بکسر ضلع میں چوسہ کے پاس گنگا ندی سے ملے درجنوں مشتبہ کووڈ 19متاثرہ نامعلوم لاشوں کو پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لیےنمونے لیےجانے کے بعد انتظامیہ نے دفن کر دیا۔ کووڈ انفیکشن کی دوسری لہر کے بڑھتےقہر کی وجہ سے ماہرین لا شوں کو اس طرح سے ندی میں بہائے جانے کو بےحدتشویشناک بتا رہے ہیں۔
اتر پردیش سےمتصل بہار کےبکسر ضلع میں چوسہ شمشان کے پاس گنگا ندی سے برآمدمشتبہ کووڈ 19سےمتاثرہ درجنوں نامعلوم لا شوں کو سوموار کوضلع انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم او ر ڈی این اے ٹیسٹ کےلیے نمونے لےکر دفن کر دیا۔
بکسر صدر کے ایس ڈی او کے کے اپادھیائے نے دی وائر کو بتایا،‘تمام لا شوں کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا ہے تاکہ موت کی وجہ کا پتہ لگایا جا سکے۔’لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کا انکشاف نہیں ہو سکا ہے۔بکسر کے سول سرجن ڈاکٹر جیتندر ناتھ نے بتایا،‘لاش کافی سڑ چکے تھے،اس لیےموت کی وجہ کا انکشاف نہیں ہو سکا ہے۔’
غورطلب ہے کہ اتوار کو مقامی لوگوں نے ندی میں لاشوں کو تیرتا ہوا پایا تھا اور انتظامیہ کو اس کی جانکاری دی تھی۔ سوموار کو بھی لاشیں دیکھی گئیں تو ضلع کے سینئر حکام وہاں پہنچے اور لاشوں کو ندی سے برآمد کر دفن کرانے کا فیصلہ لیا۔
ایس ڈی او اپادھیائے کا کہنا ہے کہ لاش ممکنہ طور پر اتر پردیش سے بہہ کر آئی ہوں گی اور لاشوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ 3-4 دن پہلے انہیں ندی میں پھینکا گیا ہوگا۔
حالانکہ مقامی لوگوں اور شمشان گھاٹ پر موجود لوگوں کی مانیں تو آس پاس کے گاؤں کے لوگوں نے ہی لاش پھینکی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ لاشوں کو جلانے کے لیے لکڑیاں کم پڑ رہی ہیں جس وجہ سے بازار میں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کو آسانی سے لکڑی مل بھی نہیں رہی ہے، اسی لیے صرف مکھاگنی(آگ)دےکر ہی لاشوں کو ندی میں بہا دے رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ بکسر ضلع کے کنارے سے ہوکر گنگا ندی بنگال میں داخل ہوتی ہے۔ بکسر میں سب سے بڑا شمشان گھاٹ چرترون شمشان گھاٹ ہے۔ اسی شمشان گھاٹ پر کووڈ 19متاثرہ لا شوں کے آخری رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ لوگ تقریباً100کیلومیٹر دور اتر پردیش کے وارانسی میں بھی لاشوں کےآخری رسوم کے لیے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، بکسر سے متصل روہتاس ضلع کے لوگ بھی چرترون گھاٹ اور چوسہ گھاٹ پر لاشوں کے آخری رسوم کے لیے آتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، شمشان گھاٹ پر کرم کانڈ کرانے والے پنڈت اور لاشوں کا داہ سنسکار کرانے والے ڈوم نے بتایا ہے کہ گھاٹ کے پاس برآمد لاش کہیں اور سے بہہ کر نہیں آئی ہیں بلکہ مقامی لوگوں نے یہاں پھینک دیا ہے۔
ان کے مطابق، کورونا سے پہلے اس گھاٹ پر روزانہ 4-5لاش آتی تھی، لیکن ابھی روزانہ چار سے پانچ گنا زیادہ لاش گھاٹ پر آ رہی ہیں۔کے کے اپادھیائے نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں پتہ نہیں ہے کہ وہ لاش کووڈ 19 متاثر تھے کہ نہیں، اس لیے احتیاط کے طور پر لاشوں کو دفن کرنے میں لگے ملازمین کو پی پی ای کٹ دیے گئے تھے۔
حالانکہ دیہی علاقوں میں کووڈ 19 کی دوسری لہر سے مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی معاملوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ دیہی علاقوں میں لوگ کووڈ 19 سے ملتے جلتےآثارکی وجہ سے مر رہے ہیں۔
چونکہ ان کے گھروں سے جانچ مراکز کافی دور ہیں تو وہ جانچ کرانے نہیں جاتے ہیں اور مقامی دوا دکانوں سے دوائیاں لےکر کھاتے ہیں۔ اس سے ان میں سدھار تو نہیں ہوتا، لیکن مقامی دوا دکانداروں کے چکر میں ان مریضوں کے اہم5-6 دن نکل جاتے ہیں اور آخرکار ان کی جان چلی جاتی ہے۔
ایسےلا شوں کےآخری رسوم میں کسی طرح کے کووڈ پروٹوکال پر عمل نہیں کیا جاتا ہے اور لاشوں کو ایسے ہی ندی میں بہا دیا جاتا ہے۔بکسر کے نچاپ گاؤں میں پچھلے ایک مہینے میں6 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ان سب میں کم وبیش ایک ہی طرح کے آثارتھے، لیکن ان میں سے دو لوگوں کی ہی موت سے پہلے جانچ ہو پائی تھی۔
اس گاؤں کی آبادی تقریباً12000 ہے۔ گاؤں کے مکھیا ویرو کمار سنگھ نے دی وائر کو بتایا،‘موت کے کئی واقعات ہونے کے بعد ضلع انتظامیہ نے نوٹس لیا اور 10 مئی کو گاؤں میں کیمپ لگاکر کووڈ 19 جانچ کی گئی۔’
ضلع انتظامیہ نے لاشوں کی برآمدگی کو ایک عام واقعہ کی طرح ہی دیکھا ہے، لیکن ماہرین اس طرح مشتبہ کووڈ 19متاثرہ لاشوں کو ندی میں پھینکے جانے کو بے حد تشویشناک مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے انفیکشن کا خطرہ اور بڑھ سکتا ہے۔
بچوں کے امراض کے ماہرا ور نیشنل ہیلتھ مشن کے آزاد مانیٹر ڈاکٹر کے آر انٹونی نے کووڈ 19 متاثرہ لا شوں کو ندی میں پھینکے جانے کو خطرناک بتایا ہے۔انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘کووڈ 19متاثرہ مریض کےبدن سے نکلنے والے ڈراپ لیٹس کھلےماحول میں اگر دھوپ ہوتو 5-6 گھنٹے میں سوکھ جاتے ہیں اور وائرس مر جاتا ہے۔ لیکن اگر وائرس ایسی جگہ پر ہو جہاں نمی ہےتو وہ کئی گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے۔’
‘یہ بات سچ ہے کہ کووڈ 19انفیکشن کے شکارشخص کی موت ہو جانے پر اس کے بدن میں موجود وائرس ایروسول و ڈراپ لیٹس کے ذریعے دوسرے لوگوں کے بدن میں نہیں پہنچے گا کیونکہ مرنے والے کی سانس رک جاتی ہے۔ لیکن مرنے والے کے بدن کے ٹشوزمیں وائرس گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے،’انہوں نے کہا۔
ڈاکٹر انٹونی نے آگے بتایا،‘ایسی حالت میں اگر کوئی کووڈ 19متاثرہ لاش ندی میں پھینک دی جاتی ہے اور اس ندی کا پانی ٹھہرا ہوا ہے تو جو لوگ پانی کا استعمال نہانے و پینے میں کرتے ہیں، ان میں انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔ ہاں، اگر پانی میں بہاؤ بہت تیز ہے تو وائرس و دوسری آلودگی پانی میں گھل جائیں گی ۔ لیکن، گنگا کے پانی میں ٹھہراؤ ہے۔’
(امیش کمار رائے آزادصحافی ہیں۔)
Categories: خبریں