نکسل مسئلہ صرف ‘پولیس کا مسئلہ’ نہیں ہے جو محض طاقت کے استعمال سےحل ہو جائے اس کےبہت سے پیچیدہ پہلو ہیں۔حکومت کو اپنی جھوٹی اناترک کرکے ان پہلوؤں کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے۔
ابھی3 اپریل کو چھتیس گڑھ میں نکسلیوں کے گھات لگا کر کیے گئے حملے میں سی آر پی ایف اور چھتیس گڑھ پولیس کے 23 جوان شہید ہو گئے۔ لگ بھگ 31 جوان زخمی ہوئے ہیں اور کمانڈو فورس کوبرا کے ایک جوان کو نکسلیوں نے اغوا کر لیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان جوانوں کو جنگل میں نکسل کمانڈر ماڈوی ہڈما کو مارنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ان جوانوں پر حملہ کسی دور دراز کےجنگل میں نہیں ہوا۔ صحافی حملے کی جگہ پر مین روڈ سے صرف آدھے گھنٹے میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔
شرم کی بات ہے کہ میڈیا رپوٹس کے مطابق بچے ہوئے افسروں اور جوانوں نے اپنے زخمی ساتھیوں کو وہیں چھوڑ دیا اور انہیں اگلے دن ہی لایا جا سکا۔
اس طرز عمل کا موازنہ امریکی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل ہیرالڈ مور (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل)کی اس جوشیلی تقریرسے کیجیے جو انہوں نے ویت نام روانہ ہونےسے پہلے اپنے جوانوں کے سامنے کی تھی، ‘میں ایک بھی آدمی کو پیچھے چھوڑ کر نہیں آؤں گا۔’
سکیورٹی فورسزنے نکسلیوں کی صرف ایک خاتون کیڈر کی لاش برآمد کی ہے۔ افسر دعویٰ کر رہے ہیں کہ نکسلی اپنی لاش ٹریکٹروں میں بھر کر لے گئے۔ یہ قابل اعتبارمعلوم نہیں ہوتا۔کسی بھی لڑائی میں نقصان ہونا لازمی ہے۔ لڑائی میں خون بہتا ہی ہے۔ لیکن ہمارے جوانوں کا خون بیش قیمتی ہے اور سستے میں نہیں بہنا چاہیے۔
پوری دنیا میں سکیورٹی فورسز مانتے ہیں کہ ایسےمہمات میں‘ہلاکت کا تناسب’ کم از کم 8:1(یعنی آٹھ باغیوں پر سکیورٹی فورسز کے ایک جوان کی شہادت) تو ہونی ہی چاہیے، جبکہ روایتی طور پر10:1 کو اچھا مانا جاتا ہے۔
آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ہم کہاں ہیں؟
راہل گاندھی نے اس واقعہ پر ایک تبصرہ کیا کر دیا کہ سیاسی مباحث میں جموں وکشمیر کے ایک ریٹائرڈ ڈی جی پی بھی کود پڑے۔ وہی گھسا پٹا راگ الاپنے لگے کہ تنقید سے سکیورٹی فورسز کی توہین ہوئی ہے۔ آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کہنے کے پس پردہ ان کی اصل نیت کیا رہی ہوگی۔
لیکن اس سچائی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ مہم (آپریشن)بری طرح ناکام رہی ہے۔ سستے میں بہا 23 جوانوں کا خون چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ اس آپریشن کامنصوبہ بنانے اور تیاری کرنے میں اعلیٰ افسروں نے انتہائی درجے کی بیوقوفی اور نااہلی کا ثبوت دیاہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اپریل 2010 کا وہ واقعہ جس میں 76 جوان شہید ہوئے تھے، تب سے لےکر اب تک متعددواقعات رونماہو چکے ہیں جن میں جوانوں کا خون رائیگاں ہی بہا۔ اکیلے دانتے واڑہ –سکما- بیجا پورمحور پر ہی پچھلے دس سالوں میں 175 جوان شہید ہوئے ہیں۔
سینئر افسران کولائسنس مل گیا ہے کہ اپنی جھوٹی انا اور نااہلی میں وہ ایک کے بعد ایک بڑی غلطیاں کرتے جائیں اور ڈسپلن کے نام پر جوان اپنے ہونٹوں پر تالہ لگا کر شہید ہوتے رہیں اور ان کے لواحقین اپنےاہل خانہ کو سوگوار دیکھتے رہیں۔
ذمہ داری کس کی؟
سرکاری طور پر اس بارے میں سناٹا ہے پر دو ہندی اخباروں چھتیس گڑھ ویبھو اور دینک بھاسکر، نے نام لے کر انکشاف کیا ہے کہ یہ کارنامہ دہلی سے تشریف لائے تین آئی پی ایس افسروں کا ہے۔ان میں دو سی آر پی ایف کے آئی جی اورا سپیشل ڈی جی ہیں اور تیسرے ایک ریٹائرڈ ڈی جی ہیں جو صلاح کار کے بطور کانٹریکٹ پر دوبارہ نوکری پر رکھ لیے گئے ہیں۔
اخباروں نے بتایا ہے کہ یہ تینوں حضرات پچھلے لگ بھگ تین ہفتے سے وہیں ڈٹے تھے اور اس ‘دکھاوٹی گرینڈ آپریشن’ کا‘ہوائی منصوبہ’ بنا رہے تھے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
دینک بھاسکر نے تو نام لےکر ان آئی جی پر الزام لگایا ہے اور حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ وہی شخص ہے جس کی وجہ سے 2010 میں 76 جوان شہید ہوئے تھے، کیسے انہیں پرموشن اور ایوارڈ دیے گئے اور پھر بڑی ذمہ داری بھی دے دی گئی؟
آپریشن کی سرکاری تفصیلات تودستیاب نہیں ہے لیکن سارے ہی میڈیا کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں جوان (کچھ رپورٹس کے مطابق لگ بھگ 2000 اور کچھ کے مطابق 1000)جنگل میں گھسا دیے گئے۔ ان پر لوٹتے وقت کیمپ کے قریب حملہ ہوا۔
نکسلیوں نے حملے کی جگہ کا انتخاب بڑی ہوشیاری سے کیا جہاں جوانوں کو کسی بھی طرح کے اوٹ لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے بہادری سے لڑنے کے باوجود ان کی شہادت ہوئی۔
فاش غلطی
اتنی بڑی تعداد میں فوج کو جنگل میں ایک ساتھ بھیج دینا فاش غلطی تھی۔ الگ الگ جگہوں سے لوگوں اور سامان کو لےکرگاڑیوں کی آمد ورفت سےگہما گہمی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کچھ بھی راز نہیں رہ جاتا۔سینئر عہدیدار اب ماتم کر رہے ہیں کہ مقامی لوگوں نے نکسلیوں کو خبر دی ہوگی۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بہانہ ہے۔
نکسل ہمیشہ سے ایسے ہی خبریں حاصل کرتے آئے ہیں انہیں کوئی آکاشوانی نہیں ہوتی۔ کیا دہلی سے تشریف لائے افسروں کو اتنا بھی نہیں پتہ تھا؟ منصوبہ ٹھیک سے بناتے تو اس کا خیال رکھتے۔
جس طرح سے جوان اچانک حملے سے حیران ہوئے، اس سے واضح ہے کہ ان افسروں کو اس علاقے میں نکسلیوں کی موجودگی، ان کی تعداد اور ان کے اسلحوں کے بارے میں ذرا بھی علم نہیں تھا، ان کے ممکنہ منصوبے کی تو بات ہی دور۔
غورطلب ہے کہ حملہ سکیورٹی فورسز کے قریبی کیمپ سے صرف چھ کیلومیٹر کی دوری پر ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد 250-400 یا 600 تک تھی۔یعنی انٹلی جنس(خفیہ معلومات)کا حال یہ تھا کہ ان افسروں کو اپنے سر پر بیٹھے ہوئے اتنے سارے نکسلیوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ پھر اتنے بڑے آپریشن کا منصوبہ تو انہوں نے کیا خاک بنایا ہوگا؟
یہ صرف انٹلی جنس کی کمی نہیں تھی؛یہ ان افسروں کے متکبرانہ کارنامے کا نتیجہ تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے جوانوں کو گویا سانپوں سے بھرے اندھے کنویں میں دھکیل دیا۔یہ کوئی‘معصوم بھول ‘نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ‘مجرمانہ لاپرواہی‘تھی جس کے لیے سیکشن 304 اے آئی پی سی کے تحت مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔
سینئر حکام بہانہ بنا رہے ہیں کہ نکسلیوں کے پاس جدیدترین اسلحے اور لائٹ مشین گن تھیں۔ یہ بھی مضحکہ خیز بات ہے۔ کیا آپ سوچ رہے تھے کہ نکسلی لاٹھیوں سے لڑیں گے؟
دراصل اس احمقانہ بات سے ان افسروں نےخود کو پھنسا لیا ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ نکسلیوں کے ہتھیار دیکھ کرحیران ہو گئے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ان کے ہتھیاروں کے بارے میں کوئی خفیہ معلومات ہی نہیں تھی!
اب ایسا نہ کہیےگا کہ سرکار نے ہمارے جوانوں کو بابا آدم کے زمانہ کے ہتھیار دے رکھے ہیں۔ بھئی، ہمارے پاس بھی جدید ترین ہتھیار ہی ہیں!
حد درجے کی نااہلی
آپریشن کا نام نہاد منصوبہ بنانے کا کام ایک سخت فریب ہے۔کئی حکام نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ہمیں بتایا ہے کہ منصوبہ کے نام پر نقشے پر صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا روٹ طے کیا جاتا ہے، بس!
جونیئر اور مڈل رینک افسران سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ڈسپلن کے نام پر اپنے عقل وشعور کو ان سینئر افسروں کے قدموں میں ڈال دیں۔ جس کسی نے کہیں کوئی شک وشبہ کرنے یا سوال اٹھانے کی جرأت کی، اس کو بزدل کہہ کرعوامی طور پر ذلیل کیا جائےگا اور مستقبل میں سزا دینے کے لیے نام نوٹ کر لیا جائےگا۔
اس معاملے میں بھی، جیسا کہ میڈیا نے رپورٹ کیا ہے، جوانوں کو علی پوڑہ اور جوناگڈا نام کی جگہوں پر جانے کاحکم دیا گیا تھا۔ دہلی سے تشریف لائےاعلیٰ افسروں نے شایدسوچا ہو کہ فلم شعلے کے گبر سنگھ کی طرح ماڈوی ہڈما بھی وہیں بیٹھا آرام فرما رہا ہوگا اور جوان اسے گولی مار دیں گے۔
جوان وہاں پہنچے اور وہاں کچھ نہیں ملا۔ ظاہر ہے انٹلی جنس غلط تھی یا پوری طرح سے فرضی تھی۔ لیکن اعلیٰ افسروں کا ماتھا نہیں ٹھنکا۔حملے میں زخمی جوانوں نے میڈیا کو بتایا کہ لوٹتے ہوئے انہیں یہ دیکھ کر عجیب لگا کہ جھراگاؤں اور ٹیکلگڈا کے گاؤں ایک دم ویران پڑے ہیں۔
انہوں نے یہ بات اوپر بتائی لیکن انہیں چلتے رہنے کا حکم دیا گیا جبکہ کسی بھی عقل مند شخص کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہیے تھیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد ان پر جان لیوا حملہ ٹوٹ پڑا۔ اس سے کیا سمجھا جائے؟ یا تو انہیں ذرا بھی کامن سینس نہیں تھا، یا پھر ان کے من میں دہلی سے پدھارے اعلیٰ افسروں کا اس قدر خوف طاری تھا کہ ان کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ جوانوں کو روک کر انہیں پوزیشن لینے کے لیے کہیں۔
پورے واقعاتی سلسلہ سے لگتا ہے کہ نکسلیوں نے ہوشیاری سے جھوٹی جانکاری پہنچواکر ان افسروں کو بےوقوف بنا دیا۔
انا اور ‘گرینڈ ماسٹراسٹروک’ کی شدید خواہش
نااہلی کے علاوہ اس معاملے میں ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ان افسروں کی انا اور ایک‘گرینڈ ماسٹرا سٹروک’ چلنے کی شدید خواہش بھی ذمہ دار ہے۔لگتا ہے انہوں نے اپنے آقاؤں کو یہ سبزباغ دکھایا کہ حضور بس ایک بھاری بھرکم آپریشن کی دیر ہے، ایک ہی جھٹکے میں چھتیس گڑھ سے نکسلیوں کا خاتمہ ہو جائےگا اور پھر تو ہر جگہ آپ کی جئے جئےکار ہوگی۔
جیسا کہ ‘نکسلزم اینڈ اینٹی نکسل آپریشنز: وہائی د ی نیشن ہیز بین فیلنگ’ نام کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے، ایسے افسر سرکار کو سبزباغ دکھاتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس سپر کمانڈو ہوتے تو چار آدمی جاکر تمل فلم ‘پیرنمئی’ کی طرح نکسلیوں کا خاتمہ کر دیتے۔
یہی لوگ سرکار کو نکسل مسئلےکے معجزاتی حل بھی‘فروخت’کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً ان پر ہیلی کاپٹر وغیرہ سے ہوا سے گولیاں برسانا؛ جنگل میں آگ لگا دینا؛ ہر آدی واسی کے گھر میں وائرلیس ‘بگ’ لگا دینا؛ ‘گڑھ چرولی ماڈل’ یا ‘آندھرا ماڈل’ کی پیروی کرنا؛ یا ڈرون وغیرہ کا استعمال کرنا۔
گناہ چھپانے کی عادت
انکوائری کے نام پر صرف ناٹک کیا جاتا ہے۔ انکوائری کا بنیادی مقصد ہوتا ہے اپنے لاڈلوں کو بچانا اور کچھ کو قربانی کا بکرا بنانا۔ہمیں بتایا گیا کہ ماضی میں جتنی بھی انکوائری ہوئی ہیں ان میں سے ایک کی بھی رپورٹ جونیئر اور مڈل رینک کے افسروں کو نہیں دکھائی گئی ہے تاکہ وہ غلطیوں کی اصلاح کر پاتے۔
آئی پی ایس افسروں اور سرکار کے ‘ناپاک اتحاد’کی وجہ سے انہیں صاف بچا لیا جاتا ہے اور کچھ جوانوں یا جونیئر افسروں کو قصوروارمان لیا جاتا ہے کہ انہوں نے مبینہ(مگر حقیقت میں غیرموجود)‘اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیزر’پر عمل نہیں کیا ہوگا۔
مروجہ عقائدکے خلاف جوانوں کی ٹریننگ میں کوئی چونکا دینے والی کمی نہیں ہے اصل کمی ان بڑے افسروں کی پلاننگ میں یا منصوبے بنانے میں ہے۔
سرکار کا سچائی سے منھ موڑتے رہنا
یہ چالاک افسر سالوں سے سرکار کو بیوقوف بناتے آئے ہیں کہ کچھ خاص خاص نکسل رہنماؤں کو مار لیا جائے تو نکسل مسئلہ ختم ہو جائےگا۔ یہ لوگ اپنی چھوٹی سوچ کی وجہ سےیہ سمجھ پانے میں معذور محض ہیں کہ جو تحریک 1967 یعنی پچھلے 54 سالوں میں لاکھوں فوجیوں سے ختم نہ ہوسکی، وہ چندرہنماؤں پر منحصرنہیں ہو سکتی۔
یہ لوگ اس بات کو بڑی ہوشیاری سے چھپا جاتے ہیں کہ 54 سالوں سےخفیہ معلومات کے نام پر ایساخوفناک فراڈہو رہا ہے کہ آج تک سرکار کو یہی نہیں پتہ کہ نکسلیوں کےپیسے، ہتھیار اور بھرتی کے ذرائع ہیں کیا؟سرکارنکسل مخالف مہم میں اورطاقت صرف کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن‘آخر میں وجئے ہماری ہوگی’جنگ سے متعلق ایسے متکبرانہ محاورے کا اپنی ہی عوام کے لیے استعمال کرنا نامناسب ہے۔
نکسل مسئلہ صرف’پولیس کا مسئلہ’نہیں ہے جو محض طاقت کے استعمال سےحل ہو جائے اس کےبہت سے پیچیدہ پہلو ہیں۔حکومت کو اپنی جھوٹی اناترک کرکے ان پہلوؤں کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
Categories: فکر و نظر