کورونا کی دوسری لہر کے قہر کے دوران دوا، آکسیجن وغیرہ کی کمی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے اسپتال کی چوکھٹ اور علاج تک بھی بہ آسانی رسائی میسر نہیں ہے۔
گورکھپور: ضلع کے بانس گاؤں نگر پنچایت کے وارڈ نمبر چھ کے باشندہ55سالہ ہیرالال کی25 اپریل کو گورکھپور کے لیول ٹو کووڈ اسپتال(100 بیڈ کا ٹی بی اسپتال)میں موت ہو گئی۔ گزر نے سے پہلے ہیرالال کو کووڈ 19 سے ہی نہیں بلکہ علاج کے لیے بنے اس سرکاری اسپتال کے بدترین انتظامات سے بھی جوجھنا پڑا تھا۔
ان کے بیٹے اجئے کمار کو لگتا ہے کہ اگر اس اسپتال میں انہیں ٹھیک سے علاج ملا ہوتا تو اپنے والد کو نہیں کھوتے۔ وہ کہتے ہیں،‘اسپتال میں کوئی انتظام نہیں تھا۔ کوئی شنوائی نہیں۔ میں نے ڈاکٹروں اور اسٹاف کو مریضوں کے تیمارداروں پر چلاتےاور گالی دیتے سنا۔ اسپتال میں جو گیا بچا نہیں۔ کئی لوگ تو بھرتی کے انتظار میں ایمبولینس میں ہی تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ ‘
ہیرالال کو 17 اپریل کو پہلے بخار آیا۔ انہوں نے نجی ڈاکٹر کو دکھایا اور دوائیاں لیں۔ آرام نہ ہونے پر وہ 21 اپریل کو بانس گاؤں سی ایچ سی گئے اور کورونا کی جانچ کروائی، جو نگیٹو آئی۔ دوا لےکر لوٹ آئے لیکن ایک دن بعد ان کی سانس پھولنے لگی۔
انہوں نے 23 اپریل کو پھر سی ایچ سی پر ہی جانچ کروائی۔ اس بار رپورٹ پازیٹو آئی۔ ڈاکٹروں نے انہیں گورکھپورضلع اسپتال بھیج دیا۔ وہ اسی دن ضلع اسپتال پہنچے، جہاں سے انہیں نندانگر واقع سو بیڈ کے ٹی بی اسپتال میں بنائے گئے لیول ٹو کووڈ اسپتال بھیج دیا۔ یہاں دو دن بعد 25 اپریل کی دوپہر ان کی جان چلی گئی۔
ہیرالال کے بیٹے اجئے بتاتے ہیں کہ اس کووڈ اسپتال میں زبردست بدانتظامی تھی۔ انہوں نے بتایا،‘جب والد کو لےکر اسپتال پہنچا تو ہم سے کہا گیا کہ جگہ نہیں ہے۔ آکسیجن کا انتظام نہیں ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی مجبوری میں بھرتی کرایا کہ کہیں اور اسپتال میں جگہ نہیں مل پا رہی تھی۔ یہاں لگاتار درخواست کے بعد دوائیاں دی جاتی، آکسیجن لگایا جاتا۔ میں خود ماسک و گلوس لگاکر والد کو گرم پانی و ضرورت کا سامان دینے جاتا۔ ہم سے ہی نیوبلائزر منگایا گیا۔ سانس کی دقت جب بڑھ گئی تو پہلی منزل پر وہیل چیئر پر بٹھاکر میں ہی لے گیا۔’
اجئے نے آگے بتایا،‘اسپتال میں کافی گندگی تھی۔والدکے بیڈ کے آس پاس خود کئی بار میں نے صفائی کی۔ میں نے اس دوران دوسرے اسپتالوں میں اچھے علاج کے لیے لے جانے کی سوچی لیکن کافی کوشش کے بعد بھی جگہ نہیں ملی۔ تین دن میں صرف دو بارانہیں دوائیاں دی گئیں۔ موت کے پہلے جب حالت بگڑنے لگی، تو جلدی جلدی کئی انجکشن لگائے گئے۔ پر ان کی موت ہو چکی تھی۔ باربارگزارش کے باوجوددو گھنٹے تک کوئی ڈاکٹریاا سٹاف انہیں دیکھنے تک نہیں گیا۔ میں ڈاکٹر سے کہتا رہا کہ مجھے حالت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے، ایک بار دیکھ لیجیے لیکن پورے دو گھنٹے بعد ہی ڈاکٹر گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر علاج میں لاپرواہی نہیں ہوئی ہوتی تو میرے والد بچ جاتے۔’
کووڈ19کی دوسری لہر میں ہیرالال جیسے تمام مزدوروں نے جان گنوائی ہے۔ ان غریب مزدوروں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ مہنگے نجی اسپتالوں میں بھرتی ہو پاتے۔ مجبوری میں انہوں نے سرکاری اسپتالوں کا ہی رخ کیا، جہاں انہیں بدانتظامی، آکسیجن کی کمی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اور اسٹاف کے بیہودہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
ہیرالال بانس گاؤں چوراہے پر بائیس سالوں سے انڈے کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ ہیرالال نے پہلے کرانہ کی دکان کھولی تھی، وہ ٹھیک سے چل نہیں پائی تو انڈے کا ٹھیلا لگا لیا۔ تقریباً پندرہ سال کی عمر سے اجئے بھی باپ کا ہاتھ بٹانے ٹھیلے پر لگ گئے۔ شام چار بجے سے رات آٹھ نو بجے تک اس ٹھیلے سے ایک پیٹی یعنی تقریباً200 انڈوں کی بکری ہو جاتی تھی۔ یہی ٹھیلا ہیرالال کی بیوی، دو بیٹے، چار بیٹیوں والے بڑی فیملی کا سہارا تھا۔
اجئے نے بتایا کہ کوروناسے متاثر ہونے کے پہلے والد کوصحت سے متعلق کوئی پریشانی نہیں تھی۔ نوراتری کے پہلے تک ٹھیلا بھی لگا تھا، حالانکہ لاک ڈاؤن لگنے کے بعد سے کام بند ہوا، جو اب تک بند ہی ہے۔
گورکھپورکے چوری چورا کے پاس ڈمری خورد گاؤں کے رہنے والے 56سالہ کنہیا وشو کرما کو تو اسپتال بھی نصیب نہیں ہوا۔ بخار ہونے پر بیٹے سورج نے دوا لاکردی لیکن طبیعت نہ سدھری۔ پھر سانس پھولنے لگی تب سورج 24 اپریل کو انہیں کھٹہواں واقع ایک نجی اسپتال لے گیا۔ وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا تو وہ دوسرے نجی ڈاکٹر کے پاس گئے۔
ڈاکٹر نے بنا جانچ دوا دینے سے منع کر دیا۔ سورج والد کو لےکر کرمہا واقع سردار نگر پرائمری ہیلتھ سینٹر گئے۔ سورج نے بتایا،‘وہاں جانچ کرانے کے لیے15-20 لوگ تھے۔ 14واں نمبر ملا۔ پر وہاں موجود ٹیکنیشین نے کہا کہ جب 50 لوگ ہو جا ئیں گے تب جانچ ہوگی۔ والد کی سانس پھول رہی تھی لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ جانچ کرانے میں تین گھنٹے لگ گئے۔’
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ پازیٹو آئی تو وہاں موجود ڈاکٹر نے تین دن کی دوا دےکر گھر لے جاکر علاج کرنے کو کہا۔ لیکن گھر لوٹنے کے بعد کنہیا کی حالت اور خراب ہو گئی۔ علاج کے لیے کہیں اور لے جاتے کہ انہوں نے دم توڑ دیا۔
کنہیا سون برسا میں سیمنٹ پائپ بنانے والے ایک چھوٹے ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ سورج بتاتے ہیں،‘پاپا روز سائیکل سے دس کیلومیٹر دور کام کرنے جاتے تھے۔ ایک دن میں400 سے 500 روپے مزدوری مل جاتی تھی۔ پورے گھر کا خرچ وہی چلاتے تھے۔ بڑے بھائی ذہنی طورپرٹھیک نہیں ہیں۔ ان کی شادی ہو گئی ہے اور تین بچہ بھی ہیں۔ ان کی فیملی کا پورا خرچ پاپا ہی اٹھاتے تھے۔ سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ ممی آٹھ سال پہلے ساتھ چھوڑ گئیں تھیں، اب پاپا بھی چلے گئے۔ گھر میں اب کوئی بڑا نہیں ہے۔ ہم لوگ کیسے زندہ رہیں گے؟’
اٹھارہ سالہ سورج غصے میں کہتے ہیں،‘سرکاری اسپتال نے صرف جانچ کر اپنا کورم پورا کر لیا۔ اسپتال کو پاپا کو بھرتی کر علاج کرنا چاہیے تھا یا بتانا چاہیے تھا کہ انہیں لےکر کہاں جائیں۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ کورونا کا علاج کہاں ہوتا ہے۔ اگر اسپتال سے بتایا گیا ہوتا تو کسی طرح ضرور جاتا۔ پاپا کو اسپتال مل گیا ہوتا تو ان کی جان بچ جاتی۔’
انہوں نے آگے بتایا،‘پاپاکی موت کے بعد محکمہ صحت سے فون آیا تھا۔ میں نے کہا کہ اب جان کر کیا کریں گے؟ آپ بھی یہ سب پوچھ کر کیا لکھیں گے؟ جانے دیجیے۔ مرنے کے بعد اب لوگ پوچھنے آ رہے ہیں!’
کشی نگر ضلع کے کھاگی منڈیرا کے شمبھو شرما بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے تین دہائی سےزیادہ وقت تک لکھنؤ میں مزدوری کر گزارے اور اپنے گھر کو چلایا۔ ادھر کچھ وقت سے گاؤں میں رہ رہے تھے۔ طبیعت خراب ہوئی تو پرائیویٹ ڈاکٹر سے دوا لی لیکن حالت میں سدھار نہیں ہوا۔ جانچ کروانے پر رپورٹ نگیٹو آئی، لیکن حالت میں سدھار نہیں ہوا۔
شمبھو شرما کے بیٹے اجئے بتاتے ہیں،’27 اپریل کو ان کا دم پھولنے لگا تو ہم لوگ انہیں لےکر پڈرونا میں ضلع اسپتال پہنچے۔ وہاں جانچ رپورٹ پازیٹو آئی۔ وہاں انہیں بھرتی کرانے میں کافی دقت ہوئی۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ جگہ نہیں ہے۔ اسپتال میں ان کا آکسیجن کبھی ٹھیک رہتا پھر اچانک گرنے لگتا۔ اسپتال میں اپنے آس پاس روز لوگوں کی موت سے ان کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔’
اجئے نے بتایا،‘انہوں نے کھانا پینا بھی کم کر دیا۔ آخرکار ایک مئی کو وہ ہم لوگوں کو چھوڑکر چلے گئے۔ اسپتال میں انتظام اچھا نہیں تھا۔ ڈاکٹر صرف دو بار آتے اور پھر چلے جاتے۔ ہر چیز کے لیے دقت تھی۔ علاج کے نام پر کورم پورا ہو رہا تھا۔ ہر ایک دو گھنٹے میں کوئی نہ کوئی مر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر پاپا کہنے لگے کہ ہم بھی مر جائیں گے۔’
اجئے کو لگتا ہے کہ اگروالد کو اسپتال نہیں لے گئے ہوتے تو ان کی جان بچ جاتی۔ وہ کہتے ہیں،‘اسپتال لے جاکر غلطی کر دیے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ گھر پر اگر آکسیجن کا انتظام ہو جاتا تو گھر پر ہی رکھتے۔’
آئندہ 26 مئی کو اجئے کے گھر میں بڑے بھائی راجیو کی شادی ہونے والی تھی۔ گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں لیکن اب وہاں ماتم ہے۔
اجئے روتے ہوئے کہتے ہیں،‘پاپا اکیلے کمانے والے تھے۔ ہم بی اے کرنے کے بعد بھرتی کی تیاری کر رہے تھے لیکن اب تک ہوا نہیں تھا۔ راجیو آئی ٹی آئی کر بےروزگار بیٹھا تھا۔ پاپا کہتے تھے کہ پانچ سال بھرتی کی تیاری کر لو۔ بھرتی نہیں ملی تو پھر کچھ کر لینا۔ وہ ختم ہو گئے۔ اب کون بھرتی دیکھےگا؟ اب تو گھر چلانے کے لیے کچھ تو کرنا پڑےگا۔’
گورکھپور کے بیتیاہاتا واقع پریم چند پارک کے پاس پان کی گمٹی لگانے والے 40 سالہ رنگی لال 27 اپریل کو گزر گئے۔ انہیں کورونا کے تمام آثارتھے لیکن جانچ رپورٹ نگیٹو آئی تھی۔ انہیں 25 اپریل کوضلع اسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا۔ضلع اسپتال نے انہیں بی آرڈی میڈیکل کالج ریفر کر دیا لیکن کسی اسپتال میں جگہ نہیں ملنے کی وجہ سے وہ یہیں پڑے رہے۔
رنگی لال کے بھائی پنی لال بتاتے ہیں،‘ضلع اسپتال کے ڈاکٹروں نے سیٹی اسکین کرانے کو کہا۔ 8500 روپے خرچ کر اسپتال کے باہر سیٹی اسکین کرایا۔ اسکین کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے رنگی لال کو بی آرڈی میڈیکل کالج ریفر کر دیا۔ ہم 26 اپریل کو پورے دن اسپتال سے اسپتال گھومتے رہے۔ بی آرڈی میڈیکل کالج میں بتایا گیا کہ جگہ نہیں ہے۔ کئی پرائیویٹ اسپتال میں گئے لیکن کہیں جگہ نہیں ملی۔ میڈیکل کالج روڈ پر واقع ایک اسپتال رپورٹ دیکھنے کے بعد بھرتی کرنے کو تیار ہو گیا لیکن بولا کہ آئی سی یو نہیں ملےگا۔ صرف آکسیجن دے پائیں گے لیکن اس کے لیے 50 ہزار روپے فوراً جمع کرنا ہوگا۔
پنی لال نے بتایا کہ ایسی حالت نہیں تھی کہ وہ یک مشت 50 ہزار روپے جمع کر سکیں۔ ضلع اسپتال میں کہا گیا کہ مریض کو ریفر کر دیا گیا ہے۔ یہاں پر کچھ ہوگا تو ذمہ داری اسپتال کی نہیں ہے۔ آخرکار رنگی لال کے لیے کہیں اسپتال کا انتظام نہیں ہو سکا اور انہوں نے ضلع اسپتال میں ہی دم توڑ دیا۔
پنی لال کہتے ہیں،‘ضلع اسپتال میں بھائی صاحب کا کوئی علاج نہیں ہو رہا تھا، صرف آکسیجن مل رہی تھی۔ تین دن میں کئی بار آکسیجن بھی بند ہو گئی تھی۔ آکسیجن نہ ملنے پر وہ اپھنانے لگے تھے۔ ڈھنگ کا علاج ملا ہوتا، تو جان بچ گئی ہوتی۔’
پریم چند پارک کے گیٹ پر پنی لال کا ٹی سٹال ہے۔ وہ بتاتے ہیں،‘جب پریم چند پارک نہیں بنا تھا تب سے رنگی لال کی پان کی گمٹی تھی۔ پہلے اس گمٹی پروالدبیٹھتے تھے۔والد کے عمردراز ہونے پر بڑے بھائی بیٹھنے لگے۔ بڑے بھائی کی اچانک موت کے بعد رنگی لال نے گمٹی سنبھالی۔
رنگی لال کے تین بچہ ہیں، جس میں سب سے بڑا بیٹا 15سال کا ہے، اس سے چھوٹا 12سال کا اور 8 سال کی بیٹی۔ جوان بیٹے رنگی لال کی موت کا صدمہ بوڑھے باپ برداشت نہیں کر سکے اور بیٹے کی موت کے پانچ دن بعد وہ بھی چل بسے۔
رنگی لال پریم چند پارک میں ہونے والے ادبی اور ثقافتی تقریبات میں گہری دلچسپی لیا کرتے تھے۔ پارک کے اندر واقع کتب خانہ کے انچارج بیج ناتھ مشر بتاتے ہیں،‘ہم لوگ جب یہاں ڈرامہ اسٹیج کرتے تو رنگی لال کرداروں کا ڈریس تیار کرتے اور رنگ منچ کا سامان جمع کرتے۔ اس کام میں انہیں بہت خوشی ملتی تھی۔’
کورونا مہاماری کی دوسری لہر میں آکسیجن، وینٹی لیٹر، بیڈ کی کمی اور ڈھنگ کا علاج نہ ملنےکی وجہ سے بے شمار لوگوں کی جان گئی ہے۔ ان میں رنگی لال، شمبھو شرما، ہیرالال، کنہیا جیسے سینکڑوں مزدور بھی ہیں جن کی داستاں اکثر درج نہیں ہوتیں۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کےمدیر ہیں۔)
Categories: خبریں