ایک رپورٹ کے مطابق، 106ممالک کے لوگوں کے فون نمبر، فیس بک آئی ڈی، مکمل نام، مقامات ،تاریخ پیدائش اور ای میل آن لائن ہو گئے ہیں۔ ہندوستان میں10دنوں کے اندر دوسرا ایسا موقع ہے جب کسی کمپنی کے صارفین کا ڈیٹابیس لیک ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔گزشتہ 30 مارچ کو گڑگاؤں واقع موبائل ادائیگی اور ڈیجیٹل والیٹ کمپنی موبی کوئیک کے 10 کروڑ صارفین کی جانکاری مبینہ طور پر لیک ہو گئی تھی۔
نئی دہلی: پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے 53 کروڑ سے زیادہ فیس بک صارفین کی نجی جانکاری لیک ہو گئی ہے۔ اس میں60 لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کا بھی ڈیٹا شامل ہے۔ ان جانکاریوں کو چھوٹے پیمانے کے مختلف ہیکنگ فورمز کے ساتھ بلامعاوضہ شیئر کیاگیا ہے۔
یہ فیس بک اوردیگر سوشل میڈیا سائٹ کے ذریعے جمع کی جانے والی تفصیلی جانکاری کے تحفظ کو لےکر سوال کھڑے کرتی ہے۔ڈیٹا لیک ہونے کی جانکاری بزنس انسائیڈر ویب سائٹ نے دی۔ اس ویب سائٹ کے مطابق، 106ممالک کے لوگوں کے فون نمبر، فیس بک آئی ڈی، مقامات، تاریخ پیدائش،جنس، پیشہ،ازدواجی حیثیت اور ای میل آن لائن ہو گئے ہیں۔
لوگوں کی جانکاری کی حفاظت کو لےکر فیس بک پر کئی سال سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔
All 533,000,000 Facebook records were just leaked for free.
This means that if you have a Facebook account, it is extremely likely the phone number used for the account was leaked.
I have yet to see Facebook acknowledging this absolute negligence of your data. https://t.co/ysGCPZm5U3 pic.twitter.com/nM0Fu4GDY8
— Alon Gal (Under the Breach) (@UnderTheBreach) April 3, 2021
سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے 2018 میں فون نمبر کے ذریعےصارف کے اکاؤنٹ کو تلاش کرنے کی سہولت اس انکشاف کے بعد بند کر دی تھی کہ سیاسی کمپنی ‘کیمبرج اینالٹیکا’ نے آٹھ کروڑ 70 لاکھ فیس بک صارف کی جانکاری ان کی رضامندی کے بغیر حاصل کر لی تھی۔
یوکرین کے ایک سکیورٹی تفتیش کارنے دسمبر 2019 میں بتایا تھا کہ 26 کروڑ 70 لاکھ فیس بک صارف کی جانکاری انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
اس سے پہلے یہ ڈیٹابیس سال 2019 میں لیک ہوا تھا اور میسیجنگ پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر فی سرچ 20 ڈالر کی شرح پر فروخت کیا گیا تھا۔ اس وقت فیس بک نے کہا تھا کہ اس نے لیک کے سارے راستے بند کر دیے ہیں، لیکن جون 2020 اور جنوری2021 میں ایک بارپھر سے وہی ڈیٹابیس لیک ہوا تھا۔
سائبر سکیورٹی فرم ہڈسن راک کے شریک بانی اورچیف ٹکینیکل افسر ایلن گیل نے یہ انکشاف کیا تھا۔اتوارکو کیے اپنے ایک ٹوئٹ میں گیل نے ایک بار پھر سے لیک ہوئے ڈیٹابیس کو شیئر کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس میں سے کسی کا فیس بک اکاؤنٹ تھا تواس بات کا بہت امکان ہے کہ وہ لیک ہوا ہوگا۔
گیل نے کہا کہ بھلے ہی یہ جانکاری دو سال پرانی ہے، لیکن یہ چیزیں سائبر مجرموں کے لیے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہیں، جہاں وہ لوگوں کی نجی جانکاریوں کا استعمال کرکےجرم یا گھوٹالا وغیرہ کو انجام دے سکتے ہیں۔
Few days ago a user created a Telegram bot allowing users to query the database for a low fee, enabling people to find the phone numbers linked to a very large portion of Facebook accounts.
This obviously has a huge impact on privacy. pic.twitter.com/lM1omndDET
— Alon Gal (Under the Breach) (@UnderTheBreach) January 14, 2021
نئے لیک میں افغانستان کے 5.5 لاکھ صارف، آسٹریلیا کے 12 لاکھ صارف، بنگلہ دیش کے 38 لاکھ، برازیل کے 80 لاکھ اور ہندوستان کے 61 لاکھ صارف کی جانکاری مختلف پلیٹ فارم پر عوامی ہو گئی ہے۔ اس جانکاری کو ہیکروں کی ویب سائٹ پر مفت میں دستیاب کرا دیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یہ ہندوستان میں 10دنوں کے اندر دوسرا ایسا موقع ہے، جب کسی کمپنی کے صارف کا ڈیٹابیس لیک ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔گزشتہ30 مارچ کو گڑگاؤں واقع موبائل ادائیگی اور ڈیجیٹل والیٹ کمپنی موبی کوئیک کے 10 کروڑ صارف کی جانکاری مبینہ طور پر لیک ہو گئی اور انہیں ڈارک ویب پر فروخت کیا جا رہا تھا۔
فیس بک نے ایک بیان میں کہا، ‘یہ پرانا ڈیٹا ہے، جس کی جانکاری2019 میں دی گئی تھی۔ ہم نے اس مسئلہ کو اگست 2019 میں ہی دور کر دیا تھا۔’
معلوم ہو کہ ڈیٹا لیک کو لےکرہندوستان میں فی الحال کوئی مضبوط قانون نہیں ہے، جو کہ ایسے کام کرنے والے لوگوں کو سزا دلا پائے۔ نجی ڈیٹا پروٹیکشن بل جو کہ اس طرح کے معاملوں کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، 2019 سے ہی لوک سبھا میں زیر التوا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں