بی جے پی خود کو خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وزیراعظم اکثر مسلم خواتین کےطلاق کےقانون کو پاس کرنے کا حوالہ دےکر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔مگر جس طرح اس قانون میں شوہر کو جیل میں بند کرنے کی بات کہی گئی ہے، مسلمان خواتین کے ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہندوستان میں بھی خوب جشن برپا تھا۔ اراکین پارلیامنٹ اور غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان نے پر جوش تقاریر کیں اور خواتین کو سبھی شعبہ ہائے زندگی میں بااختیار بنانے کے وعدے کیے۔لیکن یہ وعدے صرف وعدے ہی ہیں۔
آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن کے موقع پر کیے جانے والے وعدوں کی قلعی بس ہفتے بھر بعد ہی اس وقت کھل گئی، جب پانچ ریاستی اسمبلیوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں خواتین کو ٹکٹ دینے کی باری آئی۔ برجستہ غالب کا شعر لب پر آ گیا؛
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
وہی روایتی دلیل کہ انتخابات میں ٹکٹ جیتنے والے امیدوار کو ہی دیا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر خواتین کو امیدوار بنایا تو رائے دہندگان ان کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیں گے۔حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں، بھی خواتین کارکنان کو انتخابات کے وقت نظر انداز کردیتی ہیں۔ جس سے قانون سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت بہت کم ہوتی ہے۔
فی الوقت لوک سبھا یعنی ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی صرف 14 فیصد ہے۔543 اراکین والے ایوان میں صرف 78 خواتین ہیں۔ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا جہاں براہ راست ووٹنگ نہیں ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے خواتین کو بطور امیدار نامزد کرنا نسبتاً آسان ہے، میں ان کی نمائندگی اور بھی کمزور ہے۔ 250 ممبران والے اس ایوان میں صرف 27 خواتین یعنی بس 9.14 فیصد ہیں۔
فی الوقت جن پانچ صوبائی اسمبلیوں کے لیےانتخابات ہو رہے ہیں، ان میں مغربی بنگال میں مقامی حکمراں آل انڈیا ترنمول کانگریس کا کانٹے کا مقابلہ مرکز میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ترنمول کانگریس کی صدر اور صوبہ کی وزیر اعلیٰ ایک خاتون ممتا بنرجی ہیں۔ مگر ان کی اپنی پارٹی کا حال یہ ہے کہ انہوں نے ان انتخابات میں کل 294امیدوارں کو ٹکٹ دیے ہیں، جن میں صرف 50خواتین ہیں یعنی بس 17فیصد۔
جنوبی ہندوستان کے صوبے تمل ناڈو میں بھی انتخابات ہور ہے ہیں۔ اس صوبہ کی حکمراں پارٹی آل انڈیا انًا ڈی ایم کے اپنی مرحوم سربراہ جے جیہ للتا کے سائے میں انتخاب لڑ رہی ہے۔ وہ اس صوبہ کی نہایت ہی مضبوط رہنما تصور کی جاتی تھیں، جن کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنے کی کوئی جرأ ت نہیں کرسکتا۔اتنی مضبوط اور مقبول لیڈر ہوتے ہوئے بھی وہ انتخابات میں اپنی صنف کی نمائندگی کو بڑھا نہ سکیں۔
پانچ سال قبل ان کی قیادت میں لڑے جانے والے انتخاب میں بھی بس 6فیصد خواتین ہی اسمبلی میں پہنچ پائی تھی۔ 235 رکنی صوبائی ایوان میں صرف 20 خواتین ہیں۔ جن میں سے 14 کا تعلق جے للیتا کی پارٹی سے تھا۔ ان کے انتقال کو اب چار سال بیت چکے ہیں۔ ان کی پارٹی ان کے ہی نام پر ووٹ مانگ رہی ہے۔مگر ان کی پارٹی نے امیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے، اس میں صرف 13 خواتین ہیں۔
اسی طرح شمال مشرقی صوبہ آسام میں جہاں حکمراں بی جے پی اور کانگریس کے زیر قیادت اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ ہے، خواتین کی نامزدگی برائے نام ہے۔ ابھی تک نامزدگی داخل کرنے والے 223 امیدواروں میں سے صرف 19 خواتین ہیں۔کانگریس نے سشمتا سنگھدیو جیسی قد آور لیڈر کو بھی میدان میں نہیں اتارا۔
یہ وہی سیاسی جماعتیں و لیڈران ہیں جو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر،قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستوں کی مانگ کر رہے تھے۔ ٹکٹوں کی اس تقسیم سے یہی لگتا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیےقدم اٹھانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ان کی نیت ہی نہیں ہے۔
کانگریس پارٹی جس کی سربراہی 1998سے سونیا گاندھی کر رہی ہیں، نے بھی کبھی خواتین کو ان کی آبادی کے تناسب سے پارٹی یا قانون ساز اداروں میں سیٹیں دینے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی پارٹی مرکز میں دس سال تک برسر اقتدار رہی۔ 2013میں سونیا گاندھی کو فوربس میگزین نے دنیا کی 50 بااثر خواتین میں شامل کیا تھا۔ جب وہ لوک سبھا میں ایوان کی قائد تھیں ان کی پارٹی کے منتخب خواتین ممبران کی تعداد صرف 25 تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2010میں انتہائی شور و غل اور ہنگامہ کے درمیان راجیہ سبھا میں خواتین کے لیے قانون ساز اداروں میں 33فیصد نشتیں محفوظ کرنے کا قانون پاس کیا گیا۔ مگر ایوان میں قطعی اکثریت ہونے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ابھی تک اس بل کو لوک سبھا میں بحث کے لیے لانے اور پاس کروانے کی جرأت نہیں کر پا رہی ہے۔
پنچایتوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں محفوظ کرنے کا قانون 1993میں پاس ہونے کے بعد امید بندھی تھی کہ صوبائی اسمبلیوں اور پارلیامنٹ کے لیےبھی اس کو لاگو کیا جائےگا۔ مگر صرف پنچایتوں تک محدود رکھنے سے خواتین کی نمائندگی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد پنچ ممبران یا گاؤں کے ذی حیثیت افراد اپنی بیویوں کو پنچایت کا انتخاب لڑاتے ہیں۔ گو کہ وہ منتخب ہو جاتی ہیں، مگر میٹنگوں میں ان کے شوہر جاتے ہیں اور وہی افسران کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کرکے گھر میں بیٹھی اصل پنچ ممبر کا انگوٹھا کاغذ پر لگواتے ہیں۔
ان مردوں کو پردھان پتی کہا جاتا ہے۔ ان کی بیویاں جو پنچایت کے لیے منتخب ہوئی ہوتی ہیں، باورچی خانہ اور اپنے گھر کے صحن تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ہاں جب کسی وزیر وغیرہ کا دورہ ہوتا ہے تو ان کو بطور پنچایت ممبر حاضر کیا جاتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاستداں خود کو ترقی پسند، خواتین کو با اختیاربنانے اور ان کے حقوق کی جنگ میں ساتھ دینے کی باتیں تو کرتے ہیں اور گھنٹوں اس موضوع پر تقریریں بھی کرتے ہیں، مگر جب عمل کرنےکا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور اگر مجبوری میں قانون سازی کرنی بھی پڑے، اور لاگو بھی کرنا پڑے تو اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو پنچایتوں کی ہوئی ہے۔
برسراقتدار بی جے پی بھی خود کو خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وزیراعظم اکثر مسلم خواتین کےطلاق کےقانون کو پاس کرنے کا حوالہ دےکر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔
مگر جس طرح اس قانون میں شوہر کو جیل میں بند کرنے کی بات کہی گئی ہے، مسلمان خواتین کے ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ چند سال قبل بی جے پی نے پارٹی کے اندر عہدوں کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی تھی۔
مجلس عاملہ میں یقیناً 40خواتین کو شامل کیا گیا، مگر جب ان کو انتخابات میں ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو مودی اور پارٹی کی عوامی مقبولیت کے باوجود معاملہ گول کردیا جاتا ہے۔بی جے پی کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس میں تو خواتین کی نمائندگی ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈران و پارٹی کے طاقتور آرگنائزنگ سکریٹری آرایس ایس سے ہی آتے ہیں۔
اگر آر ایس ایس میں ہی خواتین کی نمائندگی نہیں ہے تو بی جے پی میں اعلیٰ عہدوں پر وہ کیسے براجمان ہو سکتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ آزادی کے 75سال بعد بھی خواتین کو بااختیار بنانے اور سیاسی اداروں میں ان کو متناسب نمائندگی پربحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔
لگتا ہے ہندوستان میں خواتین کو چچا غالب کا شعر یاد کرکے سیاسی لیڈروں کے وعدوں کا عمر بھر انتظار ہی کرنا پڑے گا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر