فکر و نظر

اڈانی گروپ کے گودام میں گیہوں نہ رکھنے سے ہو ئے نقصان کی کیگ رپورٹ کو ہٹانے کی کوشش میں ہے مودی حکومت

خصوصی رپورٹ : سال 2018 میں سی اے جی (کیگ) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2013-14 سے 2015-16 کے بیچ ایف سی آئی نے ہریانہ کے کیتھل میں اڈانی گروپ کے گودام میں اس کی صلاحیت  کے مطابق  گیہوں نہیں رکھا اور خالی جگہ کا کرایہ بھرتے رہے۔ مودی حکومت  اب اس رپورٹ سے یہ بات ہٹوانے کی کوشش کر رہی ہے۔

Modi-Adani-1

نئی دہلی:مرکز کی مودی حکومت سی اے جی(کیگ)کی اس رپورٹ میں ترمیم  کرانے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں کیگ نے ایف سی آئی کی  سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہریانہ کےکیتھل واقع اڈانی سائلو میں منظور شدہ مقدار میں اناج نہ رکھنےکی وجہ سےٹیکس دہندگان  کا 6.49 کروڑ روپے کا بے جا خرچ ہوا ہے۔

امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت ، جس کے تحت ایف سی آئی آتا ہے، نے کیگ کو خط لکھ کر مانگ کی ہے کہ اس پیراگراف کو رپورٹ سے ہٹایا جانا چاہیے۔وزارت  نے دعویٰ کیا ہے کہ جس بنیاد پر اس اضافی  خرچ کاتخمینہ  کیا گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ حالانکہ کیگ نے ان دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دی  وائرکوآر ٹی آئی قانون کے تحت حاصل  88 صفحے کے انٹرنل دستاویزوں سے یہ پتہ چلا ہے۔

ان فائلوں میں شامل کیگ کی ڈرافٹ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2013-14 سے 2015-16 کے بیچ اس گودام کے لیے بھی اڈانی کمپنی کو 24.28 کروڑ کی ادائیگی کی گئی ، جس کا ایف سی آئی نے کبھی استعمال ہی نہیں کیا تھا۔

اس دوران 11 مہینوں میں اڈانی سائلو میں کل 5.18 لاکھ ٹن جگہ خالی پڑی رہی، لیکن ایف سی آئی نے اس میں گیہوں نہیں رکھا اور وہ خالی جگہ کا کرایہ بھرتے رہے تھے۔

کیا ہے معاملہ

فوڈ کارپوریشن آف انڈیا ہر سال اپنی اور ریاستی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے ذریعےگیہوں کی خریداری  کرتا ہے۔ ریاست کی ایجنسیاں خریداری  سیزن کے بعد سارا سٹاک ایف سی آئی کو ہینڈاوور کر دیتی ہیں۔

اگر اناج رکھنے کے لیے ایف سی آئی کے پاس جگہ نہیں بچتی ہے تو ریاستی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اپنے سائلو یا گودام میں گیہوں رکھتی ہیں، جس کے بدلے میں ایف سی آئی حکومت ہند کے ذریعے طے کی گئی رقم کی ادائیگی  کرتی ہے۔

اسی سلسلے میں سال 2007 میں ایف سی آئی نے ہریانہ کے کیتھل میں اڈانی ایگرو لاجسٹک لمٹیڈ کے سائلو میں دو لاکھ ٹن گیہوں کے ذخیرہ  کے لیےرابطہ کیا۔

اس کے لیے فروری2013 میں ایک معاہدہ  ہوا، جس میں یہ طے کیا گیا کہ گیہوں رکھنے کے لیے ایف سی آئی ہر سال فی ٹن 1842 روپے کی شرح سے کمپنی کو ادائیگی کرےگی۔ بعد میں ستمبر 2014 میں اسے بڑھاکر 2033.40 روپے فی  ٹن کر دیا گیا۔

خاص بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ گارنٹیڈ ٹن(Guaranteed Tonnage)کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگردو لاکھ ٹن گیہوں رکھنے کے لیے کے لیے معاہدہ  ہوا ہے، تو ہر سال پورے دو لاکھ ٹن کی ادائیگی  کرنی ہوگی، چاہے اس سے جتنا بھی کم گیہوں رکھا جائے۔

اڈانی گروپ کےبنائے گئے سائلو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Adani Agri Logistics Limited)

اڈانی گروپ کےبنائے گئے سائلو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Adani Agri Logistics Limited)

اس کو لے کر کیگ نے سال 2018 کی رپورٹ نمبر 4 میں بتایا تھا کہ ایف سی آئی نے ریاستی حکومت اوراس کی ایجنسیوں کے گوداموں یا سائلو میں ہی گیہوں رہنے دیا اور اسے اڈانی سائلو میں شفٹ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سےایک طرف اڈانی سائلو میں خالی جگہ کی بھی ادائیگی کرنی پڑی اور ریاست  کے گوداموں میں گیہوں رکھنے سے ٹیکس دہندگان  کے 6.49 کروڑ روپے اضافی  خرچ ہوئے جس کو بچایا جا سکتا تھا۔

کیگ نے کہا کہ 2013-14 سے 2015-16 کے بیچ کیتھل سائلو کئی بار خالی پڑا رہا، 14 اپریل 2014 کو یہ 1.33 لاکھ ٹن (کانٹریکٹ کے مقابلے میں 67 فیصدی)خالی پڑا رہا۔ جبکہ پیہووا، پنڈری اور پائی میں ریاست کے گوداموں میں گیہوں پڑا ہوا تھا۔

سال 2013-14 کے دوران آٹھ مہینے اور سال 2014-15 کے دوران تین مہینے سائلو میں صلاحیت کے مقابلے گیہوں کا اسٹاک کم تھا۔کیگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے گوداموں کے مقابلے میں سائلو میں گیہوں رکھنا سستا ہوتا ہے۔ اس لیے ٹیکس دہندگان  کے پیسے بچانے کے لیےیہ کرنا ضروری تھا۔

حالانکہ مودی حکومت کا ماننا ہے کہ کیگ کا یہ تخمینہ صحیح  نہیں ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔

کیگ رپورٹ

بتادیں کہ 28 اکتوبر 2018 کو وزارت نےخط لکھ کر کہا کہ کیگ نے یہ اندازہ  اس بنیاد پر کیا ہے کہ کیتھل میں اڈانی سائلو کو ہر سال گارنٹیڈ دو لاکھ ٹن کی ادائیگی کی گئی  ہے۔جبکہ ایف سی آئی نے گارنٹیڈ ٹن کی مقدار2013-14 میں گھٹاکر 1.90 لاکھ ٹن، 2014-15 میں 1.41 لاکھ ٹن اور سال 2015-16 میں 1.33 لاکھ ٹن کر دی تھی۔ اس لیے اضافی ادائیگی کی بات صحیح  نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،‘گودام کے خاطر خواہ استعمال  کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر وقت اس کی پوری صلاحیت  کا استعمال کیا جا سکے۔ کچھ جگہ ضرور خالی ہوگی جب اسٹاک کو یہاں سے نکالا جاتا ہے۔ چونکہ گیہوں کی خریداری صرف دو مہینے کے لیے ہوتی ہے اورا سٹاک نکالنے کا کام  ہر مہینے ہوتا ہے، اس لیے صلاحیت کے استعمال میں گراوٹ اگلے خریداری سیزن تک جاری رہتی ہے۔’

امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت نے کہا کہ آڈٹ کے دوران اس بات کو دھیان میں نہیں رکھا گیا ہے کہ سائلو میں گیہوں رکھنے سے 0.25 فیصدی اناج  کا نقصان ہوتا ہے، اس لیے ریاستی حکومت کے گودام میں گیہوں رکھنے سے بالواسطہ طور پر0.25 فیصدی کی بچت ہوئی ہے۔

وزارت نے کہا، ‘اس کے علاوہ ریاستی حکومت کے گوداموں سے ایک جولائی سے پہلے اسٹاک نکالنے پر ایف سی آئی کو ایک فیصدی کا نفع نہیں ملتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سائلو میں گیہوں رکھنے سے کل 1.25 فیصدی کا نقصان ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی  حکومت کے گوداموں سے اسٹاک کو سائلو تک لے جانے میں بھی کافی خرچ ہوتا۔’

Adani Silos CAG Report by The Wire

حکومت کی ان دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے کیگ نے 14 دسمبر 2018 کو دیے اپنے جواب میں کہا کہ ایف سی آئی کی  اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے کہ انہوں نے گھٹے ہوئے گارنٹیڈ ٹن کی بنیاد پر ادائیگی کی ہے کیونکہ سائلو کی صلاحیت  دو لاکھ ٹن کی تھی اور اتنا گیہوں اس میں رکھا جا سکتا تھا۔

کیگ نے کہا، ‘اضافی  خرچ کااندازہ  اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ سائلو کی کل صلاحیت، جو دو لاکھ ٹن تھی، میں سے کتنے ٹن کا استعمال کیا گیا ہے۔انتظامیہ  کی یہ دلیل صحیح  ہے نہیں ہے کہ انہوں نے 2013-14 کے دوران 1.90 لاکھ ٹن، 2014-15 میں 1.41 لاکھ ٹن اور 2015-16 میں 1.33 لاکھ ٹن کے لیے ادائیگی کی ہے کیونکہ سائلو کی صلاحیت  دو لاکھ ٹن کی تھی۔’

اگر کل صلاحیت کے بجائے گارنٹیڈ ٹن کی بنیاد پر بھی اڈانی سائلو میں گیہوں کے مقدار کو دیکھا جائے تو دستاویزوں کے مطابق مالی سال2013-14 میں آٹھ مہینے اپریل میں 10693 ٹن، ستمبر میں 9733 ٹن، اکتوبر میں 27812 ٹن، نومبر میں 45771 ٹن، دسمبر میں 67001 ٹن، جنوری میں 90887 فروری میں 99807 ٹن اور مارچ میں 117951 ٹن جگہ خالی پڑی تھی۔

اسی طرح مالی  سال2014-15 میں تین مہینے جنوری میں 2083، فروری میں 17355 اور مارچ میں 29573 ٹن جگہ خالی پڑی تھی۔ اس خالی جگہ کے لیے بھی حکومت نے 15.35 روپے فی  کوئنٹل فی  مہینے کی شرح  سے اڈانی ایگرو لاجسٹک لمٹیڈ کے لیےادائیگی  کی ہے۔

کیگ نے اپنےخط میں آگے کہا، ‘آڈٹ میں نقصان کا اندازہ  کرتے ہوئے اسٹاک کو لےکر جانے میں آنے والے خرچ کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے پنجاب میں21 لاکھ ٹن کے اسٹیل سائلو کی تعمیر کی منظوری (جیسا کہ ان کے ہی ایک جواب میں بتایا گیا ہے)دی ہے۔ اگرسائلو میں اناج  رکھنے سے 1.25 فیصدی کا نقصان ہوتا ہے تو حکومت اپنے جواب کی بنیاد پر ہی اس نقصان کو بچا سکتی تھی۔’

کیگ نے کہا کہ اناج  کو ریاست کے گوداموں سے لے جانے میں 11.04 روپے سے لےکر 16.54 روپے فی  کوئنٹل اور بوری میں بھرنے اور اسے خالی کرنے میں 2.11 روپے سے 2.85 روپے فی  کوئنٹل کا خرچ آتا ہے۔ اس طرح گوداموں سے سائلو تک اسٹاک ٹرانسفر کرنے میں کل 13.15 سے 19.39 روپے کا خرچ آتا۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ریاستی حکومت کے گوداموں میں اسٹاک رکھنے پر 20.91 سے 23.29 روپے فی  کوئنٹل کا خرچ آتا ہے، اس طرح کیتھل واقع اڈانی سائلو میں گیہوں رکھنے سے 2.7 سے 9.0 روپے فی  کوئنٹل بچایا جا سکتا تھا۔

کیگ نے کہا کہ یہ پیراگراف ہٹایا نہیں جا سکتا ہے اور ان کااندازہ صحیح ہے۔

د ی وائر کو ملےدستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ خود فوڈ کارپوریشن آف انڈیا نے ہریانہ کے اپنے علاقائی دفتر کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اناج کے اسٹاک  کے لیے سائلو ایک ماڈرن سسٹم  ہے، جو نقصان کو کم کرتا ہے اور اناج  کے معیار کو بنائے رکھتا ہے۔

ایف سی آئی کا وہ خط جس میں کہا گیا ہے کہ سائلو میں اناج  رکھنے سے کم نقصان ہوتا ہے۔

ایف سی آئی کا وہ خط جس میں کہا گیا ہے کہ سائلو میں اناج  رکھنے سے کم نقصان ہوتا ہے۔

کارپوریشن  کے اسسٹنٹ جنرل منیجر مندیپ گرے نے 27 مارچ 2019 کو پنچکولہ کے اپنے آفس کے جنرل مینجر کو لکھے خط میں کہا، وزارت نے جانکاری مانگی ہے کہ سال 2013-14 کے دوران آٹھ مہینے اور سال 2014-15 کے دوران تین مہینے تک کیتھل سائلو خالی پڑا تھا، جبکہ ریاستی حکومت کے گوداموں میں کافی مقدار میں گیہوں پڑا ہوا تھا۔ سائلو اسٹاک  کا جدید طریقہ ہے، جو اناج  کےتحفظ  کو یقینی بناتا ہے، نقصان کو کم کرتا ہے اور اناج کے معیار کو بنائے رکھتا ہے۔ اس لیےاسٹاک  کے لیے روایتی گودام کی جگہ سائلو کو ترجیح  دی جانی چاہیے۔’

حالانکہ اس کے بعد بھی وزارت نے پرانی دلیلوں کو ہی دہراتے ہوئے 18 فروری 2019 کو ایک اور خط بھیجا اور کیگ سے اس کو ہٹانے کی مانگ کی۔

خاص بات یہ ہے کہ اس بار حکومت نے 1.25 فیصدی نقصان کی بات نہیں دہرائی اور اسے دوسرے طریقے سے رکھتے ہوئے کہا کہ اس ‘خصوصی معاملے’ میں سائلو کی جگہ ریاستی حکومت کے گوداموں میں ہی گیہوں رکھنے سے منافع ہوا ہے۔

ایک طرف جہاں وزارت  اضافی  خرچ کرنے کو لےکر کیگ کے اس اندازےکوقبول نہیں کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ ایف سی آئی کو ہدایت دی گئی  ہے کہ وہ  مستقبل میں کیتھل سائلو کوہی  بھرا رکھیں۔

وزارت نے کہا، ‘حکومت اسٹاک  کوجدید کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ پہلے کے روایتی  گوداموں میں اناج رکھنے سے ہونے والی چوری، نقصان وغیرہ  سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ ایف سی آئی کو ہدایت  دی گئی  ہے کہ وہ  مستقبل میں کیتھل سائلو کو مکمل طور پربھرنے کے لیے تمام  قدم اٹھائیں۔’

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت اس بات کو لےکر پوری طرح مطمئن  ہے کہ ریاست کے گوداموں میں رکھنے سے اسے منافع ہوا ہے، جیسا کہ کیگ کو لکھےخط میں انہوں نے کہا ہے، تو کیتھل سائلو پوری طرح بھرنے کی ہدایت کیوں دی گئی  ہے۔

اڈانی سائلو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Adani Agri Logistics Limited)

اڈانی سائلو۔ (فوٹوبہ شکریہ: Adani Agri Logistics Limited)

کیگ کی سرزنش  کے بعد وزارت کے انڈر سکریٹری مدن موہن موریہ نے 18 فروری 2019 کو ایف سی آئی کے چیئرمین اور جنرل مینجر کوخط لکھ کر کہا کہ وہ  کیتھل واقع  اڈانی سائلو کو بھرنے کے لیے تمام قدم اٹھائیں، کیونکہ یہ اسٹاک  کا جدید طریقہ ہے اور اس میں کم نقصان ہوتا ہے۔

کیگ نے 26 فروری 2019 کو دیے اپنے جواب میں ایک بار پھر سے کہا کہ بھلے ہی گارنٹیڈ ٹن کو کم کر دیا گیا ہو، لیکن سائلو کی صلاحیت دو لاکھ ٹن تھی، اس لیے وزارت کی دلیل صحیح  نہیں ہے اور یہ پیراگراف نہیں ہٹایا جائےگا۔

اس کے بعد بھی وزارت اور ایف سی آئی کے بیچ خط وکتابت ہوتی رہی کہ کیگ کا یہ اندازہ صحیح ہے یا نہیں۔ پچھلے سال 21 اپریل 2020 کو وزارت نے ایک بارپھرخط لکھا، جس کے جواب میں ایف سی آئی نے چھ دسمبر 2019 کو بھیجے اپنے جواب کو دہرایا تھا۔

کارپوریشن نے کہا کہ اگر کیگ کی رپورٹ کو فالو کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اڈانی سائلو ہر مہینے 100 فیصدی تک بھرا رہے۔اگر ایف سی آئی ایسا کرتی ہے تو اگلے خریداری  سیزن میں اڈانی سائلو پر کسانوں سے سیدھی خریداری  نہیں ہو پائےگی، کیونکہ یہاں رکھنے کے لیے جگہ نہیں بچےگی۔

انہوں نے کہا، ‘سائلو پر کسانوں سے کثیر مقدارمیں خریداری  کرنے سے منڈی میں لگنے والے ٹیکس، جیسے کہ بوریوں پر مہر لگانا، بوری میں گیہوں بھرنا، اسے تولنا، بوری سلنا، پھر اسے خالی کرنا،آمد ورفت کی بچت ہوتی ہے۔’

ایف سی آئی کے علاقائی دفترکے ذریعے کرائے گئے تخمینہ ، جس میں بتایا گیا ہے کہ نقصان کو روکنے کے لیے کیتھل سائلو کو بھرنا ضروری ہے۔

ایف سی آئی کے علاقائی دفترکے ذریعے کرائے گئے تخمینہ ، جس میں بتایا گیا ہے کہ نقصان کو روکنے کے لیے کیتھل سائلو کو بھرنا ضروری ہے۔

ایف سی آئی کا کہنا ہے کہ کیگ نے اڈانی سائلو میں دو لاکھ ٹن کی صلاحیت کی بنیاد پر نقصان کااندازہ  کیا ہے، جبکہ دو لاکھ ٹن کے لیےادائیگی نہیں کرنی تھی۔ سال در سال گارنٹیڈ ٹن کی مقداد کم کر دی گئی تھی۔

حالانکہ کیگ کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ اڈانی سائلو کی صلاحیت  کے برابر گیہوں رکھنے کے بجائے ایف سی آئی نے ریاستی حکومت کے گوداموں میں گیہوں رکھا، جس کی وجہ سے ان گوداموں کو بھی ادائیگی  کرنی  پڑی اور اس طرح حکومت نے اضافی  خرچ کیا۔

اس طرح کیگ نے جس نقصان کا اندازہ  کیا ہے وہ ریاستی حکومت کے گوداموں کو کی گئی  ادائیگی پرمبنی  ہے، نہ کہ اڈانی سائلو میں خالی جگہ کی ادائیگی  کرنے کو لےکر ہے۔

دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیگ ہی نہیں، بلکہ جنوری 2014 میں ایف سی آئی کے ریجنل آفس ہریانہ نے اپنے ضلع دفترکے ذریعے تخمینہ  کرانے کے بعد ایف سی آئی ہیڈکوارٹر سے سفارش کی تھی کہ نقصان سے بچنے کے لیے ریاستی حکومت کے گوداموں میں رکھے اسٹاک کو کیتھل سائلو میں ٹرانسفر کیا جانا چاہیے۔

جبکہ کیگ  نے اپنے اندازےمیں بتایا تھا کہ اڈانی سائلو میں اسٹاک ٹرانسفر نہیں کرنے کی وجہ سے فی  کوئنٹل پر اضافی  2.7 روپے سے 9.0 روپے تک  خرچ ہوئے ہیں۔

حالانکہ کیگ کے مطابق ایف سی آئی اس سمت میں کوئی قدم اٹھانے میں ناکام  رہی، جس کی وجہ سے اپریل 2013 سے اکتوبر 2016 کے بیچ ریاستی  حکومت کے گوداموں کو 6.49 کروڑ روپے کی  اضافی ادائیگی  کرنی پڑی، جسے بچایا جا سکتا تھا۔

دستاویزوں کے مطابق اس دوران ریاستی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے پیہووا، پنڈری اور پائی گوداموں میں 43 مہینوں میں رکھے گئے کل 43.84 لاکھ ٹن کے لیےادائیگی  کی گئی  تھی۔ ان گوداموں کو فی کوئنٹل 20.91 روپے سے 23.29 روپے کی شرح  سے ادائیگی  ہوئی  تھی۔

ہریانہ کے پنچکولہ  واقع  ایف سی آئی کے ریجنل آفس نے نئی دہلی واقع اپنےہیڈکوارٹر کے جنرل منیجر(ایس اینڈ سی) کو 14 اگست 2018 کو لکھےخط میں دعویٰ کیا تھا کہ کیگ کے اندازہ  کے برعکس ریاست کے گوداموں میں گیہوں رکھنے سے کارپوریشن کو 2013-14 میں 1.59 کروڑ روپے اور 2014-15 میں 42.23 لاکھ روپے کا فائدہ ہوا ہے۔

Adani Silos CAG report by The Wire

محکمہ  نے یہ آندازہ  1.25 فیصدی کے ممکنہ منافع کے فارمولہ کی بنیاد پر نکالا تھا، جسے کیگ نے خارج کر دیا تھا۔ کیگ نے کہا تھا کہ اگر سائلو میں اناج رکھنے سے نقصان ہی ہوتا ہے تو حکومت سائلو بنانے کو منظوری کیوں دے رہی ہے۔

کیگ نے کہا ہے کہ بھلے ہی وزارت کوشش کرتی رہے لیکن وہ اس بات کو اپنی رپورٹ سے نہیں ہٹائیں گے۔

کیگ کے میڈیا ایڈوائزر بی ایس چوہان نے د ی وائر سے کہا، ‘ہم ایک بار اپنی رپورٹ صدر جمہوریہ کو سونپ دیتے ہیں، اس کے بعد اس میں کسی بھی طرح کی ترمیم نہیں ہوتی، نہ تو کوئی پیرا ہٹایا جا سکتا یا اسے ایڈیٹ کیا جائےگا۔ ہماری رپورٹ فائنل ہوتی ہے، بھلے ہی وزارت اسے ہٹانے کی بات کرتی رہے۔’

بدلتے رہے ایف سی آئی کے بیان

دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کیگ نے اپنی ڈرافٹ رپورٹ میں کیتھل سائلو میں خاطر خواہ  گیہوں نہ رکھنےکی وجہ سے 5.46 کروڑ روپے کے غیر ضروری خرچ کا تخمینہ  نکالا تھا، حالانکہ فائنل رپورٹ میں یہ خرچ 6.49 کروڑ روپے بتایا گیا ہے۔

اس کو لےکر جب پہلی بار کیگ نے جواب مانگا تھا تو ایف سی آئی نے سال 2014 کی ایک بیٹھک کے فیصلوں  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ریاست کے گوداموں سے اڈانی سائلو میں گیہوں لے جانے کی اجازت ہی نہیں تھی۔

ایف سی آئی کے ریجنل آفس، ہریانہ نے ایک اگست 2017 کو بھیجے اپنے جواب میں کہا، ‘برائے کرم 07.03.2014 کو ہوئے بیٹھک کانوٹس لیں جس میں کہا گیا ہے کہ ایف سی آئی کو سیدھے اناج  پہنچانے کا مطلب ریاست  کی ایجنسیوں کے ذریعےمتعلقہ منڈیوں کی جانب سے خریدے گئے گیہوں کو پہنچانا ہے، نہ کہ ریاست کی ایجنسیوں کے گودام سے بھیجنا۔ اس لیے حکومت کے اس خط کے مطابق ریاستی حکومت کے گوداموں سے اڈانی سائلو پر گیہوں پہنچانامنع تھا۔’

دفتر نے کہا کہ اس بنیاد پر اضافی  خرچ کے تخمینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔

حالانکہ کیگ نے اس دلیل کو سرے سے خارج کیا اور کہا اس جواب کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ کیگ کا اندازہ  اس بات پر مبنی ہے کہ خریداری  سیزن مکمل ہونے کے بعد کیوں اڈانی سائلو سے اسٹاک نکال کر اسے خالی کیا گیا، جبکہ خالی جگہ کے لیے ادائیگی کی جاتی رہی۔

Adani Silos CAG report by The Wire

کیگ نے کہا، ‘ایف سی آئی نے جن ہدایات  کا حوالہ  دیا ہے، وہ خریداری  سیزن کے دوران ریاستی  حکومت کے گوداموں سے صرف سیدھے ایف سی آئی کو اناج ٹرانسفر کرنے سے جڑا ہے۔ چونکہ ایف سی آئی کیتھل سائلو کے لیے بھاری بھرکم ادائیگی  کر رہی ہے، اس لیےاس جگہ کا استعمال کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھانا چاہیے تھا۔’

اس کےبعد ایف سی آئی نے الگ الگ طرح  کی دلیلیں دینی شروع کی۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کے گوداموں میں گیہوں رکھنے سے 1.25 فیصدی کامنافع ہوا ہے۔ اس پر جب کیگ نے کہا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو حکومت سائلو کیوں بنا رہی ہے، تو ایف سی آئی نے پھر اپنی بات بدلی اور کہا کہ وہ صرف اس ‘خصوصی معاملے’ کی بات کر رہے ہیں۔

حالانکہ اسی بیچ وزارت اور ایف سی آئی نے خط لکھ کر سائلو سسٹم  کی پیروی کی اور کہا کہ روایتی  گوداموں کے مقابلے سائلو میں نقصان کم ہوتا ہے۔

دی  وائر نے اس پورے معاملے کو لے کرمحکمہ فوڈ اینڈ پبلک ڈسٹری بیوشن اور ایف سی آئی سے سوال پوچھے ہیے، لیکن اب تک ان کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ کوئی ردعمل  ملنے پر اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔