سی پی آئی(ایم) نے بنگال میں طویل عرصے سے چلی آ رہی ہندورائٹ ونگ کے رجحانوں سے لڑنے میں اپنی ناکامی پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے بہت آسانی سے مذہبی پولرائزیشن کا سارا الزام ممتا بنرجی کودے دیا ہے۔
آج سے دو مہینے بعد بنگال کے اسمبلی انتخاب کا جو بھی نتیجہ ہو، لیکن یہ ہمیں اس معاملے پر دوبارہ سوچنے کو مجبور کرتا ہے جس کو ختم سمجھا جا چکا تھا۔ کئی لوگ شاید یہ مانتے تھے کہ ملک کے دیگر حصوں میں(بالخصوص ہندی بولنے والی ریاستوں میں)سیاست میں موجود فرقہ واریت سے بنگال میں ڈھنگ سے مقابلہ کیاجائےگا۔ کئی تو بنگالی مستثنیات کے پرکشش خیال میں امکانات بھی دیکھ رہے تھے۔
بے شک اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ یہ یقین سال 2014 تک کئی معنوں میں صحیح تھا۔ آگے یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ ایک دہائی پہلے ممتا بنرجی کےبائیں بازو( لیفٹ) کے 34 سال کے اقتدار کو ختم کرنے پر آئے توازن کے ساتھ بھی بنیادی سیاسی اورسماجی ڈھانچہ برقرار رہا تھا۔
ریاست کے اقتدار کی اعلیٰ اکائی میں ہوئی تبدیلی نے ملک کی27فیصد مسلم آبادی کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا تھا، جس نے اپنی وفاداری مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی، ایم )سے ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)کی طرف موڑ دی تھی۔
اگر سی پی آئی(ایم) کا سیاسی وجودخطرے میں تھا، پھر بھی لیفٹ کی سیاسی فرہنگ کہیں غائب نہیں ہوئی تھی۔ سنگور اور نندی گرام میں سی پی آئی (ایم)کے جبراً حصول اراضی کے خلاف ہوئی کسانوں کی تحریک پر سوار ہوکر اقتدار تک پہنچی ممتا نے خود کو حقیقی ‘لیفٹ’ کے طور پر پیش کیا۔
حالانکہ تب سے تیزی سےرائٹ ونگ جھکاؤ اور ہندو رائٹ ونگ کے دوبارہ کھڑے ہونے نے بنگال کے اچھے سمجھے جانے والےسیاسی توازن کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ اور سی پی آئی (ایم)نے بہت آرام سے مذہبی پولرائزیشن کا سارا الزام ممتا بنرجی کو دے دیا۔ اس نے بنگال میں طویل عرصے سے چلی آ رہی ہندورائٹ ونگ رجحانوں ، جس نے ریاست میں لیفٹ اور اتنی ترقی پسند سیاست کے ہوتے ہوئے فرقہ واریت (ذات پاب کا ذکر نہ ہی کریں)کی بنیاد تیار کی،سے لڑنے میں اپنی ناکامی پر غورکرنے سے ہی انکار کر دیا۔
سال 2018 سے 2020 کے بیچ بنگال کےمختلف لوگوں سے ہوئی بات چیت کی بنیاد پر کہوں تو اقتدار پر نظر گڑائے لیفٹ سے رائٹ کی جانب ہوئی یہ تبدیلی اتنی بھی عجیب نہیں ہے، جتنا کچھ لوگوں کو لگ رہی ہے۔ سی پی آئی ایم کے ایک گروپ نے پرمود داس گپتا اور جیوتی باسو کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے مجھ سے کہا کہ وہ‘ہندو راشٹر’کے تصور کی حمایت کرتے ہیں۔
انہیں سی پی آئی (ایم)کی حمایت کرتے ہوئے ہندو راشٹر کے تصور کے تئیں کشش یابی جے پی کی حمایت کرنے کا تضاد اس لیے نظر نہیں آیا کیونکہ یہ ہندوؤں کے ‘مفاد’میں ہے۔ یہ جذبات بنگالی بھدرلوک تک محدود نہیں تھے،یہ طبقات اور ذات پات کی درجہ بندی میں اسی طرح پھیلا ہوا ہے۔
اسی مقام پر بنگال کاماضی اور حال آپس میں ٹکراتا ہے۔ ہندو رائٹ ونگ کا حالیہ ظہور کئی معنوں میں تاریخ کے کئی الگ الگ صفحوں سے متعلق ہے۔
بنگال کو بائیں بازو کی نظریات والی ریاست کے طور پرمشتہرکرتے ہوئے یہ بات بھلا دی گئی کہ بنگالی شعور بھی ہندواکثریت پسندی سے ہی بنی ہوئی ہے۔اس کی چھاپ 19ویں صدی کے مفکرین اورمصنفین کے کام میں نظر آتی ہے، جو کبھی مغرب ، تو کبھی مسلمانوں کی مخالفت میں ہندو مذہب کی برتری کی پیروی کرتے ہیں۔
اس دوران ہوئے مطالعے دکھاتے ہیں کہ ریاست میں نچلی مانے جانے والی کاسٹ کی آبادی میں ہندو تنظیموں نے پیٹھ بنائی ہے۔ مبینہ نچلی کاسٹ کے ٹوٹ کر الگ ہونے کے خدشات اور اپنی سیاست کی جگہ بناتے ہوئے ہندوتوا کے مفکرین نے ‘ہندو کمیونٹی’کے آئیڈیاکو بنائے رکھنے کے لیے کڑی محنت کی ہے۔ مثال کے طور پر ریاست کی تشکیل شدہ ذات پات اور اپنے مظلوم ہونے سے واقف ہونے کے باوجود دلتوں کے کچھ طبقےخود کو اس بڑی کمیونٹی کا حصہ مانتے ہیں۔
حال ہی میں سی پی ائی (ایم ایل)کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے ایک انٹرویو میں ایک اہم بات کہی۔ ان کی باتیں بنگال کی موجودہ سیاست کی باریکی کو دکھاتے ہیں۔ بھٹاچاریہ نے کہا کہ بنگال اسمبلی انتخاب کو صرف اقتدار مخالف لہر کے چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے اور اس بات کو بی جے پی کے ظہور کی واحد وجہ نہیں مانا جانا چاہیے۔
ایسا کرتے ہوئے ہم بہت آسانی سے آج کی سیاست میں لیفٹ کے رول کو بھول جاتے ہیں یا اسےحذف کر دیتے ہیں۔ ریاست میں ہندو رائٹ ونگ کے غلبے کا اندازہ کرتے ہوئے سیاست کے تمام فرقوں کی سیکولر پارٹیوں کے ‘کیڈر’ کے سافٹ ہندوآئزیشن اور لیفٹ کی طرف سے اس کو دی جانے والی خاموش حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بی جے پی نے 2019 کے عام انتخابات میں بےحد فرقہ وارانہ مہم چلائی تھی، جس کانتیجہ42 میں سے 18 سیٹوں پر جیت کے طور پر ملا۔بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں اورممتا کی‘خوش کرنے والی سیاست’ کے خلاف جارحانہ حملے گویا لوگوں کےدل کی بات کہتے دکھے۔
بی جے پی کابنیادی ایجنڈہ نظریات کا ہے۔ بنگال لڑائی کا وہ میدان ہے جو پارٹی کے دیرینہ پروجیکٹ کی توسیع کے لیے ضروری ہے۔ نریندر مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے شاید2021 کا بنگال اسمبلی انتخاب بی جے پی کا سب سے اہم انتخاب ہے۔
جیسا بھٹاچاریہ نے کہا کہ ان انتخابات کو صرف اقتدار کے مدعوں کے ارد گرد ہونے والی لڑائی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اورجیسا کہ بی جے پی صاف کر ہی چکی ہے، اصل لڑائی آئیڈیالوجی کی ہے۔ لیفٹ میں کئی لوگوں کے لیے اس بات کو قبول کرپانا مشکل کیوں ہے؟
ابھیشیک بنرجی کو لےکر ہوا تنازعہ ، ٹی ایم سی سے بی جے پی میں پہنچے ڈھیروں رہنما پارٹی کی نظریاتی تبدیلیوں کو چھپانے کا ذریعہ بھر ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں اور بنگلہ دیشیوں کے خلاف ہندو شعورکھلے طور پر ایک ساتھ سامنے آیا ہے۔ عوامی اعتقاد کےخلاف پچھلی ایک دہائی میں ممتا نے زمین پر کام کیا ہے بھلے ہی لڑکھڑاتے ہوئے۔ انہوں نے فلاحی منصوبوں کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں فائدہ ملےگا۔ لیکن کیا یہ ممتا کو تیسری بار اقتداردلانے کے لیے کافی ہے؟
المیہ یہ ہے کہ ممتا کی‘خوش کرنے والی سیاست’ کے خلاف کھڑی ہونے والی سی پی آئی (ایم)نے عباس صدیقی کے انڈین سیکولر فرنٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔ یہ نام ہی اپنے آپ میں جھوٹا ہے۔ صدیقی اپنے شدت پسند اور فرسودہ مذہبی نظریات کے لیے معروف ہیں، جنہیں وہ ماضی میں عوامی طور پر پیش کر چکے ہیں۔
سی پی آئی (ایم) کا ایسی پارٹی کے ساتھ جانا اس طرح کے اتحادکے پیچھے کے اصل مقصد پر سوال اٹھاتا ہے۔ کیا یہ عجیب و غریب اتحاد کسی بھی طرح سے سی پی آئی (ایم)کی بنگال کے مسلمانوں کے لیے تشویش کو دکھاتا ہے؟
سچر کمیٹی کی 2006 کی رپورٹ کے سخت تبصروں سے سب واقف ہیں۔ بنگال کو ‘سب سے خراب مظاہرہ ’ کرنے والی ریاستوں کےخانے میں ڈالتے ہوئے رپورٹ نے ریاست کی سرکاری نوکریوں اور عدلیہ میں مسلمانوں کی بےحد خراب خدمات کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس وقت ایک مسلم تنظیم جمیعت علما کے انور عبیداللہ چودھری نے اس پر کہا تھا، ‘سچر کمیٹی کی رپورٹ ان مسلمانوں کے لیے آنکھیں کھولنے والی رہی ہے جو لگاتار (بنگال میں)لیفٹ مورچے کی سرکار کے ساتھ کھڑے تھے۔’
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جیوتی باسو سرکار نے تسلیمہ نسرین کے ناول‘دوئی کھنڈتو ‘پر پابندی لگائی تھی اور ان کے بعد آئے بدھادیب بھٹاچاریہ کی انتظامیہ نے کسی مسلم تنظیم کے احتجاج کے بعد اس بنگلہ دیشی مصنفہ کو آدھی رات میں ریاست سے باہر کر دیا تھا۔ کیا ان کارروائیوں کو خوش کرنے والی سیاست’ کا نام دیا جا سکتا ہے؟ کیاسی پی آئی (ایم )کی موجودگی محض سے صدیقی کے ساتھ ہواتحاد‘سیکولر’ ہو جاتا ہے؟
کم سے کم پارٹی کے کچھ مرکزی رہنماؤں کا تو دعویٰ ہے کہ ان کا کانگریس اور صدیقی کے ساتھ اتحاد بہت سے اقتدار مخالف لہر کوبی جے پی سے دور ان کی طرف لاتے ہوئے ممتا بنرجی کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو 2019 کےانتخاب کے الٹ اس بار سی پی آئی (ایم )کے پارٹی کارکن بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن اگر پارٹی بی جے پی کی ہارکی اتنی خواہش رکھتی ہے تو پہلے ہی آگے آکر ممتا کی حمایت کیوں نہیں کر رہی ہے؟
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر