کووڈ19کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی کوجنم دیا ہے، ویسی تباہی ہندوستان نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ اس بات کے تمام ثبوت ہیں کہ اس کو ٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے کے لیےمناسب قدم اٹھائے جا سکتے تھے۔
ایسے میں جبکہ سارس-سی اووی-2 وائرس کی تباہ کن دوسری لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی، سپریم کورٹ اور متعددہائی کورٹ ملک بھر میں صحت عامہ کے بحران اور شدیدبدانتظامیوں کےمختلف پہلوؤں پر شنوائی کر رہے ہیں۔
جہاں ہائی کورٹ بنیادی طور پر آکسیجن، دوائیوں اور اسپتال میں بستروں کی کمی سے دوچار لوگوں کو فوری راحت دینے سے متعلق پہلوؤں پرگفت وشنید کر رہے ہیں، وہیں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت حاصل زندگی کے حق کی توسیعات کے طور پر صحت عامہ کے حقوق کے بڑے سوال کو اٹھایا ہے۔
یہ گفت وشنید لائق ستائش ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک باضابطہ عدالتی کمیشن کےقیام کی بھی ضرورت ہے، جس میں سپریم کورٹ کےکم از کم تین سبکدوش جج ہوں، اور جو اس بات کی بڑے پیمانے پر جانچ کریں کہ آخرہندوستان کی کووڈ 19مینجمنٹ اس قدرقابل رحم حالت میں کیسےآ گئی۔
سرکار اور اس کی قیادت بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لیے گئے یا نہیں لیے گئے غیرحساس فیصلوں کی وجہ سےاپنی جان گنوانے والے لوگوں کے لیےکم از کم اتنا کرنا تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔
کووڈ19 کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی کو جنم دیا ہے، ویسی تباہی ہندوستان نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی ہے اور اس بات کے تمام ثبوت سامنے آ رہے ہیں کہ اس کوٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے جا سکتے تھے۔
کووڈ کی پہلی لہر کے سامنے ہر جگہ، یہاں تک کہ صاحب ثروت ممالک کےعوامی صحت کے نظام بھی ناکافی ثابت ہوئے۔ لیکن دوسری جانب تیسری لہر کا سامنا کرنے والے کسی بھی ملک نے اس طرح کا انتشار اورموت کے ایسے تانڈو کا سامنا نہیں کیا جیسا ہم آج ہندوستان میں کر رہے ہیں۔
نہ ہی سرکاری سطح پر سیاسی مفادکے لیے کورونا دھماکہ کی ممکنہ وجہ بننے والے تقریبات کو ہری جھنڈی دکھانے والی قاتل ذہنیت کا ہی کہیں ایسا مظاہرہ کیا گیا۔
آج دنیا میں ہو رہا ہردوسراانفیکشن ہندوستان سے رپورٹ کیا جا رہا ہے اور ملک کے کئی حصوں میں ٹیسٹ پازیٹوٹی کی شرح 30 فیصدی سے زیادہ ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ ٹیسٹنگ کا بنیادی ڈھانچہ خود ہی شدید دباؤ میں ہے اور موت کے سرکاری اعداوشمار حقیقت سے کافی دور ہیں۔
دوسری لہر کی شدت کا اندازہ اس معمولی سے اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کروڑ سرکاری معاملے کا اعدادوشمار چھونے میں ہندوستان کو 12 مہینے کا وقت لگا، وہیں ایک کروڑ سے دو کروڑ کا اعدادوشمار صرف چار مہینے میں پار ہو گیا۔
سرکار نے اس لہر کا اندازہ کیوں نہیں لگایا اور ضروری قدم کیوں نہیں اٹھائے گئے، اس سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔
ہندوستانی سارس –کو- وی-2 جین سیکوینسنگ گروپ ، جس پر کہ ملک میں وائرس کے اقسام کی پہچان اور اس کی فطرت کا مطالعہ کرنے کی ذمہ داری ہے، کے ممبر راکیش مشرا نے حال ہی میں کہا کہ مارچ کی شروعات میں ہی ماہرین نے ‘حقیقی خطرے اور ایک خوفناک صورتحال کے خدشات’کو لےکرآگاہ کر دیا تھا۔’
یہ وزیر صحت ہرش وردھن کی جانب سے‘عالمی وباکا کھیل ختم’ہونے کا فاتحانہ انداز میں اعلان کیے جانے سے ٹھیک پہلے کی بات ہے۔
مشرا نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ا ن کے مشیروں نے اس بارے میں نہ بتایا ہو۔
اگر یہ سچ ہے تووزیر اعظم کی ذاتی ذمہ داری اورصحیح معنوں میں مجرمانہ طور پر لاپرواہی اور بڑھ جاتی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف عقل سلیم بلکہ ماہرین کے مشورےکو بھی نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بڑی انتخابی ریلیاں اور ہری دوار میں کمبھ میلے کا انعقاد ہونے دیا اورعوامی صحت کےنظام کی تیاری کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
اعدادوشماربتاتے ہیں کہ مارچ اور اپریل مہینے میں90 لاکھ لوگوں نے کمبھ میلے میں شرکت کی۔ کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں اس کے رول پر خصوصی تکنیکی جانچ بٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔
ہری دوار سے لوٹے لوگوں کا مہلک اور جان لیوا اثرشمالی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں ہر دن محسوس کیا جا رہا ہے۔
مودی نے بیچ لڑائی میں ہی کووڈ 19 پر فتح کاوقت سے پہلےاعلان کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرکز کے کووڈ 19 ٹاسک فورس، جس نے پہلے ہی باقاعدگی سے بیٹھکیں کرنا بند کر دی تھیں،اس نے دوسری لہر کا آنا طے ہونے کے باوجودمینجمنٹ کے اہم پہلوؤں سے چشم پوشی اختیارکرلی۔
اکتوبر، 2020 سے لگ بھگ 5 مہینے تک راحت کے طور پر ہندوستان میں نئے انفیکشن کے معاملے نسبتاًکم رہے۔ دنیا کے باقی ممالک نے پہلی اور دوسری لہر کے بیچ کے وقت کا استعمال صحت عامہ کے ڈھانچے کو بہتر بنانے اور اپنی عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے میں کیا۔
مودی سرکار نے ان دونوں ہی مورچے پر نرمی برتی۔ یہ نہ صرف آکسیجن اور دوائیوں جیسی اہم ضروریات کی خاطرخواہ دستیابی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی، بلکہ اس نے ضروری تعداد میں کووڈ کے ٹیکوں کا پری آرڈر بھی نہیں کیا۔
ہندوستان کے ‘فارمیسی آف دی ورلڈ’ہونے کے دعوے کو دیکھتے ہوئے دوسری بھول خاص طور پر افسوسناک ہے۔
انفیکشن کی موجودہ لہر کچھ ہی ہفتوں میں اپنے آپ ہی سست پڑ سکتی ہے، مگر سوال ہے کہ کیا ہم پھر سے اپنے پرانے ڈھرے پر لوٹ جا ئیں گے؟
اس بحران سے مضبوط ہوکر ابھرنے کا ایک طریقہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کو قبول کرنا شروع کرنا ہے۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل میں ان غلطیوں کا اعادہ نہ کیاجائے، آزادانہ سائنسی امداد کے ساتھ ایک باضابطہ جانچ کمیشن کا قیام ضروری ہے۔
یہ خودبینی کے جذبے کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اس کمیشن کو پچھلے ایک سال کے اہم فیصلے– سرکار کے شروعاتی ردعمل(بنا نوٹس اچانک لاکڈاؤن سمیت)سے لےکر گہری نگہداشت کی توسیع تک کے لیےکیے گئے انتظامات، اس کی ٹیکہ کاری پالیسی، ڈیٹا مرتب کرنا، پی ایم کیئرکے ذریعے فنڈ اکٹھا کرنا،صوبوں کو طبی وسائل کا مختص، میڈیا اور یہاں تک کہ مریضوں کی آوازوں کو دبانے کی کوششیں، سرکاری اور وزارتی اعلانات کی نوعیت اور ان کا جواز تک – جس طرح سے لیے گئے، اس کی پڑتال کرنی چاہیے۔
ایسے کمیشن کے پاس سبھی متعلقہ حکام کو بلانے یا دستاویزوں کو منگانے کا حق ہونا چاہیے ساتھ ہی ان مشوروں اور اطلاعات کو بھی دیکھنے کا اختیار ہونا چاہیے جو فیصلہ لینے کے ہر مرحلے پرحکام کے ذریعے مانگے گئے یا انہیں سرکاری یا غیرسرکاری ماہرین کے ذریعے حاصل ہوئے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جانچ کمیشن کو اپنی کارر وائی وقت ضائع کیےبغیراور کھلے میں کرنی چاہیے۔ بند لفافے یا کیمرے کے سامنے شنوائی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ماضی میں اٹھائے گئے اقدامات کی جواب دہی طےکرنے کی جگہ لوگوں کی زندگیوں کو بچانا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
حالانکہ صرف ماضی میں اٹھائے گئے قدم ہی نہیں، بلکہ موجودہ فیصلے بھی مسائل کو بڑھا رہے ہیں، مگر پھر بھی یہ مجوزہ کمیشن تھوڑے وقت کے بعد بھی اپنا کام شروع کر سکتی ہے۔ لیکن فیصلہ لینے والے اور انہیں لاگو کرنے والے ہر فرد کو ابھی سے اس سچائی سے واقف کرا دینا چاہیے کہ ان کے تمام کاموں کا جائزہ لیاجائے گا۔
وزیر اعظم ایک شفاف جانچ میں دخل اندازی کرسکتے ہیں، لیکن جس طرح سے انہوں نے اس ملک کو گھٹنے پر لا دیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کوئی اور متبادل نہیں ہے۔
آخری سچائی یہی ہے کہ ایک آدمی کے عہدے اور وقارکو ہونے والے نقصان کے مقابلے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں زیادہ قیمتی ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)