آسام کی فلم ساز رجنی بسومتاری نے ان کی بوڈو فلم جو لے:دی سیڈ کو نیشنل ایوارڈ نہ دیے جانے پر مایوسی کا ا ظہار کرتے ہوئے ایوارڈ کمیٹی کے چیئرمین این چندرا کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کی جانب سے چھوٹی ثقافتی برادریوں ، ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے وعدوں کے بیچ کسی بوڈو فلم کا ایسی فلم کے ہی زمرے میں نہ چنا جاناجیوری ممبروں کی ناکامی ہے۔
نئی دہلی: آسامی ادکارہ اور فلم ساز رجنی بسومتاری نے ان کی بوڈو زبان کی فلم ‘جولے دی سیڈ’ کو 67ویں نیشنل فلم ایوارڈ میں بوڈو فلم یا دیگر کسی بھی زمرے میں ایوارڈ نہ ملنے کو لے کر ناراضگی کا ا ظہار کیا ہے۔
رجنی نے نیشنل فلم ایوارڈ کمیٹی کے چیئرمین این چندرا کو ایک کھلاخط (اوپن لیٹر) لکھ کر کہا ہے کہ ان کی فلم کو ایوارڈ نہ ملنا نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کی پوری ٹیم کے ساتھ ان ہزاروں بوڈو لوگوں کے لیے بھی مایوس کن ہے جو اپنی پہچان اور ثقافت کے تحفظ کے لیےجدوجہد کر رہے ہیں۔
ایسٹ موجو کے مطابق، انہوں نے لکھا، ‘سرکاری ویب سائٹ کے مطابق نیشنل فلم ایوارڈز کا مقصد سنیماکی شکل میں ملک کے مختلف خطوں کی ثقافتوں کی تفہیم کو فروغ دینے والی جمالیاتی ،تکنیکی اورمعاشرتی اہمیت کی فلموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ملک کے اتحاد اور ایکتا کو بڑھاوا دینا ہے۔ اور ظاہری طور پر کسی ہندوستانی زبان میں بنائی گئی فلم کو ایوارڈدینے کا مقصد ہے، اس زبان اورثقافت کوفروغ اورتحفط دینا جس پر وہ فلم بنائی جاتی ہے۔’
رجنی نے مزید لکھا کہ ان کی فلم کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے پچھلے سال ہوئے بی ٹی آر سمجھوتے اور اس سال اس کے ایک سال پورے ہونے پر وزیر داخلہ امت شاہ کی کوکراجھاڑ میں ہوئے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ریاست کی زبان اورثقافت کو بچانے کے لیے کام کرنے کی بات کہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شاہ نے گزشتہ اتوار کی ایک میٹنگ میں بھی اسی بات کو دہرایا لیکن اتفاق سے اسی کے اگلے دن نیشنل فلم ایوارڈکے اعلانات ہوئے جس میں کسی اورزمرے کو تو چھوڑیے بوڈو فلم کے زمرے میں بھی کسی فلم کوایوارڈ نہیں دیا گیا۔
اس کے آگے انہوں نے اپنی بوڈو فلم جو لے: دی سیڈ کے بارے میں بتایا ہے، جو آسام میں انتہاپسندی کے دنوں میں متاثر ہوئے لوگوں کے بارے میں ہے اور کئی قومی اوربین الاقوامی فلم فیسٹیول میں دکھائی جا چکی ہے، ساتھ ہی کئی ایوارڈ جیت چکی ہے۔
رجنی نے لکھا ہے، ‘بوڈوفلمیں اپنے خطےسے باہر بہ مشکل ہی سرخیوں میں آتی ہیں، شاید دہائی میں کبھی ایک بار اور نیشنل فلم ایوارڈز کی دوڑ میں پہنچنا تو اور بھی محال ہے۔ اسی لیے یہ صرف نہ میرے اور میری ٹیم کے لیے بلکہ ان ہزاروں بوڈو لوگوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے، جو آپ کی اور جیوری ممبروں کی جانب سے اس فلم کوصحیح پہچان ملنے کی امید کر رہے تھے۔’
رجنی میں آگے لکھا ہے کہ سرکار کی جانب سے چھوٹی ثقافتی برادریوں ، ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے وعدوں کے بیچ کسی بوڈو فلم کا ایسی فلم کے ہی زمرے میں نہ چنا جاناجیوری ممبروں کی ناکامی ہے۔ یہ ان کی اس خطے،یہاں کے لوگوں اور تاریخ کے بارے میں ان کی جانکاری کے فقدان کو دکھاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ہماری زبان اورتہذیب کے بارے میں سرکار کے وعدوں کو پورا کرنے میں زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے۔
کئی فلموں میں اداکاری کر چکی بسومتاری نے کہا کہ اس خط کو کسی ہارے ہوئے انسان کی شکایت نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ میری پہلی فلم نہیں ہے جسے نیشنل ایوارڈ نہیں ملا۔ میں نے سال 2014 میں ایک آسامی فلم بنائی تھی اورایوارڈکے لیے بھیجی تھی۔ میں نے تب جیوری کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اس زمرے میں اس سے بہترفلمیں تھیں۔ لیکن اس بار جو لے: د ی سیڈ کو ایوارڈ نہ ملنے کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے۔’
سال 2019میں دی وائر کودیے ایک انٹرویو میں رجنی نے بتایا تھا کہ فلم کی کہانی تقریباً سچے واقعات پر مبنی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ،میرے گھر میں بھی یہ ہوا تھا۔ میری فیملی بھی اس سے متاثر تھی۔ میرے والدین نے بہت کچھ برداشت کیا۔اسی تکلیف سے یہ فلم بنانے کی ترغیب ملی۔
فلم کے نام اور اس کے بارے میں پوچھنے انہوں نے بتایا تھا کہ ،جولے مطلب ‘بیج’ ہوتا ہے۔ آسام میں دھان ہوتا ہے تو اس کا جو سب سےاچھا حصہ ہوتا ہے، اگلی بار کی فصل اگانے کے لئے اس کو الگ کر رکھ لیا جاتا ہے۔اس فلم میں ایک فیملی کی کہانی ہے۔ والد انتہا پسندوں اور فوج کے تصادم کے دوران مارے جاتے ہیں۔ ان کا بیٹا اس وقت 13 سال کا ہوتاہے۔
یہ لڑکا آگے چلکر انتہاپسندوں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ ماں اس کو روکنےکی کوشش کرتی ہے، لیکن ایسا ہو نہیں ہو پاتا۔ اس کے بعد ماں کی جدو جہد شروع ہوتی ہے۔اب انہوں نے کمیٹی کے چیئرمیں سے اپیل کی ہے کہ قومی ایوارڈ میں نہ صرف سنیماکے مقاصد کا دھیان رکھا جائے بلکہ اس سے وابستہ سماجی ذمہ داری کوبھی سمجھا جائے۔
رجنی نے مزید لکھا، ‘جو جیوری ممبروں کے انتخاب کے ذمہ دار ہیں، انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہندوستانی زبانوں کی فلمیں چننے جیسے بڑے کام کے لیے غیر ذمہ دار اور اوسط درجے کے ممبروں کو نہ رکھا جائے، جنہیں اپنی زبان وثقافت کے تحفظ کے لیے جد وجہد کر رہے نسلی اقلیتی گروہ کی سمجھ یا ان کے لیے ہمدردی نہیں ہے۔’
رجنی نے این چندرا سے ان کی فلم دیکھنے کی گزارش کی اور کہا کہ شاید اسے دیکھنے کے بعد وہ ان جیوری ممبروں کی سرزنش کرنا چاہیں، جنہوں نے چندرا تک ان کی فلم پہنچنے نہیں دی۔رجنی نے لکھا، ‘لوگ کہتے ہیں کہ ایوارڈز لاٹری کی طرح ہوتے ہیں لیکن میرے معاملے میں میرے نام کی پرچی کو ڈرا نکالنے والے باکس میں ڈالا ہی نہیں گیا۔’
Categories: ادبستان