی نہیں اور سیاسی دشمنی میں بے قصوراوربےگناہ پر کارروائی۔
انہوں نے آگے کہا کہ وہ عدلیہ اور جانچ رپورٹ میں طبی لاپرواہی/بدعنوانی سے بری ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں آکسیجن معاملے کا ملزم کہا جانا بند کیا جانا چاہیے۔غورطلب ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے، جب گورکھپور اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 100 سے زیادہ بچوں کی موت ہو گئی تھی۔
رپورٹس کے مطابق، وہ گرفتار کیے گئے ان لوگوں میں شامل تھے، جنہیں اس معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔حالانکہ ستمبر 2019 میں ایک انٹرنل کمیٹی کے ذریعےمعاملے کی جانچ میں انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں یوپی سرکار نے معاملے کی نئے سرے سے جانچ کےحکم دیے تھے۔ اس کے بعد سے ان کے خلاف کئی معاملے درج کیے گئے۔
اس بیچ جنوری 2020 میں ڈاکٹرخان کو شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف ہوئے مظاہروں کے دوران 10 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بیان دینے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ان پر این ایس اےکے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان کی ضمانت عرضی بھی کئی بار خارج ہوئی۔
آخرکار ستمبر 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت خان کی حراست کو رد کر دیا تھا اور ان کی فوراً رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اے ایم یو میں ان کی تقریر نفرت یا تشدد کو بڑھاوا نہیں دیتی۔اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے گزشتہ دسمبر میں سی جےآئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ کے ذریعے خارج کر دیا گیا۔
ابھی خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے ریاستی سرکار کوخط لکھ کر ان سے گورکھپور کے بابا راگھو داس (بی آرڈی) میڈیکل کالج میں اپنے عہدےپر دوبارہ بحال کرنے کی گزارش کی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں