جیلیں جرم کی بنیاد پر قیدیوں کی درجہ بندی کر سکتی ہیں، لیکن جیلوں بالخصوص خواتین جیلوں میں درجہ بندی کا تعین صرف جرائم سے نہیں ہوتا ۔ یہ صدیوں کی روایات اور اکثر مذہب کی اخلاقی لکشمن ریکھاکو پار کرنے سے وابستہ ہے۔ ایسے میں ہندوستانی خواتین جب جیل جاتی ہیں تب وہ اکثر جیل کےاندر ایک اور قید خانےمیں داخل ہوتی ہیں۔
یہ مضمون ‘بارڈ دی پریزن پروجیکٹ’ سیریز کے حصہ کے طور پر پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں پیش کیا گیا ہے۔
صرف ایک پنکھے اور ایک بلب کی ضرورت والے ایک چھوٹے سے کمرے میں45 عورتوں کو رکھنے کے لیے پریسڈنسی کوریکشنل ہوم کے حکام نے ایک ترکیب نکالی کہ عورتوں کے بدن کا سائزلےکر انہیں ان کی سائز کے مساوی سونے کی جگہ مختص کرنے کی۔ یہ واقعہ اپراجیتا بوس نے سنایا۔
جیلوں میں وقت گزارنے والوں سےاکثر بات چیت میں جو ایک عمومی شکایت سننے کو ملی وہ تھی؛پرائیویسی کی عدم موجودگی ۔مینا کہتی ہیں،‘وہاں کبھی بھی سکون نہیں تھا۔ میں سکون کے لیے عبادت کرتی تھی یا ایک ایسےلمحہ کے لیے جب کوئی میری طرف نہ دیکھ رہا ہو۔’
مینانے جہیزسےمتعلق ایک معاملے میں چار سال شاہجہاں پور ضلع جیل میں گزارے۔ بعد میں یہ معاملہ واپس لے لیا گیا۔
‘آپ کو کان میں مچھر کےبھنبھنانے کی آواز پتہ ہے؟ اس آواز کا تصور کیجیے، مگر سوگواری کے ساتھ۔ روتے ہوئے یا شکایت کرتے ہوئےلوگ یا قیدیوں کی سرزنش کرتے حکام …اکثر اوقات میں یہ آوازیں ہی کانوں میں پڑا کرتی تھیں۔’
مینا نے بتایا کہ 2003 میں جیل میں ایک بار پانی کی شدیدقلت ہوگئی ۔ ‘وہ شدید گرمی کا زمانہ تھا، ہم چار پانچ دنوں میں ایک بار سے زیادہ نہا نہیں پاتے تھے۔ اس پر بھی تین لوگوں پر نہانے کے لیے ایک ہی بالٹی ہوتی تھی۔ وہاں کچھ بھی آپ کا نہیں تھا یہاں تک کہ نہانے کا وقت بھی۔’
مینا بتاتی ہیں کہ جیل میں گزارے گئے چار سالوں کے دوران ان سے ملنے صرف دو بار لوگ آئے۔ یہ دونوں ملاقاتیں ان کی جیل کے پہلے سال میں ہوئیں۔
انہوں نے کہا، ‘میرا بیٹا بھی اسی معاملے میں جیل میں تھا۔ میری بیٹی ایک بار آئی اور میرا بھائی بھی۔ لیکن جیل ان کے لیے کافی دور تھی اور یہاں تک آنا بےحدمہنگا بھی تھا۔ ہمارے گاؤں سے اگر کوئی مجھ سے ملنا چاہتا تو اسے بس سے 7 گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا۔’
چونکہ ہندوستان میں خواتین جیلوں کی تعداد کافی کم ہے، اس لیےخواتین قیدیوں کو اکثر ان کے گھروں سے کافی دور قید کرکے رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں مینا جیسی قیدیوں کی بیٹی یا بھائی کا سفر کوئی ایک مثال نہیں ہے۔ قیدی خواتین سماجی کلنک (معاشرتی بدنامی)کو بھی ڈھوتی ہیں۔ انہیں قانونی طور پر ہی نہیں اخلاقی طورپر بھی مجرم مانا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ان کے اہل خانہ بھی ان کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
پینل ریفارمزاینڈ جسٹس ایسوسی ایشن کی سکریٹری اور پینل ریفارم انٹرنیشنل کی صدررانی دھون شنکرداس اپنی کتاب ‘آف وومین انسائیڈ’:پریزن وائسز فرام انڈیا (2020) میں لکھتی ہیں:
جیل، قانونی جرم کی بنیاد پرقیدیوں کی درجہ بندی کر سکتے ہیں، لیکن جیلوں کی سماجی درجہ بندی بالخصوص خواتین جیلوں میں صرف قانونی جرائم سے طے نہیں ہوتی ہے؛یہ صدیوں کے رسم ورواج،روایات اور اکثر مذہب کی سماجی اور اخلاقی لکشمن ریکھاؤں کو عبور سے متعلق ہے۔جن کے قانون سے بھی زیادہ سخت ہونے کی امید کی جاتی ہے۔
لیلایاد کرتی ہیں؛پرائیویسی کافقدان توعام بات ہے۔ ایک بار تو ایسا ہوا کہ بائیکلہ جیل کے حکام نے ایک قدم اور آگے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے خواتین کے بیرکوں میں سی سی ٹی وی لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ہم میں سے کئی قیدیوں نے اس کی مخالفت کی ہم نے کہا کہ اگر آپ سی سی ٹی وی لگانا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ کام حکام کے دفتروں میں کرنا چاہیے، جہاں قیدیوں پرتشدد ہوتا ہے اور پیسوں کا لین دین (رشوت)چلتا ہے۔
وہ کہتی ہیں،‘باہر کے حصوں اور گلیاروں میں کیمرا لگنے سے ہمیں کوئی دقت نہیں تھی۔ ہمیں بیرکوں کے اندر کیمرے لگانے سے دقت تھی۔ شدید گرمیوں میں ہم اکثر کافی کم کپڑے پہن کر سوتے تھے۔’حکام نے لیلا کو اس احتجاج کو ‘ہوا دینے والے’کے طور پر دیکھا اور انہیں سزا دینے کے لیےتنہاایک جیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن پانچ دنوں کے بعد یہ مسئلہ پریس میں آ گیا۔
‘اور اس کے بعد ایک جج جیل کا معائنہ کرنے آئے اور حکام نے عجلت میں بیرکوں کے ندر سی سی ٹی وی کیمرا لگانے کے لیے پائپ ڈالنے اور دوسری تیاریوں کو ہٹا دیا۔’
بات بس اتنی نہیں ہے کہ جیل میں کوئی آپ پر لگاتار نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ خواتین قیدیوں نے دی وائر کو بتایا کہ بات اس احساس کی بھی ہے کہ آپ کا آپ کے جسم کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر کوئی اختیار نہیں ہے۔
مینا کہتی ہے، ‘خواتین سکیورٹی اہلکاروں کے سامنے ہمیں پورے کپڑے اتارنے پڑتے تھے اور وہ ان سب جگہوں پر ہاتھ رکھتی تھیں جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ اور اس کو لےکر آپ کچھ بھی نہیں کر سکتی ہیں۔ آپ کو اپنی شدید معذوری کا احساس ہوتا ہے۔
لیلا کہتی ہے،‘اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کسی کاایام حیض چل رہا ہے۔ انہیں اپنے انڈر ویئر اتار کر ٹانگوں کو پھیلانے کے لیے کہا جاتا تھا۔’
♦
اپنے شوہر کے قتل کے بعد اپراجیتا بوس کو 13 سال (2000-2013) جیل میں گزارنے پڑے۔ بعد میں انہیں کولکاتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نےبری کر دیا۔ پریسڈنسی جیل، جہاں انہوں نے اپنی قیدکے پہلے آٹھ سال گزارےوہاں خواتین کا احاطہ، بڑے مرد جیل کے اندر ہی ہے۔
ہندوستان کی1350 جیلوں میں سے صرف 31 خواتین کے لیے محفوظ ہیں۔ اور صرف 15 ریاستوں اور یونین ٹریٹری میں الگ خواتین جیلیں ہیں۔ باقی تمام جگہوں پر خواتین قیدیوں کو مردجیلوں کے اندر چھوٹے احاطوں میں رکھا جاتا ہے جس کو جیل کے اندرقید خانہ کہا جا سکتا ہے۔
سال2019 کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کے لیےمحفوظ جیلوں کے پُر ہونے کی شرح(آکیوپنسی ریٹ) 56.09 فیصدی ہے۔ یہ ایک انحراف ہے کیونکہ ہندوستان کی جیلیں ٹھساٹھس بھری ہونے کے لیے بدنام ہیں۔
مثال کے طور پرہندوستان کی 410ضلع جیلوں کی اوسط آکیوپنسی ریٹ129.71 فیصدی ہے۔ دسمبر 2019 میں سب سے حال کے جو اعدادشمار دستیاب ہیں خواتین جیلوں کے پاس 6511 خواتین قیدیوں کو رکھنے کی صلاحیت تھی لیکن ان میں دراصل 3652 قیدی ہی رہ رہی تھیں۔
دوسری جیلوں میں خواتین کے لیے آکیوپنسی ریٹ کہیں زیادہ 76.7 فیصدی ہے، لیکن اس سے بھی یہی امیج بنتی ہے کہ خواتین قیدیوں کو جگہ کی دقت نہیں ہے۔ریاستوں کے لحاظ سے دیکھنے پر یہ اعدادوشمارمختلف ہی نظر آتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں خواتین قیدیوں کے لیےمقررہ جیلیں صلاحیت سے زیادہ پُر ہیں اور قومی اوسط دراصل اس سچائی پر پردہ ڈالنے کا کام کرتی ہے۔
جیل کو بذات خود سزا مانا جاتا ہے اور ہندوستانی جیل سسٹم بھی بحالی پرتوجہ دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن صلاحیت سے زیادہ بھیڑ کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے مسئلے بھی باوقار اورصحت مند زندگی جینے کے قیدی کے حقوق کے آڑے آتے ہیں۔
بوس کہتی ہیں،‘ہمیں سونے کے لیے صرف کمبل دیے گئے تھے گرمیوں میں دو اور جاڑے میں چھ۔’ لیکن میری جلد کمبل کے کپڑے سے الرجک تھی اس لیے مجھے ننگے فرش پر سونا پڑتا تھا۔ قیدیوں کو باہر سے کسی طرح کی چٹائی یا گدے کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی اس کو بہت بڑا ٹھاٹ باٹ سمجھا جاتا تھا۔’
سال 2000 سے 2008 کے بیچ بوس کولکاتہ کے پریسڈنسی کی قیدی تھیں(مغربی بنگال میں جیلوں کو کوریکشنل ہومز کہا جاتا ہے)۔ 2008 میں انہیں علی پورجیل میں منتقل کیا گیا، جہاں وہ اپنی رہائی تک رہیں۔پریسڈنسی میں ٹوائلٹ کمرے کے اندر تھاجس کو وہ 44 خواتین قیدیوں کے ساتھ شیئر کرتی تھیں۔ ایسے میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ صاف صفائی ایک بڑا مسئلہ تھا۔
وہ کہتی ہیں،‘خواتین باقاعدگی سے اپنے سینٹری نیپکن کو کوڑےدان کی جگہ ٹوائلٹ میں پھینک دیا کرتی تھیں …اور کسی نے بھی اس مسئلے پر توجہ کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ ہر مہینے حیض والی خواتین کو صرف 12 سینٹری نیپکن دیے جاتے تھے۔
وہ کہتی ہیں،‘اگر آپ کا حیض زیادہ ہو اور آپ کو زیادہ نیپکن کی ضرورت ہو تو وہ آپ کو بس گاز بینڈیج اور روئی دے دیا جاتا تھا، جس سے ہمیں اپنے لیے اپنا نیپکن خود تیار کرنا ہوتا تھا۔ اسے پھینکنے کے لیے صرف ایک بیگ تھا، جس کی ہر دن ٹھیک سے صفائی نہیں کی جاتی تھی۔’
ماہواری سےمتعلق صفائی ان کئی چیزوں میں سے ایک چیز تھی، جن پر خواتین قیدیوں کا کوئی بس نہیں تھا کیونکہ پریسڈنسی جیل کے اندر خواتین قیدیوں کا بیرک بڑےمرد جیل کےاندر ایک سیکشن کے طور پر تھا، اس لیے انہیں ملنے والے کھانے اور اسے پکائے جانے کے طریقے کے سلسلےمیں ان کی کوئی مرضی نہیں چلتی تھی۔
بوس یاد کرتی ہیں،‘پریسڈنسی کا کھانا بہت ہی ڈراؤنا تھا۔’اور صرف ذائقہ کی ہی بات نہیں ہے… وہ کہتی ہیں، ‘ان سالوں میں ہمیں بینگن میں کیڑے اور چاول میں الیاں ملا کرتے تھے۔’
ان کو لگتا ہے کہ علی پور میں کھانا اس سے کافی بہتر تھا۔‘وہاں قیدی جیل انسپکٹر کو کھانے کی پسند ناپسند بتا دیے کرتے تھے اور اس حساب سے ایک مخصوص ادارے(جس سے معاہدہ کیا گیا تھا)کے ذریعےکھانا بنا دیا جاتا تھا۔’
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق جیلوں کی طرف سے انہیں ملنے والے پیسے کا لگ بھگ آدھا حصہ کھانے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ (2019 میں یہ 47.9 فیصدی تھا) ماڈل پریزن دستورالعمل2016 میں روزانہ ہر قیدی کے لیے لازمی کیلوری کا اہتمام کیا گیا ہے ؛مردوں کو 2320 کیلو کیلوری سے 2730 کیلوری اور خواتین کو 1900 کیلو کیلوری سے 2230 کیلوری۔
اس دستورالعمل میں حاملہ اوردودھ پلانے والی خواتین کے لیےخصوصی اہتمام کیا گیا اور یہ قبول کیا گیا ہے کہ انہیں دوسروں سے ‘زیادہ پروٹین اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔’کیا کھانا دیا جائےگا،یہ فیصلہ ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ ہندوستان میں جیلیں‘اسٹیٹ سبجیکٹ’کے تحت آتی ہیں۔ لیکن قیدیوں کو اکثر انہیں ملنے والے کھانے کی مقدار اورمعیار دونوں کو لےکر جوجھنا پڑتا ہے۔
بتادیں کہ 26 دسمبر2011 کو ممبئی کے بائیکلہ جیل کی زیر سماعت خواتین قیدیوں نے انہیں ہر دن دیے جانے والے پانی والے کھانے کو لےکر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیل کے اندر ایک دن کی بھوک ہڑتال میں حصہ لینے والی خواتین قیدیوں میں سے ایک لیلا بتاتی ہیں،‘مہاراشٹر پریزن دستورالعمل میں کہا گیا ہے کہ خواتین قیدیوں کوں مردقیدیوں کے مقابلے کم روٹیاں ملنی چاہیے۔ ‘کچھ کے لیے یہ مقدار ٹھیک تھی لیکن باقی خواتین کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔ اور ضابطوں میں اس طرح کاامتیاز کیسے کیا جا سکتا ہے؟’
اس وقت جیل میں کافی تعدادمیں بنگلہ بولنے والی خواتین تھیں؛ ریاستی حکومت کے مطابق وہ بنگلہ دیش سے غیرقانونی طور پرسرحد پار کرکے آئی تھیں۔ لیلا کہتی ہیں،‘وہ روٹیاں نہیں کھانا چاہتی تھیں۔ انہیں چاول (بھات)کھانے کی عادت تھی۔ اس لیے ہماری مانگ تھی کہ انہیں کھانے کے لیے صحیح مقدار میں بھات دیا جائے۔ ان میں سے کئی عورتوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے اور انہیں بھی صحیح مقدارمیں بھات کی ضرورت تھی۔’
بائیکلہ جیل کے میڈیکل آفیسر کو ہر دن یہ جانچ کرنے کے لیے کہ کیا قیدیوں کے لیے جو کھانا بنایا گیا ہے وہ ان کے کھانے کے لیے ٹھیک ہے یا نہیں، ایک ٹیسٹ پلیٹ دی جاتی تھی۔ لیکن لیلا کے مطابق قیدیوں نے یہ جلدی ہی بھانپ لیا کہ آفیسر جس کھانے کو ٹیسٹ کرتے ہیں اور انہیں جو کھانا دیا جاتا ہے، وہ دونوں ایک نہیں ہے۔
لیلا بتاتی ہیں،‘ان کی پلیٹ کا کھانا تو بہت اچھا لگتا تھا، بالکل گھر جیسا۔’کھانے میں پانی کی ملاوٹ اتنی زیادہ تھی کہ ‘جب تک کھانا قیدیوں تک پہنچتا تھا تب تک یہ بس پانی رہ جاتا تھا۔’
سال2011 کی ایک دوروزہ ہڑتال کامیاب رہی، کیونکہ بائیکلہ جیل کی لگ بھگ تمام خواتین قیدیوں نے اس میں حصہ لیا۔ اور کچھ دنوں کے لیے جیسا کہ لیلا بتاتی ہیں کھانے کا معیاربہتر ہو گیا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتی ہے کہ انہوں نے ستمبر، 2016 میں وہاں سے رہا ہونے سے پہلے وہاں جو بچا ہوا وقت گزارااس دوران بھی اس مسئلے کو لےکر کھینچ تان چلتی رہی۔
♦
سسرال والوں کے ذریعےشوہرکے قتل کے معاملے میں جھوٹے طریقے سے پھنسائے جانے کے بعد اپراجیتا بوس نے 13سال جیل میں گزارے۔ لیکن کئی معنوں میں وہ خود کو بےحد خوش قسمت مانتی ہیں۔ کہتی ہیں،‘میرے پاس ایک کافی اچھا وکیل تھا۔ صرف جینت نارائن چٹرجی کی وجہ سے میں بری ہو سکی۔’
لیکن جیل میں اپنی قید کے دوران بوس کو کئی خواتین ملیں جو وہاں سالوں سے تھیں اور سرکار کی طرف سےانہیں رہا کرنے کی کوئی بات نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس لیے جیل سے باہر آنے اور مفت قانونی مدد مہیا کرانے اور قانونی خواندگی کی حوصلہ افزائی کرنے والے ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک (ایچ آرایل این)نام کے ایک این جی او میں نوکری پانے کے بعد انہوں نے صرف عورتوں پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کی کہ جیل سے باہر آنے کے بعد وہ پھر سے اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل کرنے کی اہل ہو سکیں۔
عورتوں کو مدد کی سب سے زیادہ اس لیے ضرورت تھی کیونکہ جیل سسٹم کی بحالیوں کی کوشش کی واحد توجہ کامرشیل یجوکیشن(ووکیشنل ٹریننگ) کے پروگرام پرمبنی ہے، جو عورتوں کو سلائی سکھاتا ہے۔لیکن عمر قید کی سزا پانی والی کئی خواتین قیدیوں کو ان کےاہل خانہ اور سماج قبول نہیں کر رہا تھا۔ ‘اگر رہا ہونے کے بعد ان کے سر پر چھت ہی نہیں ہے، تو ووکیشنل ٹریننگ کی کیا افادیت ہے؟’
بوس کہتی ہیں،‘میں کچھ قیدیوں کے ساتھ کافی جڑ گئی اور مجھے پتہ ہے کہ انہیں بھی میری طرح جھوٹے طریقے سے پھنسایا گیا تھا۔’ان کے وکیل چٹرجی اب کافی طویل قید کی سزا کاٹ رہی خواتین قیدیوں کی رہائی کی کوشش کرنے کے لیے ایچ آرایل این کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
اسی کے ساتھ کافی قریبی طور پر جڑا ہوا مسئلہ جیلوں میں گھوم پھر سکنے کی آزادی کا ہے۔ بوس نے د ی وائر کو بتایا،‘کم سے کم مردوں کے لیے کھلی جیلوں کا تو اہتمام ہے۔ اگر انہوں نے اپنے 14 سال (عمر قید کی کم از کم مدت)جیل میں گزارلیے ہیں اور انہوں نے اچھے سلوک کامظاہرہ کیا ہےتو انہیں اس طرح سےزندگی گزارنے کی اجازت ملتی ہے، جو عام زندگی کا تھوڑا سا احساس کراتی ہے۔ لیکن مغربی بنگال میں خواتین کے لیے ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے۔’
ہندوستان میں لگ بھگ اب سو سالوں سے کسی نہ کسی طور پر کھلی جیلوں کا وجود رہا ہے۔ 2019 میں17 ریاستوں میں 86 کھلی جیلیں تھیں۔ ان میں سے صرف چار ریاستوں میں جھارکھنڈ، کیرل، مہاراشٹر اور راجستھان 2019 کے اواخر میں خواتین قیدیوں کو کھلی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
خواتین قیدیوں کے لیے پہلی کھلی جیل کا افتتاح پونے کے یروڈا سینٹرل جیل میں 2010 میں کیا گیا۔ مردوں کے لیے ایسے نظام کی شروعات کافی پہلے 1953 میں ہو گئی تھی۔کھلی جیلوں کا مقصد قیدیوں کو ایک بند گھیرے میں لگ بھگ عام زندگی جینے کی اجازت دینا ہے۔ ‘لگ بھگ عام’ کام کرنے کے حقوق اورذاتی آزادی تک رسائی شامل ہے۔جزوی طور پر کھلی جیلوں میں قیدی جیل احاطہ کےاندرمخصوص حلقہ میں کام کرتے ہیں، لیکن ان کے رہنے کاانتظام جیل کی کوٹھریوں سے زیادہ باہر کے گھروں جیسا ہوتا ہے۔
کھلی جیلیں قیدیوں کواہل خانہ کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کاحق دیتی ہیں، جب تک کہ وہ طے وقت پر اپنےمختص کوارٹروں میں لوٹ آئیں۔ اس سہولت کے لیے کون اہل ہےاس کو لےکرضابطہ ریاستی حکومت بناتی ہے۔
سال 2016 میں جب دہلی کی معروف تہاڑ جیل کے لیے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک بطور لاء آفیسر کام کرنے والے سنیل گپتا سبکدوش ہوئے تب انہوں نے اسی صنفی امتیاز کو چیلنج دینے کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف بوس جدوجہد کر رہی ہیں۔
تہاڑ جیل میں مردقیدیوں کے لیے کھلی جیل کی سہولیت ہے، مگر خواتین قیدیوں کے لیے ایسی کوئی راحت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں،‘جب میں تہاڑ میں کام کیا کرتا تھاتب مجھے لگتا تھا کہ خواتین قیدیوں کے لیے کھلی جیلیں سلامتی خدشات کے مد نظر عملی طور پر کسی برے خواب کی طرح ہوں گی۔ میں جب سبکدوش ہوا تب میں نے دہلی ہائی کورٹ میں بطور وکیل کام کرنا شروع کیاپھرمجھے یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ یہ اس مسئلے کو دیکھنے کا صحیح نظریہ نہیں تھا۔’
گپتا نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی، جس میں کہا گیا کہ تمام قیدیوں کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرنا سرکار کافریضہ ہے۔ہائی کورٹ نے بھی اس غیر برابری کو لےکر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور سرکار نے آگے چل کر اس سسٹم(کھلی جیل کی)کو اور توسیع دینے کو لےکراپنی رضامندی ظاہر کی اور 2019 میں تہاڑ میں خواتین کے لیےجزوی طور پرایک کھلی جیل کا افتتاح کیا۔
مدراس ہائی کورٹ نے بھی اسی طرح کے ایک معاملے کی شنوائی کی جب کےآر راجہ نام کے ایک وکیل نے خواتین قیدیوں کے لیے کھلی جیل کی سہولت مہیا نہ کرانے کے ریاستی سرکار کے فیصلے کو امتیازی اور غیرقانونی بتاتے ہوئے ایک پی آئی ایل دائر کی۔
اس معاملے میں بھی کورٹ نے عرضی گزارکے ساتھ اپنی رضامندی ظاہر کی۔ کورٹ کی بنچ نے خواتین قیدیوں، ٹرانس جینڈر قیدیوں یا ایسے قیدی جن کا کوئی اور معاملہ کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہے اور سیاسی بندی کو کھلی جیلوں کا استعمال کرنے سے روکنے والی ریاست کے ‘جیل ضابطوں’ کو ‘غیرآئینی ’ قرار دیا۔
گپتا کے مطابق ظاہری طورپر ضابطوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خواتین قیدیوں کو مرد قیدیوں کے مقابلے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر تہاڑ جیل میں مرد قیدیوں کے لیے ہر دن 12 بجے دوپہر سے 3 بجے دوپہر تک اپنی کوٹھریوں میں رہنا ضروری ہے؛ دوسری طرف خواتین قیدیوں کو ان گھنٹوں میں کھلے حصوں رہنے کی اجازت ہے۔
مگر گپتا دی وائر کو بتاتے ہیں،‘پر چھوٹ تب بھی مردوں والے حصےمیں زیادہ ہے۔ وہاں جگہ زیادہ ہے، وہاں زیادہ لوگ ہیں اور سب کا جی بہلائے رکھنے کے لیے کرکٹ کے کھیل جیسی زیادہ جسمانی سرگرمیاں ہیں۔ خواتین قیدیوں کی سرگرمیوں کے نام پر کیرتن اور پاپڑ بنانا ہے۔’
بوس اور لیلا دونوں ہی اس پہلو پر ایک جیسی رائے رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ‘ووکیشنل ٹریننگ(پیشہ ورانہ تربیت) کے نام پر جیلیں خواتین کو کیسا کام کرنا چاہیے کے نام پر انہی صنفی تصورات کو پختہ کرنے کا کام کرتی ہیں، جن کا سامنا انہیں باہر کی دنیا میں کرنا پڑتا ہے۔
گپتا کہتے ہیں کہ اگر آپ خواتین ڈویژن کی کسی قیدی سے پوچھیں تو وہ کہیں گی کہ وہ مردسیکشن میں قید کیے جانے کوترجیح دیتیں۔ اور یہی بات ملازمین پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ ‘وہ خواتین کے سیکشن میں کام کرنے کی جگہ مردوں کے سیکشن میں کام کرنا زیادہ پسند کرتے/کرتیں۔’
لیلا کہتی ہیں،خواتین جیلوں کا ماحول کافی سوگوار رہتا ہے حالانکہ ایک تضاد یہ ہے کہ یہ جیلیں خواتین قیدیوں کو زیادہ جگہ بھی مہیا کراتی ہیں، کیونکہ ان میں قیدیوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔
وہ یاد کرتی ہیں،‘بائیکلہ جیل میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ ہوتا رہتا تھا نئے لوگ آتے رہتے تھے، کسی کی کورٹ میں تاریخ ہوتی تھی؛ کسی کی ملاقات کی تاریخ ہوتی تھی؛ گانے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ جب لوگ رو رہے ہوتے تھے، تو بھی یہ کافی شورو غل بھرا ہوتا تھا۔’
ناگپور جیل میں ان کے وقت گزرنے کی رفتار دھیمی تھی۔ ‘وہاں جگہ کہیں زیادہ بڑی تھی، لیکن ماحول کافی الگ تھا۔ بائیکلہ جیل میں امیدکا ماحول دکھائی دیتا تھا، کیونکہ وہاں خواتین زیادہ تر زیر سماعت قیدی تھیں۔ لیکن قصوروار لوگوں کی ناگپور جیل میں ایسا ماحول نہیں دکھائی دیتا تھا۔’
لیلا کہتی ہیں،‘ایک اورظاہری فرق حقیقت میں ہندوستان کی غیرمساوی ترقی کو دکھاتا تھا۔ ممبئی ایک بڑا شہر ہے، یہاں قید خواتین اپنے حقوق کو لےکر زیادہ بیدار ہیں اور ان کو لےکر آواز اٹھانے کے لیے زیادہ تیار ہیں۔ ناگپور میں زیادہ تر قیدی نزدیک کے چھوٹے شہروں اور گاؤں کے ہوتے ہیں، اور جیل اسٹاف بھی پابندی والے سماجی اصولوں کو لاگو کرتے ہیں۔ بائیکلہ میں آپ کسی اسٹاف کو کسی خواتین قیدی سے یہ کہتے نہیں سن سکیں گے کہ ہم یہ نہیں پہن سکتے ہے یا وہ نہیں پہن سکتے۔ لیکن ناگپور میں ہمیں جیل کے احاطے میں جینس پہننے کی اجازت نہیں تھی۔’
لیلا بتاتی ہیں،‘مجھے یاد آتا ہے ایک بار ہماری ایک ساتھی قیدی کی کورٹ میں تاریخ تھی۔ وہ عام طور پر ساڑی پہنا کرتی تھی، لیکن اس دن ہم نے اسے سلوار کرتا پہننے کے لیے کہا کیونکہ وہ حقیقت میں ایسا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے وداع ہونے سے پہلے جیل حکام نے اسے کپڑے بدلنے کے لیے واپس بھیج دیا۔’
♦
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حکام تمام قیدیوں کے ساتھ برابری کا برتاؤ نہیں کرتے ۔سالوں سے ایسی رپورٹ آتی رہی ہیں کہ کیسے پیسے یاسیاسی اثر ورسوخ والے قیدیوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کیا جاتا ہے۔خواتین جیلیں بھی اس معاملے میں الگ نہیں ہیں؛کلاس ،کمیونٹی، مذہب اور قومیت کسی خواتین قیدی کے جیل کے تجربے کو طے کرنے میں اہم رول نبھاتے ہیں۔ جیسا کہ دی وائر کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا، ہندوستانی جیلوں میں ذات پات اس قدر گہرائی تک پیوست ہے کہ جیلوں میں کاموں کا بٹوارہ کس طرح سے کیا جانا ہے اس کودستورالعمل میں باقاعدہ لکھا گیا ہے۔
لیلا جب بائیکلہ جیل میں تھیں، اس وقت کچھ وقت کے لیے ان کی ایک ساتھی قیدی تھیں جیا چھیڈا، جو مٹکہ جوے کا نیٹ ورک (لاٹری کی ایک شکل) چلانے کے لیے جانی جاتی تھی۔ اسے اپنے شوہر کے قتل کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
لیلا بتاتی ہیں کہ چھیڈا خواتین جیل سے بھی عملی طور پر مٹکہ جوے کے نیٹ ورک کو چلایا کرتی تھیں۔ جیل اسٹاف اور دوسرے قیدی بھی اس کے ساتھ الگ طریقے سے سلوک کرتے تھے، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ وہ ان کے کام کروا سکتی ہے۔دیگر قیدی اس کی خدمت کیا کرتے تھے، جس میں اس کے جسم کی مالش کرنا شامل تھا۔ اسٹاف اسے میڈیکل دیکھ بھال کے نام پر اسپتال جانے یا کورٹ کی تاریخ کے نام پرباقاعدہ طور پر جیل سے باہر جانے کی اجازت دیتے تھے۔
لیلا کہتی ہیں،‘اور وہ بدلے میں ان کی مدد کیا کرتی تھی ان خواتین کے لیے بیل بھرنے سے لےکر جو اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی تھیں انہیں اپنا فون استعمال کرنے دینے تک (جس کی چھوٹ جیل حکام نے اسے دے رکھی تھی)، اس کے علاوہ دوسروں کے لیے باہر پیغام بھجوانے تک جیسے کام وہ بدلے میں کر دیا کرتی تھی۔’
اگر ایک سرے پر جیا چھیڈا جیسی قیدی ہے، تو دوسرے سرے پر بیناجیسی قیدی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 10 دسمبر 2020 کو بینا اپنے کمرے میں اکیلی تھیں، جب انہیں باہر شورو غل سنائی دی۔ وہ اپنے پڑوسیوں کی آواز کو سن سکتی تھی جن میں سے کئی اس کی ہی طرح سیکس ورکر تھیں۔ وہ بھاگ رہی تھیں اور چیخ رہی تھیں کہ پولیس اس علاقے پر چھاپے مار رہی ہے۔
پولیس نے ناگپور کے گنگا جمنا علاقے جو شہر کا ریڈ لائٹ علاقہ ہے سے 81 عورتوں کو گرفتار کیا۔ بینا بتاتی ہیں کہ پولیس نے اسے کمرے سے کھینچ کرباہر کیا، جبکہ انہوں نے پولیس کی کارروائی کی یہ کہتے ہوئے مخالفت بھی کی تھی کہ وہ دو مہینے کی حاملہ ہیں۔
ان میں سے کئی نے الزام لگایا ہے کہ عورتوں کو لے جاتے وقت پولیس نے کھل کر اپنے ڈنڈوں اور توہین آمیز لفظوں کا استعمال کیا۔ان میں سے ایک نے کہا، ‘تھانے میں وہ پولیس اسٹاف باربار یہ کہتے رہے کہ یہ رنڈی خانہ نہیں ہے۔ اور ہمیں رنڈی کہہ کر پکارتے رہے۔’
ایک دوسری عورت نے کہا،‘انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ہم اپنا سارا سامان ایسے ہی بنا کسی کی نگرانی کے چھوڑ رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی کوئی دھیان نہیں تھا کہ انہوں نے ہمارے بچوں اور بڑےبزرگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔’
پولیس حراست میں دو رات گزارنے کے بعد ان خواتین کو کووڈ 19 کورنٹائن سینٹر لےکر جایا گیاجہاں انہیں تین ہفتے بتانے تھے۔بینا یاد کرتی ہے، ‘کورنٹائن سینٹر کے اسٹاف کافی بدتمیز تھے۔ وہ لوگ باربارفحش کلامی کرتے تھے۔ مگر ان کے پاس صرف ایک باتھ روم تھا، جس میں صرف تین کیوبکل تھے۔ وہ کیا امید کرتے تھے؟’
ہندوستان میں خواتین جیلوں میں ایک خاص قسم کی تفریق لازمی ہے؛جسم فروشی کے انسداد سے متعلق قانون،اخلاقی ٹریفک روک تھام ایکٹ (پی آئی ٹی اے)، 1965 کے تحت گرفتار خواتین کو الگ رکھا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ عورتیں قانون بنانے والوں کے مطابق دوسروں پر برا اثر ڈال سکتی ہیں۔
یہ ‘اصول’ وزارت داخلہ کے ‘2016 ماڈل پریزن دستورالعمل’ میں بھی لکھا ہوا ہے جو ریاست کے حکام کے لیے جیل سسٹم کے ریگولیشن کا ماڈل ہے۔ خواتین قیدیوں سے متعلق باب کے ضمنی کلاز20.04 میں کہا گیا ہے، ‘عادتاًمجرمین ،طوائفوں اورطوائف خانےکو چلانے والوں کو لازمی طور پر الگ سے رکھا جانا چاہیے۔’
نوآبادیاتی ہندوستان میں برٹش حکومت نے کچھ مقامی قبائلی کو (جنہیں اب ڈی نوٹیفائیڈ ٹرائبس کہا جاتا ہے)کی پیدائشی مجرم کے طور پر درجہ بندی کی تھی۔
حالانکہ حکومت ہندنے اس لیبل کو قانونی طور پر ہٹا دیا لیکن کریمنل ٹرائبس ایکٹ کی جگہ لینے والے عادتاًمجرم ایکٹ کا استعمال پولیس کی جانب سےاس حاشیے کے گروپ کو نشانہ بنانے اور انہیں بدنام کرنے کے لیےباقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں زیادہ تر سیکس ورکر بھی دلت کمیونٹی سے آتی ہیں اور اس طرح سے یہ سچائی کہ ماڈل پر یزن سیکس ورکروں اور ‘عادتاً مجرموں’ کو الگ رکھنے کی بات کرتا ہے، مجرمانہ نظام عدل کے اندر جاری ذات پات کو لے کر امتیازی سلوک کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
پی آئی ٹی اےبذات خودجسم فروشی کو غیرقانونی قرار نہیں دیتا ہے، لیکن یہ طوائف خانہ رکھنے یا اس کا استعمال کرنے کوجسم فروشی سے کی گئی کمائی پر زندگی گزارنے،طوائفوں کے لیے گراہک لانے، جسم فروشی کے دھندے میں جانے کے لیےحوصلہ افزائی کرنے،عوامی علاقے میں جسم فروشی وغیرہ کو غیرقانونی بناتا ہے۔
بینا اور اس کے ساتھ گرفتار کیے گئے دیگر پر پی آئی ٹی کے ساتھ ساتھ پاکسو (پروٹیکشن آف چائلڈ فرام سیکسوال آفنسیز)ایکٹ کے تحت الزام لگائے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا، کیونکہ انہوں نے 17 سال کی آٹھ لڑکیوں کو اس علاقے سے بچایا۔
حالانکہ وکیلوں نے ان الزامات کوبےبنیاد بتایا ہے۔ پاکسو کے تحت الزام خاص طور پر ان کے خلاف ہی لگایا جا سکتا ہے جو نابالغوں کاجنسی استحصال کرتے ہوئے پائے گئے ہیں نہ کہ پورے آس پڑوس پر۔ناگپور کے وکیل نہال سنگھ راٹھوڑ نے دی وائر کو بتایا،‘آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بچہ یہاں پایا گیا اس لیے آس پڑوس کے سب لوگ پاکسو کے تحت قصوروار ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک بےتکا کیس ہے۔’
مگر بےتکا ہو یا نہ ہو، بینا سمیت 81 عورتوں نے خود کو پہلے پولیس حراست میں اور پھر کووڈ 19 کورنٹائن سینٹر میں پایا۔ اور سینٹر پر لائے جانے کے دس دنوں کے بعد بینا کو اپنے پیٹ میں تیز درد کا احساس ہونے لگا۔وہ بتاتی ہے کہ انہوں نے کورنٹائن سینٹر کے ملازمین کو اس کے بارے میں بتانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ دو گھنٹے کے اندر انہیں بلیڈنگ ہونے لگی۔ ساتھی قیدیوں کوجنہیں ان کے حاملہ ہونے کے بارے میں پتہ تھا، انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ فوراً طبی امداد کی ضرورت ہے۔
بینا کے ساتھ رکھی گئی ایک اورخاتون نے دی وائر کو بتایا، ‘ہم سکیورٹی اہلکاروں کو بلا رہے تھے، لیکن کوئی نہیں آ رہا تھا۔ ایک کمرے میں سی سی ٹی وی کیمرا تھا، جہاں ہمیں رکھا گیا تھا۔ تو آخر میں ہم سب اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور مدد کے لیے اشارہ کرنے لگے۔ آخر میں جب مدد پہنچی تب گارڈ بینا کو بلیڈنگ کو روکنے کے لیے سینٹری نیپکن تھما کر چلی گئیں۔’
وہ کہتی ہیں،‘میں اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ کوئی بحث تک نہیں کر سکی۔ میں انہیں مجھے ڈاکٹر کے پاس لےکر جانے کے لیے کہتی رہی لیکن وہ مجھے سینٹری نیپکن دےکر کمرے سے باہر چلی گئیں۔ دیگر قیدیوں کو میری دیکھ بھال کرنی پڑی۔ انہوں نے مجھے پانی لاکر دیا اور اور مجھے نارمل کرنے کی کوشش کی۔’
اگلے دن بینا کے ذریعے اپنے درد کے بارے میں بتائے جانے کے 24 گھنٹے کے بعد تین خواتین پولیس اہلکار بینا کو پاس کے ایک میڈیکل سینٹر میں لےکر گئیں۔
بینا نے بتایا،‘سنیچر ہونے کی وجہ سے وہاں مین ڈاکٹر موجود نہیں تھی۔ وہاں ایک جونیئر ڈاکٹر نے سونوگرافی کیا اور بتایا کہ میں نے اپنا بچہ کھو دیا ہے۔ انہوں نے اس کے علاوہ کوئی اور میڈیکل سروس نہیں کی۔ مجھے واپس کورنٹائن سینٹر لے آیا گیا۔ خواتین پولیس اہلکاروں نے کہا کہ مین ڈاکٹر کے آنے کے بعد مجھے ایک اور اور چیک اپ کے لیے لےکر جایا جائےگا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔’
حمل گرنے کے بعد بینا نے کچھ اور دن کورنٹائن سینٹر میں گزارے اور اس کے بعد انہیں ناگپور سینٹرل جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ ماڈل دستورالعمل کی پیروی کرتے ہوئے سیکس ورکروں کو دیگر قیدیوں سے دو کمرے دور رکھا گیا۔
‘ہماری حیثیت کا اندازہ ہمارے جرم کی بنیاد پر نہیں ہمارے پیشہ کی بنیاد پر کیا جا رہا تھا۔’بینا دکھ اور غصے کے ساتھ کہتی ہیں،‘ان کے لیے میرا حاملہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کیونکہ ایک سیکس ورکر کے بچہ کی کوئی گنتی نہیں ہوتی۔ ہم مثالی عورت کی ان کی تعریف میں نہیں آتے اور ہمارے بچوں کے لیے اور بچوں کی طرح تشویش کی کوئی ضرورت نہیں۔’
ہندوستانی جیلوں میں مناسب طبی سہولیات کافقدان ایک معلوم حقیقت ہے۔ ویسی خواتین قیدیوں کے لیے جنہیں خواتین کے امراض کے ماہریا کسی دوسرےا سپیشلسٹ کے اپوائنٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، یہ مسلسل سنگین مسئلہ ہے۔
سال 2016 کے دستورالعمل میں کہا گیا کہ تمام خواتین جیلوں میں میڈیکل سہولیات ہونی ہی چاہیے، جس میں کم سے کم ایک لیڈی ڈاکٹر ہونی چاہیے، لیکن زیادہ تر ضلع اس کو لاگو نہیں کر پائے ہیں۔
وزارت ترقی نسواں و اطفال کی 2018 کی ایک رپورٹ میں اس مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا،‘متعلقہ ریاست دستورالعمل میں بنائے گئے ضابطوں کے باوجود قیدیوں کو جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کاکافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ کئی معاملوں میں ہاسپٹل میں خواتین وارڈ اور خواتین میڈیکل آفیسر بالخصوص خواتین کے امراض کی ماہر نہیں ہیں۔’
ہندوستان کی کئی اور جگہوں کی طرح جہاں جسمانی صحت ہی مطلوب ہے، ذہنی صحت کی حالت اور بدتر ہے۔جیل اور سماجی بائیکاٹ کا تمام قیدیوں پر شدیداثر پڑتا ہے بالخصوص خواتین قیدیوں پر جنہیں بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن سرکاروں نے اس سمت میں مدد کرنے کے لیے کافی کم کام کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جیل حکام تمام قیدیوں کے ساتھ ایسے سلوک کرتے ہیں گویا وہ ذہنی طور پر صحت مند ہیں۔
لیلا بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ ہی ایک اور خواتین قیدی تھی جو ممکنہ طور پر ڈمینشیا سے متاثرتھی۔ ‘پورے دن اور رات اس کا رونا اور گالی دینا جاری رہتا تھا وہ یہ سمجھ پانے میں نااہل تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن اسٹاف اس کے جواب میں اسے مارتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ بدمعاشی کر رہی ہے۔ لیکن مارنے سے کیا ہوتا؟ وہ تو نیند میں بھی گالی دیتی تھی۔’
♦
ایک دہائی پہلے یواین جنرل اسمبلی نے خواتین قیدیوں کے ساتھ سلوک کے ضابطے اور خواتین مجرموں کے لیےغیرحراستی تدبیر(رولز فار ٹریٹمنٹ آف وومین پرینرس اینڈ نان کسٹوڈیل میجرس فار وومین آفینڈرس)کونشان زد کیا تھا، جس کو عام طور پر بنکاک رولز کہا جاتا ہے۔
ان ضابطوں میں کہا گیا ہے کہ کیوں خواتین اور مردقیدیوں کے ساتھ ایک جیساسلوک‘مساوات’کو نہیں دکھاتا ہے۔ یہ ضابطہ جرم کو انجام دینےوالے صورتحال کی اہمیت کو بھی نشان زدکرتے ہیں۔
ساتھ ہی قیدی کےسماجی اور اقتصادی پس منظر کو بھی دھیان میں رکھنے کو اہم مانتے ہیں۔ ان ضابطوں کا کہنا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ٹرائل سے قبل حراست اور قصور ثابت ہونے کے بعد جیل کی سزا کے متبادل کی ضرورت ہے، کیونکہ خواتین کے معاملے میں جیل نہ صرف غیر مؤثرہےبلکہ ان کے لیے نقصاندہ بھی پایا گیا ہے۔
یوں توہندوستان بحالی پر مرکوزکریمنل جسٹس سسٹم کے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ہندوستان میں ابھی تک ان متبادلات پرغور نہیں کیا گیا ہے۔
خواتین کو جیل بھیجے جانے کی صورت میں بنکاک ضابطہ کچھ ضابطوں اور سلامتی تدابیر کو لاگو کرانے کی بات کرتا ہے۔ مثلاً مناسب طبی دیکھ بھال، انسانی سلوک، تلاشی کے دوران خواتین قیدی کے وقارکا تحفظ اورتشدد سےتحفظ۔
حالانکہ ہندوستان یو این جنرل اسمبلی میں ان ضابطوں کو متفقہ طورپر پاس کرنے والے 193 ممالک میں شامل تھا، لیکن خواتین قیدیوں کے ساتھ کیا جانےوالا برتاؤ سفارش کیے گئے بین الاقوامی معیارات سے کافی دور ہے۔
اپراجیتا، لیلا، مینا اور بینابےحدمختلف پس منظررکھتے ہیں اور جیل کے ان کے تجربے بھی الگ الگ ہیں۔ لیکن ان میں قدر مشترک ہے اور وہ ہے ہندوستان میں خواتین قیدی ہونا، بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کوبرداشت کرنا، ہندوستانی سماج کےفرسودہ اورتوہین آمیز شے کے طور پر دوئم درجے کےسلوک کو جھیلنا۔
جب تک ایسے لوگوں کی کہانیاں نہ صرف سنی جائیں گی بلکہ انہیں جب تک سنجیدگی سے نہیں لیا جائےگا، ان پر بات نہیں ہوگی اور اس کا استعمال خواتین قیدیوں کو لےکرسوچ اور ان کے ساتھ سلوک میں تبدیلی لانے کے لیے نہیں کیا جائےگا تب تک ہندوستانی مجرمانہ نظام عدل کی بحالی کی اپنی مثالیت پسندی پر کھرےاترنے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔
پہچان محفوظ رکھنے کے لیے ناموں کو بدل دیاکیا گیا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر