اگر بی جے پی حکومت کو کووڈ کی دوسری لہر کے بارے میں پتہ نہیں تھا، تب یہ لاکھوں کو اکٹھا کر ریلی کر رہی تھی،یا انفیکشن کے قہرکو جانتے ہوئے بھی یہ ریلی کر رہی تھی، دونوں ہی صورتیں بڑی سرکاری ناکامی کی مثال ہیں۔ پتہ نہیں تھا تو یہ اس لائق نہیں کہ اقتدار میں رہیں اور اگر معلوم تھا تو یہ ان ہلاکتوں کے لیےبراہ راست ذمہ دار ہیں۔
ان کے ایسے دلائل سے اس بار چپ مت ہونا؛
وہ کہیں گے، امریکہ، اٹلی، فرانس، برازیل میں بھی کو رونا سے اموات ہوئی ہیں۔
وہ کہیں گے، وہاں بھی وینٹی لیٹر، دوائی کی کمی سے لوگ مرے ہیں۔
وہ کہیں گے، صرف مودی ہی نہیں، سب انتخابی ریلی کر رہے تھے۔
آئیے، اب ہر نکتے سے ایک ایک کرکے نمٹتے ہیں۔
بالکل صحیح، کورونا سے اموات ہر ملک میں ہوئیں۔ ابھی تک رسمی اعدادوشمارکے حساب سے امریکہ اور برازیل میں ہندوستان سے زیادہ اموات ہوئی ہیں، لیکن ہندوستان والی زیادہ ترا موات کورونا سے نہیں، بدانتظامی سے ہوئی ہیں۔
یہ آکسیجن کی کمی سےہوئی ہیں، دوائیاں، بیڈ اور اسپتال کی سہولیات نہ ملنے سے ہوئی ہیں۔ تو یہ اموات نہیں ہلاکتیں ہیں، سرکاری قتل عام ہیں۔ اگر یہ سب سہولیات ہوتی تو یہ قتل نہیں کہلاتی، موت کہلاتی۔
اگر ماں باپ کی لاپرواہی سے بچہ کی موت ہو جائے، تو وہ بھی ہندوستان کے قانون کے تحت مجرم ہے۔
مرنے والے سب جیتے جاگتے لوگ تھے، جن سے ہم بات کرتے تھے۔ وہ ہمارے دوست تھے، رشتہ دار تھے، ہمارے سکھ دکھ کے ساتھی تھے، جن کا سرکاری قتل ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے، جن کو ہم نے تڑپ تڑپ کر، ایک ایک سانس کے لیے لڑتے ہوئے، مرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اور ہم سب کو پتہ ہے یہ بس رسمی اعدادوشمارہیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہر جگہ اموات چھپائی جا رہی ہیں۔ امریکہ میں اموات چھپانا مشکل ہے، مگر ہندوستان میں ہمیں اموات چھپانے کا سالوں کا تجربہ ہے۔
تویہ اموات نہیں سرکاری قتل عام ہے۔
یہ بھی صحیح ہے دیگر ممالک میں لوگ وینٹی لیٹر، دوائیوں وغیرہ کی کمی سے مرے۔ لیکن کورونا کی پہلی لہر میں۔
مودی سرکار کے پاس پورے ایک سال کا وقت تھا، اس نے لوگوں سے اربوں روپے پی ایم کیئر فنڈ کے نام پر اکٹھا کیے۔ بچوں نے اپنے گلک تک توڑکر ان کو پیسے دیے، لیکن مودی سرکار نے کیا کیا؟
جنوری میں اپنا سینا ٹھونکنا شروع کر دیا تھا، خود اپنی پیٹھ تھپتھپانی شروع کر دی تھی کہ ہم نے کورونا پر فتح پا لیا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے ماہرین پر انگلی اٹھانی شروع کر دی۔ ہمیشہ کی طرح ان لوگوں نے پڑھے لکھے لوگوں کو کمتر دکھانا شروع کر دیا۔
سوچیے، ان لوگوں کو دوسری لہر کے بارے میں پتہ ہی نہیں تھا،تبھی تو یہ بنگال میں لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرکے ریلیاں کر رہے تھے۔ یا پتہ تھا اور یہ پھر بھی ریلیاں کر رہے تھے۔ دونوں ہی صورتیں بہت بڑی سرکاری ناکامی کی مثال ہیں۔
پتہ نہیں تھا تو یہ اس لائق نہیں ہے کہ اقتدار میں رہیں، اور اگر پتہ تھا تو یہ ان ہلاکتوں کی براہ راست ذمہ دار ہیں۔
حد تو یہ بھی ہے انہوں نے کسی گلی کےغنڈے کی طرح ٹیکوں کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا،صوبوں کی سرکاریں ان سے ٹیکوں کی بھیک مانگ رہی تھی۔ آج بھی ہندوستان کی دو فیصد عوام کی بھی پوری طرح سے ٹیکہ کاری نہیں ہوئی ہے۔
یہ آکسیجن پلانٹ بنا سکتے تھے، دوائیوں کا انتظام کر سکتے تھے، ریاستی سرکاروں کی بیڈ بڑھانے میں مدد کر سکتے تھے کیونکہ پی ایم کیئرکا اربوں روپیہ ان کے پاس تھا۔ پر انہوں نے نہیں کیا۔ ایک سال سے یہ اس پیسے پر ناگ بن کر بیٹھے ہیں۔
تویہ اموات،عام موت نہیں ہلاکتیں ہیں، اور میرے حساب سے مودی سرکار پر آئی پی سی کے تحت مجرمانہ طور پر لاپرواہی کرنےکا مقدمہ چلنا چاہیے۔ انہیں ان ہلاکتوں کی سزا ملنی چاہیے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ انتخابی ریلیاں سب نے کی، لیکن ایک فرق ہے۔سرکاری مشینری کس کے پاس ہے؟ آپ کو پتہ ہے ہندوستانی حکومت کتنی بڑی مخلوق ہے۔ کسی آکٹوپس کی طرح اس کی پہنچ آپ کی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔
آپ کیا کھاتے ہیں، کتنا کماتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں اور کیا بیچتے ہیں، ان کو سب پتہ ہے۔ اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں ان کو کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں پتہ نہیں تھا؟
یا تو آپ معصوم بن رہے ہیں یا معصوم بن کر ان کوروناہلاکتوں کو ڈھکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں سب کچھ پتہ تھا۔ لیکن انہیں بنگال جیتنا تھا۔ سینکڑوں ریلیاں کرنی تھی۔
اسی لیے انہوں نے بنگال جیسےصوبے جہاں ایک مرحلے میں ووٹنگ ہو سکتی تھی، وہاں آٹھ مرحلےمیں ووٹنگ کروائی۔ انہیں ہر شعبےمیں وقت چاہیے تھا۔ ریلیاں جو کرنی تھی،پروپیگنڈہ کرنا تھا۔ ان کے منھ خون لگا ہے، انہیں انتخاب جیتنے کی ہوس ہے۔ چاہے لوگ جیےیا مرے۔
آپ کہیں گے انتخاب جیتنا ہر پارٹی کا مقصد ہے۔ جی نہیں،ملک کے لیے کام کرنا، ملک کو آگے بڑھانا، ملک کو ٹھیک کرنا۔ یہ ہر پارٹی کا مقصد ہے۔ اور جب مہاماری کا قہر سر پر ہو، تب ملک کو بچانا ہر پارٹی کا مقصد ہے۔
تو بات یہ ہے، انہیں سب کچھ پتہ تھا، اور انہوں نے جان بوجھ کر کے ملک کو اس موت کے کنویں میں پھینک دیا۔ جو باقی پارٹیاں ہیں، ان کے پاس حکومت ہند کی مشینری نہیں ہے۔ انہوں نے بس ان کی پیروی کی۔
جیسا کہ کہتے ہیں، جیسا راجہ، ویسا دیش۔ اور میں نے راجہ شبد کا استعمال اس لیے کیا کیونکہ جمہوریت میں راجہ ہوتا نہیں ہے، پر ہمارا والا اپنے آپ کو راجہ ہی سمجھتا ہے۔
اس بار ان کے دلائل کا منہ توڑ جواب دینا۔ چپ مت ہونا۔ یہ چلا چلاکر سب کو چپ کرا دیتے ہیں۔ ارتھیاں ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہیں۔ ان چتاؤں کی روشنیاں ہمیں آگے کا راستہ دکھا رہی ہیں۔ اور آگے کا راستہ صاف ہے،ہمیں مل کر ان کی ہیکڑی نکالنی ہے، ان کی انا، ان کا غرور توڑنا ہے۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر