کوروناانفیکشن مودی حکومت کی اسکرپٹ کے حساب سے نہیں آیا اس لیے اس کا کوئی تسلی بخش جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
لوگ ہیں کہ مرے جا رہے ہیں، اور وہ اپنے مقامی ایم ایل اے،ایم پی ، رہنما،فلانےڈھمکانے کو فون، پیغام ، وہاٹس ایپ پر مدد کے لیے پکار رہے ہیں، جن کے مناسب جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔
ایک طرح کی بے بسی اور جسے بائرس ریمورس (خراب سودا کرنے کا افسوس)ان لوگوں میں صاف دکھائی دے رہا ہے، جو ابھی تک نریندر مودی کی تمام نادانیوں، ناکامیوں، غلطیوں اور عوام مخالف سفاکیوں کو نظرانداز کیے جا رہے تھے۔ جو سب سے مضبوطی سے ان کی ہر بات میں ماسٹراسٹروک دیکھ رہے تھے۔
جوش کم ہو رہا ہے۔اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کے پرجوش حامی تھے، اب تھوڑا چپ ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہیں خود وزیراعظم بھاؤ دیتے رہے ہیں۔
ان میں ان کے بنارس لوک سبھا انتخاب کےتجویز کنندہ اور مشہور گلوکار پنڈت چھنولال مشر کی بیٹی شامل ہیں اور آگرہ کے یہ امت جیسوال جین بھی، جس کو مودی جی خود ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں، جس کا دم فریاکرتے کرتے نکل گیا اور ان کے گھر والوں نے اس کی کار سے مودی جی کا چسپاں پوسٹرپھاڑ ڈالا۔
سنتوش گنگوار جو مودی کابینہ میں ہیں، انہیں اپنی ہی پارٹی کے یوگی آدتیہ ناتھ کو چٹھی لکھ کر وہ سب نشان زد کرنا پڑا، جس کو لےکر باقی عوام پر سخت قانونی کارروائی کی تلوار کبھی بھی گر سکتی تھی۔
انوپم کھیر جیسے مودی حامی کا یہ کہنا کہ زندگی کسی ایک کی شبیہہ سازی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، ایک طرح سے بدلتی ہوا کی طرف اشارہ ہے۔ کچھ سبرامنیم سوامی کی طرح ہیں جو سرعام حکومت کو لعنتیں بھیجنے لگے ہیں۔
یہ بات اسی سوال کی طرح ہے جو کینیڈاشہری اکشے کمار نے بہت گہری تحقیقات کے بعد ڈھونڈ نکالی تھی آپ آم کو چوس کر کھانا پسند کرتے ہیں یا کاٹ کر؟ یہ سوال مودی کے ہرحامی کے سامنے ہیں۔
ملک یا نریندر مودی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں اور حامیوں کو شاید سمجھ میں آنے لگا ہے کہ وہ ایک مشکل دوراہے کے قریب ہیں، جہاں انہیں آخرکاریہ چننا پڑےگا کہ ملک یا نریندر مودی۔ اور یہ سوال انہیں پریشان کر رہا ہے۔
انہیں سمجھ میں آ رہا ہے کہ جتنی اہمیت وہ اپنی قیادت کو دیتے رہے ہیں، اس سے ان کا سپورٹ بیس دور کھسکتا جا رہا ہے۔ جب وہ خود اور ان کے لوگ مشکل میں پڑ رہے ہیں تو حکومت اور اس کے مکھیا کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔
اس وقت ہر شخص کے پاس موت کی کوئی نہ کوئی داستان ہے ۔بالخصوص ہندو ووٹ بینک والے صوبوں میں۔ ان میں سے کچھ ابھی بھی ہیں، جواپوزیشن پر الزام یا ادھرادھر کی باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ اب بھی اعدادوشمار پر نقاب ڈالنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو ٹیسٹ کم کروا کے، اسپتال کے اعدادوشمارکو جھٹلا کر، آکسیجن کی کمی نہ مان کر اور آخری رسومات کی تعداد چھپاکر چاہتے ہیں کہ کووڈ کی بلا ٹل جائےگی۔ گجرات سے لےکر اتر پردیش تک حکومت سرے سےجھوٹ بولنے پر آمادہ ہیں۔ اور لاشیں ہیں کہ ان کے جھوٹ کو روز بے نقاب کر رہی ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سب تو نہیں، پر کچھ لوگ تو ایسا سوچ رہے ہیں کہ ان کا سیاست میں ہونے کا کیا مطلب رہ گیا ہے۔ خاص طور پر وہ بھی جنہوں نے آسام یا بنگال میں پارٹی کی بنیاد مضبوط کرنے میں کافی محنت کی پر لیڈری ان لوگوں کو ملی، جو گھس پیٹھیے اور پارٹی بدل کرآئے تھے۔
کیا بھولیں، کیا یاد رکھیں
ایک طبقہ ایسا ہے جو مانتا ہے کہ 2024 آنے میں ابھی وقت ہے اور تب تک لوگوں کے آنسو سوکھ چکے ہوں گے اور وہ بھول جا ئیں گے کہ ان کے گھر کے لوگ زندہ ہوتے اگر حکومت نے وقت رہتے کورونا سے نمٹنے کے قدم اٹھائے ہوتے۔
ہم اپنے گھر کے لوگوں، اپنے دوستوں، پڑوسیوں، رشتہ داروں کے مرنے کو بھول جا ئیں گے، ہم اس بدحواسی اور بے بسی کو بھول جا ئیں گے، جو ایک سانس نہ لے پا رہا ملک محسوس کر رہا تھا۔ جب پوری دنیا ہندوستان کو بھیڑ سے بچنے کو کہہ رہی تھی، ہندوتوادی کمبھ کی بھی ہانک لگائے تھے، اور انتخابی ریلیوں میں بھی۔
جب سائنسداں لوگ دوسری لہر کی وارننگ دے رہے تھے، ہمارے رہنما حضرات سپراسپریڈر بنے پھر رہے تھے۔ ہم ان 700 سے زیادہ اساتذہ کو بھول جا ئیں گے، جنہیں زبردستی اتر پردیش پنچایت کی الیکشن ڈیوٹی پر بھیجا گیا، اور ان 800 سے زیادہ ڈاکٹروں کو بھی، جو خراب سسٹم ، کام کے بوجھ اورکشیدگی کے بیچ کورونا کے شہید ہوئے۔
اس طبقے کی امید اس بات پر قائم ہے کہ ہم مودی جی کے بنائے ٹوائلٹ یاد رکھیں پر گنگا میں تیرتی لاشوں کو بھول جائیں۔
ہم گوبر، گئوموتر، رام دیو، کورونل کے چمتکاروں سے مرعوب ہونا بند نہ کریں اور بھول جائیں کہ جس حکومت کو اچھے دن کے لیے ووٹ دیا تھا، وہ آپ سے سچائی،حقائق ،اعدادوشمار سب میں ہیراپھیری کر رہی ہے۔ جیسے عدالت ان دیکھا کر رہی ہے، جیسے الیکشن کمیشن نے کیا۔
پٹرول سو کا ہوتے ہی مودی جی کی تصویر پمپوں سے پتہ نہیں کیوں ہٹوا لی گئیں۔ رہنے دیتے۔ جو ویکسین ٹھیک سے نہیں بانٹ پا رہے، آخر اس کے سرٹیفیکٹ پر بھی تو چہرہ انہی کا لگا ہے۔جس وینٹی لیٹر پر آپ نے اپنے گھر والوں کو ٹھیک کرنے کو بھیجا تھا، وہ پی ایم کیئرس کا تھا اور بنا ہی خراب ہونے کے لیے تھا۔ آپ سے امید ہے کہ آپ بھول جائیں۔
گزشتہ13 مئی کو جب سپریم کورٹ نے حکومت سے یہ پوچھا کہ آبادی کے کتنے فیصدی لوگوں کو پورے ٹیکے لگ گئے۔ جواب ملا 22 لاکھ۔ جبکہ 6 کروڑ سے زیادہ ٹیکےحکومت غیرممالک میں بانٹ آئی۔
کبھی یہ کہہ کر کہ یہ ہماری ویکسین دوستی ڈپلومیسی کا حصہ تھا، اور اب یہ کہہ کر کہ وہ تجارتی معاہدے کا حصہ ہے۔ آپ بھول جائیں۔ آپ یاد نہ رکھیں یہ اعدادوشمار۔ آپ وزیر اعظم کا وہ چہرہ یاد رکھیں جو آپ کے سرٹیفیکٹ پر لگا ہے۔ وہ نہ ہوتے تو یہ سب کیسے ہو پاتا۔ وہی تو، وہ ہوتے تو یہ سب کیسے ہو گیا؟
ان میں سے کچھ کو پتہ ہے کہ وہ صحیح نہیں ہیں۔ لوگ نہیں بھولتے۔ اور تب تو خاص طور پر نہیں، جب لوگ زندہ رہ سکتے تھے۔ جب موت کاماتم بھی ٹھیک سے نہیں کیا جا سکا ہے۔ نہ گلے لگ سکے ہیں، نہ حوصلہ دے سکے ہیں۔
ان کے من کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اس وقت چپ رہنا اور جھوٹ کا ساتھ دینا نہ صرف خود کے ساتھ بلکہ ملک اور اس کے لوگوں کے ساتھ بھی بےایمانی کرنا ہے۔
ایک زمین ہے جو دھیرے دھیرے کھسک رہی ہے
مودی حامی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کو ایسا اس لیے بھی لگ رہا ہے کیونکہ خراب حکومت کی آنچ سے وہ ابھی تک بچے ہوئے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں تھے، جن کی شہریت پر سوال کر ووٹوں کی فصل کاٹی جانی تھی۔
وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہیں تھے، جو آئین اور شہری حقوق کی بات کر بنا کسی جانچ یا الزام کے جیل بھیج دیے گئے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں تھے، جنہیں ملک کی دانش گاہوں میں نوجوانوں پرپولیس کارروائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے جنہیں برا تو لگا تھا پر وہ چپ لگا گئے تھے۔ بنا ان تمام لوگوں کی تکلیف دیکھے، جن کی حمایت سے انہوں نے انتخاب جیتے تھے۔ جنہیں فرق نہیں پڑا کہ معیشت کے خستہ حال ہونے، ریکارڈ غریبی اور بےروزگاری بڑھنے سے۔
ان کے لیے مندر کافی تھا، سیاسی طور پر روٹیاں سینکنے کے۔ اتنی ساری لاشیں بیچ میں آ جائیں گی کس نے سوچا تھا۔ اور ہر لاش ایک سوال ہے۔ ایک دخل اندازی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت اور انتظام و انصرام پر ایک سند ہے۔
مرنے سے پہلے ایک حلفیہ اعلان چھوٹ گیا ہے موبائل، ویڈیو کال اور وہاٹس ایپ میں۔ اس اٹکی ہوئی سانس میں، دھیمی ہوتی نبض میں۔ وہ زندہ رہتے۔ اگروقت رہتے قدم اٹھائے گئے ہوتے۔اگر ویکسین پہلے ملک میں استعمال کی گئی ہوتی۔آکسیجن کا انتظام وقت رہتے کر لیا جاتا۔ غیرممالک سے آئی مدد کسٹم کلیرنس میں اٹکاکر نہیں رکھی ہوتی۔ ویکسین اور آکسیجن کو جی ایس ٹی سے معاف کر دیا جاتا۔
دنیا اور ملک کے ماہرین جو کہہ رہے تھے، ان کی وقت رہتے سن لی جاتی۔ اپوزیشن کو ساتھ لےکر چلا جاتا۔
آخر یہ مذاق کب تک چل سکتا تھاکہ ملک کا وزیر صحت کسی دن ایک نیم حکیم کے نام نہاد نسخے کا میڈیکل نمائندہ بنا پھر رہا تھا اور کسی اور دن ڈارک چاکلیٹ کھاکرکورونا سے لڑنے کی حمایت کر رہا تھا۔ایسا کب ہی ہوا ہوگا کہ ملک کا انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن ملک کے وزیر صحت(جو خود کو ایلوپیتھی کی ڈگری والا بتاتے ہیں)کو بات بات پر جھاڑتا ہوا نظر آئے۔
اتنی بڑی بھول، چوک، غلطی ہو گئی اور اس کا کوئی ذمہ دار ہی طے نہیں کیا گیا۔ کسی سے نہ استعفیٰ لیا گیا، نہ کسی کی نوکری گئی۔ سوا ئےان لوگوں کو تنگ کرنے کےجو غیرحاضرحکومت کی وجہ سے دوسروں کی مدد کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔
ہماراوزیر اعلیٰ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہمارا وزیر خارجہ اور ہماراوزیر صحت ، ہمارا وزیرریل جھوٹ بول رہا ہے۔ سب بھول جا ئیں گے ہم۔
انہوں نے کہا تھا، میں بنارس آیا نہیں ہوں، مجھے گنگا مئیا نے بلایا ہے۔اس گنگا مئیا میں لاشیں ہیں جو بہی جا رہی ہیں۔ ان کی اپیل ہے کہ لوگ بھول جائیں کہ جب ہندستان پوری دنیا کے سامنے کٹورا لےکر کھڑا تھا، تب ہندوستان میں ایک کوروناباد میں مودی محل بہت ضروری کام کی طرح کھڑا کیا جا رہا تھا۔
تذبذب میں دونوں گئے
ان لوگوں کا تذبذب بہت جائز ہے۔ ایک تو یہی کہ اکثریت ہونے کے بعد بھی انہیں آکسیجن، ویکسین، اسپتال میں بستر، دوائیں اور شمشان میں جگہ نہیں مل پا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ جب اتنی ہائے ہائے مچی ہے، تو پھر حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیسی بیٹھی ہے۔
تیسرا،حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، تو ان کا استعمال لیپا پوتی اور جھوٹ بولنے کے لیے کیوں کیا جا رہا ہے؟ چوتھا، جب غیر بھاجپائی لوگوں کی مدد کرنے آگے آ رہے ہیں، تو ان کی پارٹی ان کو سیاسی مفاد سےمتاثر کیوں بتلائے جا رہی ہے۔ انہیں کوس رہی ہے۔
پانچواں یہ کہ حکومت کے لوگ بجائے دنیا بھر کےماہرین کی سننے کی بجائے نیم حکیموں کو کیوں ترجیح دیےجا رہی ہے۔
یہ بھی کہ جب لوگ مر رہے ہیں تب انہیں اس بات کے لیے تنگ کرنا کہ کسی کے لیے آکسیجن کیوں مانگی، یا پھر شمشان کے فوٹو کیوں کھینچ لیے،یا سینٹرل وسٹا ایک ضروری کام ہے جو رک نہیں سکتا اس فطرت کو ہی نشان زد کرتی ہے، جو حکومت کو غیرانسانی، غیرجمہوری ، غیرحساس اور سفاک بناتی ہے۔
اس میں ایک اور بات خاص ہے کہ ان میں سے بہتوں کو چمتکار، ینتر تنتر منتر، کنڈلی، گائے، گوبر، گئوموتر، کورونل پر اتنا یقین ہے کہ انہیں لگتا ہے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پر ایسا سوچنے والے بھی ہندستان میں کتنے لوگ آئے اور کٹ لیے۔
تاریخ سے کچھ سیکھنے کے لیے اسےتھوڑا پڑھنا پڑتا ہے اور ہم لوگوں کے لیےفکشن سچ سے زیادہ سچے اوراہم ہیں۔ جیسے مودی جی اپنی زندگی میں ہی فکشن بن گئے ہیں۔ پر پی پی ای پر ابھی بھی جی ایس ٹی 18فیصد ہے۔ وینٹی لیٹر اور آکسیجن کانسینٹریٹر پر 12فیصد۔
معافی وہ مانگیں گے نہیں۔غلطی کو مانیں گے نہیں۔ اکڑ وہ چھوڑیں گے نہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سچ وہ کہیں گے نہیں۔ بھلے ہی ہندوستان کے لوگوں کو اس کی کتنی بھی خوفناک قیمت چکانی پڑے۔ پرائم ٹائم کے مسخرے سسٹم کو قصور دےکر مودی جی کو بچانے کی شاندار اور باریک کوشش میں لگے ہیں۔ سسٹم کس کا ہے؟ کون چلا رہا ہے؟
پارٹی کے کئی سارے لوگ صاف کہیں گے تو نہیں پر خفیہ طور پر چاہتے ہیں کہ کسی دن تیجسوی سوریا کی طرح صاحب کو بھی دوچار سوالوں کا سامنا کرنا پڑے، جو چاٹنے اور کاٹنے سے زیادہ بامعنی ہوں۔
دقت ایک ہی تھا۔ کورونا ان کی اسکرپٹ کے حساب سے نہیں آیا تھا۔ اور اسی لیے اس کا کوئی تسلی بخش جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔ زندہ لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی خاموشیاں بول رہی ہیں اور پڑھی جا رہی ہیں۔
لاشیں پوچھ رہی ہیں اس ملک کا انچارج کون ہے؟
(ندھیش تیاگی سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر