بڑا سوال ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلاء سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گایا یہ بدنصیب ملک مزید گردآب میں گر جائےگا ۔
امریکہ نے افغانستان سے حال ہی میں فوجوں کے انخلاء کا اعلان کرکے امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکرا فی الحال ترکی کے سپرد کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں 24اپریل سے استنبول شہر میں امن میٹنگ کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
مگر تنازعہ کے ایک اہم فریق طالبان کے اس میں شرکت نہ کرنےکے اعلان سے اس کو ملتوی کردیا گیا ہے اور فی الحال ترکی صرف پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کرےگا۔ لگتا ہے کہ امریکہ، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور اور زمینی صورت حال کو فریز کیا جائے۔
یعنی جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلہ کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر چھوڑ دیاجائے۔
پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا جا رہا ہے کہ کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس 33فیصد علاقے کا کنٹرول ہے، 19 فیصد علاقہ طالبان کے براہ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ 48 فیصد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لیے تنازعہ کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے ۔
فی الحال امریکہ اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس کا ادراک امریکہ کو 2019 میں ہی قطر کے دارلحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہو گیا تھا ۔
باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا گیا تھا کہ ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہو گئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیادیا غیر جانبدار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائےگا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا راستہ ہموار کرکے اس کی نگرانی بھی کرےگی ۔
مگر دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے بس 10روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ہی 18فروری 2020کو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا ۔ اس سے پانچ روز قبل ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اچانک ایک خصوصی طیارہ سے کابل پہنچ گئے تھے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال کے مضمرات کے بارے میں آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد ان کی حکمرانی کا جواز ختم ہو جائےگا ۔
اسی لئے وہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے تاکہ ان کی حکومت کی قانونی اور آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔
اشرف غنی کا ابھی بھی اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار تو ہوں گے مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں ، انہوں نے وعدہ تو کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ مگر 35ملین کی آبادی والے ملک میں جہاں بس9.6ملین افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی بس 25فیصد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں ، ان انتخابات کی اخلاقی حثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے 600کے قریب فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لےکرہندوستان تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔
ابھی تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جئے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ان کے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے ۔
فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے اور ابھی تک انقرہ میں اس کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے کہ ان کا حشر 1987 میں ہندوستان کی امن فوج جیسا نہ ہو، جو 1987 میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیٰحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہونا شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرپیکار ہو گئی ۔
مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ رشتہ اچھے ہیں ، اسی لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کریں گے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنماؤں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔
دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ د اشرف غنی ، ہندوستان اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بنانے کے فراق میں ہیں ، تاکہ وہ کسی بھی طرح طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر 2019 میں ہی امریکہ کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو 2021تک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا اور کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا ء کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید سول جنگ کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟
ان سوالات کا جواب یہی ہے یہ 1839سے ہی افغانستان میں تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ہیں ۔کسی غیر جانبدار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا ء سے 1988کے جنیوا ایکارڈ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔
پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کے بدلے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے ۔
مگر ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بھی اس وقت افغانستان کا طوق گلے سے اتار کر جنیوا ایکارڈ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا اور اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے ۔
امریکیوں کو خدشہ تھا کہ ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بیس بنا کرکے سینٹرل ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دے ، کیونکہ جلد ہی سویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والا تھا اور وسط ایشیاء کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ جنیوا ایکارڈ پر دستخط کرنے کےلیےپاکستان پر دباؤ بنانے کےلیے امریکہ نے 120دن تک ایڈ پر پابندی بھی لگائی تھی ۔
پاکستان چونکہ ابھی بھی اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ 10اپریل 1988کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیےمخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں دھماکہ ہوا ۔ اسلام آباد اور راول پنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہو رہی تھی، جس میں کم از کم 100افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد یعنی 14اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکہ،سویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے ایکارڈ پر دستخط کرکے سویت فوجوں کے انخلا ء پر رضامندی ظاہر کی ۔
صدر ضیاء الحق نے گو کہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے انٹرویوز میں وہ اپنی ناراضگی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ کرسکتی ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں ۔
دستاویزات کے مطابق ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے قیام کے بعد ہی جنیوا معاہدہ پر دستخط ہونے چاہیے۔ گو کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدن حکمت یار نے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے منع کر دیا تھا، مگر پاکستانی افسران کا کہنا ہے کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے نرمی دکھائی تھی ۔
جنیوا ایگریمنٹ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جنیجو حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خود ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں پراسرار موت ہوگئی ۔ اس کی ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں سول وار کا آغاز ہوگیا ۔ 1992 میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا مگر اس کے بعد وہ اگست 1994تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گرپوں کو شکست دےکر کابل پر قبضہ کیا ۔
اس سے قبل 1993 میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی ۔ طے پایا گیا تھا کہ اگلے 18ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدن حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت کا کا م کاج سنبھا ل لیں گے ۔
یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا گیا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکائی گئی ۔ نواز شریف نے کہا کہ؛’ چونکہ یہ معاہدہ اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے ہوا ہے اسی لئے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جراٗت نہیں ہوگی ۔
اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا۔’ مگر اس معاہدہ کی سیاہی خشک ہی نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق 1994کے پہلے چھ ماہ میں ہی کابل میں 25ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست 1994کو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم گئی ۔ 2001 میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2020 امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً 19سال قبل اپریل 1998کو امریکہ کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔
رائے گوٹمین کی کتاب ‘ہاؤ وی مسڈ دی اسٹوری : اسامہ بن لادین ، دی طالبان اینڈ دی ہائی جیکینگ آف افغانستان‘ میں درج ہے کہ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔
پاکستانی سفیرعزیر احمد کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان کو منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیےتعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی ۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں ۔ مگر 19 سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار کے قریب امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور 825بلین ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً ان ہی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔
افغانستان میں تاریخ کو دہرانے کی شروعات ہی 1839کی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تحت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی شروعات ہوتے ہی افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔
مؤرخ ولیم ڈالریمپل کے مطابق برطانوی فوجوں نے کمک بلا کر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اسکے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا ۔ اپنی کتاب رٹرن آف اے کنگ : دی بیٹل آف افغانستان میں وہ رقم طراز ہیں کہ اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے ۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟
شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلئے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ 20ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سویت قبضہ اور پھرنائین الیون کے بعد امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلاء کسی قدیمی یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں ۔
بڑا سوال ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلاء سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گایا یہ بدنصیب ملک مزید گردآب میں گر جائےگا ۔ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر اسی نکتہ پر لوٹ آتی ہیں ۔
افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کورپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ان کی اس حکمت عملی نے ایشیاء کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلا لحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔
انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا ء کے عروج کا نقیب ہوگا ۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر