حاملہ ہونے کے باوجود شراوستی ضلع کی اسسٹنٹ ٹیچرسنگیتا سنگھ کی پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی لگائی گئی، جس کی ٹریننگ کے دوران وہ کورونا سے متاثرہو گئیں۔ اس بیچ ان کی ڈیوٹی ہٹوانے کی تمام کوشش ناکام رہی اور ان کی حالت بگڑتی گئی۔ 17 اپریل کو سنگیتا نے بارہ بنکی کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا۔
‘حاملہ بیوی کی انتخابی ڈیوٹی ہٹوانے کے لیے میں چار دن تک دوڑ دھوپ کرتا رہا، حکام سے منتیں کرتا رہا۔ ووٹنگ کے ایک دن پہلے بیوی کو لےکر بلاک پر پہنچا۔بیوی کی سانس پھول رہی تھی۔ میں نے ان کی حالت کا حوالہ دےکرانتخابی ڈیوٹی سے آزاد کرنے کے لیے گڑ گڑایا، ہاتھ پیر جوڑے لیکن کسی نے ایک نہیں سنی۔افسر کہہ رہے تھے کہ انتخابی ڈیوٹی چھوڑی تو کیس درج ہو جائےگا۔ آخرکار میں جان بچانے کے لیے بیوی کو لےکر اسپتال بھاگا لیکن بچا نہیں پایا۔ اسپتال میں بھرتی ہونے کے تین دن بعد وہ ساتھ چھوڑ گئیں۔ پنچایت انتخاب میری بیوی اور اس کے حمل میں پل رہے جڑواں بچوں کو کھا گیا۔ میں برباد ہو گیا۔’
پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی کے دوران ہوئے کووڈ 19انفیکشن سے بیوی سنگیتا سنگھ کو کھونے والے ششانک سنگھ کی آنسوؤں سے بھیگی آواز سن کر کسی کا بھی کلیجہ پھٹ جائےگا۔بتادیں کہ 33 سالہ سنگیتا سنگھ شراوستی ضلع کے گلولا بلاک کے ڈگرا پرائمری اسکول میں اسسٹنٹ ٹیچر تھیں۔ وہ چار مہینے کی حاملہ تھیں، باوجود اس کے ان کی پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی لگا دی گئی۔
انہوں نے انتخابی ڈیوٹی کاٹنے کی درخواست دی لیکن وہ منظور نہیں ہوئی ۔ دس اپریل کو انتخابی ٹریننگ کے بعد انہیں بخار آیا۔ دو دن بعد ہی انہوں نے شوہر ششانک کے ساتھ کورونا جانچ کرائی۔ اینٹی جن جانچ نگیٹو آئی۔ آر ٹی پی سی آر جانچ کی رپورٹ تین دن بعد ملی جس میں وہ پازیٹو تھیں۔
آر ٹی پی سی آر کی جانچ رپورٹ ملنے کے پہلے ہی ان کی طبیعت بگڑنے لگی۔ وہ اپنے ڈاکٹر کی صلاح سے دوائیاں لے رہی تھیں لیکن انہیں سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔
ان کی ڈیوٹی 15 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں لگی تھی۔ انہیں 14 اپریل کو پولنگ پارٹی کے ساتھ انتخابی سامان لےکرپولنگ سینٹر پر جانا تھا۔ وہ14 اپریل کو شوہر ششانک کے ساتھ اس امید میں پہنچی کہ ان کی حالت دیکھ کر انتخابی ڈیوٹی سے آزادکر دیا جائےگا لیکن غیرحساس افسروں نے ایک نہیں سنی۔
سنگیتا اور ششانک صبح آٹھ بجے سے دوپہر ڈیڑھ بجے تک الیکشن ڈیوٹی کٹوانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ تب ششانک ڈیوٹی چھوڑنے پر کیس درج ہونے کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سنگیتا کو علاج کے لیے لکھنؤ لے گئے۔
سنگیتا 14 اپریل کی شام لکھنؤ پہنچ گئیں لیکن انہیں اسپتال میں جگہ نہیں ملی۔ آکسیجن کی کمی سے جوجھ رہے اسپتالوں میں کئی گھنٹے تک سنگیتا کےلیے ایک عدد آکسیجن بیڈ نہیں تھا۔تقریباً چوبیس گھنٹے بعد 15 اپریل کی شام سنگیتا کو چنہٹ کے ایک نجی اسپتال میں جگہ ملی۔
آکسیجن لیول کے لگاتار گرتے جانے پر انہیں بہتر علاج کے لیے بارہ بنکی کے سفیدآبادواقع مییو اسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ تب تک ان کا آکسیجن لیول 37 تک پہنچ گیا تھا۔ تمام کوششوں کے باوجود 17 اپریل کی رات 11 بجے ان کی سانسیں تھم گئیں۔
پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی کے پہلےسنگیتا ایک دم ٹھیک تھیں۔ چار مہینے پہلے انہیں حاملہ ہونے کا پتہ چلا تھا، ان کی ڈاکٹرنے بتایا تھا کہ وہ جڑواں بچوں کی ماں بنیں گی۔ پورے گھر میں خوشی کا ماحول تھا لیکن صرف ایک ہفتےمیں سب کچھ ختم ہو گیا۔
کچھ سالوں کے تعارف کے بعد پچھلے سال جون میں ہی ششانک اورسنگیتا کی شادی ہوئی تھی۔ ششانک اور سنگیتا کے گھر والے دور کی رشتہ داری میں ہیں اور بارہ بنکی میں رہتے ہیں۔سنگیتا بی ایڈ کرنے کے بعد سال 2015 میں اسسٹنٹ ٹیچر بن گئیں، جبکہ ششانک مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے تھے۔
شادی کے بعدسنگیتا کو ڈگرا پرائمری اسکول میں تعیناتی ملی۔ انہوں نے اپنے اسکول سے 12 کیلومیٹر دور تلولا میں رہنے کے لیے کرایے پر گھر لے لیا تھا۔ ششانک بھی وہیں چلے آئے۔
ششانک بتاتے ہیں،‘تلولا میں زندگی اچھی چل رہی تھی۔سنگیتا بہت خاموش مزاج اور قاعدہ قانون پر عمل کرنے والی تھیں۔ انہوں نے کبھی غیر ضروری چھٹی نہیں لی۔ انتخاب میں ڈیوٹی لگی تو میں نے منع کیا اور کہا کہ کیس ہوگا تو دیکھ لیا جائےگا لیکن وہ قانون کا حوالہ دےکر راضی نہیں ہوئیں۔’
ششانک نے بتایا،‘جب 14 اپریل کو پولنگ پارٹیوں کے روانہ ہونے کے دن ہم راج کیہ مہاودیالیہ، لینگڑی گولر گئے تو ان کی حالت لگاتار بگڑ رہی تھی۔ صبح آٹھ بجے سے دوپہر ڈیڑھ بجے تک میں حکام سے فریاد لگاتا رہا کہ سنگیتا کو الیکشن ڈیوٹی سے آزادکر دیا جائے لیکن کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کچھ کہنے پر ڈانٹ ڈپٹ دیا جا رہا تھا۔ تب میں نے فیصلہ لیا کہ نوکری رہے یا جائے، بھلے کیس ہو جائے لیکن سنگیتا کو اسپتال لے جائیں گے۔’
انہوں نے آگے بتایا،‘میں کار سے لےکر لکھنؤ بھاگا۔ شام کو پہنچ گیا لیکن 24 گھنٹے بعد دوسرے دن ہمیں اسپتال میں جگہ ملی۔ اس اسپتال میں بھی آکسیجن کی دقت تھی۔ اس نے اگلے دن دوسرے اسپتال میں لے جانے کو کہا دیا۔ ہم بارہ بنکی کے سفیدآباد کے مییو اسپتال گئے لیکن 17 اپریل کو رات سنگیتا نے دم توڑ دیا۔’
ششانک روتے ہوئے کہتے ہیں،‘ہم دس مہینے ہی ساتھ رہ پائے۔ ہماری زندگی اتنی جلدی ختم ہو جائےگی، کبھی سوچا نہیں تھا۔ ہم اب کہاں جائیں، کیا کریں؟ ہم چوبیس گھنٹے کے ساتھی تھے۔ ایک دوسرے کا منھ دیکھ کر جیتے تھے۔ اب میں کیسے جیوں گا۔ ہمارے جیون میں بچا ہی کیا ہے؟ والدین معذور ہیں۔ بہنوں کے آنے سے دونوں بہت خوش تھے۔ اب وہ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ ریاستی الیکشن کمیشن اور سرکار نے میرے پریوار کو مار دیا۔ چناؤ آیوگ، قاتل آیوگ بن گیا ہے۔’
ششانک نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹریننگ کے دوران دیکھا کہ کووڈ انفیکشن سے بچاؤ کے لیے بنی گائیڈ لائن کی دھجیاں اڑ رہی تھیں۔انہوں نے کہا،‘جہاں ٹریننگ ہو رہی تھی، وہاں 8 اپریل کو ہی ایک خاتون ٹیچر کے کورونا پازیٹو ہونے کی خبر آئی تھی لیکن 10 اپریل کو میں نے دیکھا کہ کوئی احتیاط نہیں برتی جا رہی ہے۔ نہ کوئی جانچ ہو رہی ہے نہ سوشل ڈسٹینسگ، کچھ نہیں تھا۔’
ششانک نے آگے بتایا،‘پرائمری ٹیچرایسوسی ایشن نےپنچایت انتخاب میں ڈیوٹی کے دوران کورونا سے متاثر ہونے سے 700 سے زیادہ اساتذہ اور ملازمین کی موت کی جانکاری دی ہے لیکن تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ سنگیتا کی دوست ایک ٹیچر سمیکشا جیسوال کی بھی انتخاب میں ڈیوٹی لگی تھی۔ ان کی بھی کورونا انفیکشن سے موت ہوئی ہے۔’
(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیرہیں۔)
Categories: خبریں