صرف اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں 98 صحافی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ مئی میں ابھی تک یہ تعداد 54تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی ہر روز اوسطاً تین صحافیوں کی موت ہو رہی ہے۔ کسی جنگ کو کور کرتے ہوئے بھی کبھی اتنی بڑی تعداد میں صحافی مار ے نہیں گئے ہیں۔
ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی کے قلب میں پریس کلب آف انڈیا اور پارلیامنٹ ہاؤس سے چند قدم کے فاصلے پر ایک میڈیا سینٹر ہے، جہاں سے اکثر رپورٹرز اپنی اسٹوریز فائل کرتے ہیں۔ جو رپورٹرز متواتر روزانہ یہیں سے کام کرتے ہیں، ان کے لیے سیٹیں خود بہ خود ہی ریزور ہوجاتی ہیں۔ اس سینٹر میں داخل ہوتے ہی آج کل ایک شاک سا لگتا ہے۔
آسام ٹریبیون کے دہلی کے بیورو چیف کلیان بروا، سینئر صحافی شیش نرائن سنگھ کے علاوہ کئی اور ساتھیوں کی سیٹیں خالی ہیں۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر جہاں پورے ہندوستان پر اس وقت قہر ڈھا رہی ہے، صحافیوں کے لیےیہ کچھ زیادہ ہی ہلاکت خیز ثابت ہو رہی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پرسیپشن اسٹڈیز کے مطابق اپریل سے ابھی تک 152جرنلسٹ کورونا وائرس کا شکا ر ہوکر موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران 291جرنلسٹ اس وبا کا شکار ہو کر داغ مفارقت دے گئے۔ کسی بھی صحافی کے لیے زیادہ دردناک صورتحال ہے کہ دنیا کو اسٹوریز سنانے والا خود ہی اسٹوری بن جائے۔
ساتھیوں کے اس طرح پچھڑنے کی وجہ سے میرا اعتماد بھی متزلزل ہو گیا ہے۔ میں خاصی پر امیدرہ کر مشکل حالات کا شدت سے مقابلہ کرکے یہی سوچتی ہوں کہ اگر اچھا وقت گزر گیا تو، برا بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔مگر ایسا لگتا ہے کہ برے دن ختم ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔
ہر روز کئی ہزارافراد ہلاک ہو رہے ہیں اور صورتحال پر نگاہ رکھ رہے ماہرین بھی اب یہ مان رہے ہیں کہ اس وبا کا خاتمہ جلد نہیں ہونے والا ہے۔ اس دوران جتنے ساتھی میں نے کھوئے ہیں، چند ایک تو مجھ سے بھی کم عمر تھے۔
صرف اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں 98 صحافی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ مئی میں ابھی تک یہ تعداد 54تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی ہر روز اوسطاً تین صحافیوں کی موت ہو رہی ہے۔ ملک کے ہرخطے سے دل دوز داستانیں سامنے لانے والے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔کسی جنگ کو کور کرتے ہوئے بھی کبھی اتنی بڑی تعداد میں صحافی مار ے نہیں گئے ہیں۔
حکومت ایک غیر تحریری پالیسی کے طور پر کورونا کی رپورٹنگ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اگر حکومت کے بس میں ہوتا تو وہ سبھی صحافیوں کو گھر پر بٹھا کر ان کو سرکاری پریس ریلیز کو ہی شائع کرنے کا فرمان جاری کرتی۔ تاہم یہ ان جری ساتھیوں کا کمال ہے، جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ملک کے اطراف سے کورونا سے ہوئی تباہی اور حکومت کی بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ پلاننگ کو دنیا کے سامنے لانے کا کام کرتے ہیں۔
ان کی تگ و دو سے روتے بلکتے لوگوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسپتالوں اور قبرستانوں میں جانے کا خطرہ اٹھایا جہاں متاثرہ افراد کے اہل خانہ بھی جانے سے ڈَر رہے تھے۔
اتنی زیادہ ہلاکتوں کی وجہ سے حال ہی میں اب ڈاکٹروں، پیرا میڈیکس اور سکیورٹی فورسز کی طرح، حکومت نے صحافیوں کو بھی فرنٹ لائن ورکرز کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ بتایا گیا کہ ان کو ترجیحی بنیاد پر ٹیکہ فراہم کیا جائےگا۔ مگر جب پورے ملک میں ہی ویکسین کی شدید قلت ہے اور بہت سارے افراد جو اپنی پہلی خوراک لینے کے بعد دوسری خوراک لینے کا انتظار کر رہے ہیں،یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کیا سبھی صحافیوں کو ویکسین مل پائے گی۔
سینئر صحافی شیش نارائن سنگھ سے میری ملاقات اکثر پریس کلب یا میڈیا سینٹر میں ہوتی رہتی تھی۔2015کے دہلی اسمبلی انتخابات کےنتائ کا جب اعلان ہو رہا تھا، تو ہم دونوں ایک ٹی وی شو کے مباحثہ کا حصہ تھے۔ وہ ایک تجربہ کار ٹی وی پینلسٹ تھے اور میرے لیے شاید یہ دوسرا یا تیسرا موقع تھا جب میں ٹی وی پر بحث میں حصہ لے رہی تھی۔ حالانکہ میں نے اپنا ہوم ورک اچھی طرح سے کیاہوا تھا، مگر پھر بھی گھبر ائی ہوئی تھی۔ شاید انہوں نے میری گھبراہٹ کو سمجھ لیا اور کہا، “فکر مت کرو۔ تھوڑا بہت ہوم ورک کرا ہے نا؟جب میں نے سر ہلا کر ہاں بولا، تو انہوں نے کہا، “بس میرے بغل میں بیٹھ جاؤ، میں سنبھال لوں گا۔“
اسی طرح سے کلیان بروا سے صوبہ آسام کی ایک دوست نے میرا تعارف کرایا تھا۔ وہ پارلیامنٹ میں لوک سبھا کی گیلری کے پاس وہ ہمیں لیموں کی چائے سے تواضع کرتے تھے اور ہم اشتیاق کے ساتھ ان سے سینٹرل ہال کی گپ شپ سنتے تھے۔ بطور سینئر صحافی ان کی سینٹرل ہال تک رسائی تھی۔ پچھلے مہینے صوبہ اتر پردیش کے ایک سینئر صحافی ونئے سریواستو ٹوئٹر پر اپنی زندگی کی بھیک مانگ کر مدد کی دہائی دے رہے تھے تاآنکہ انہوں نے دم توڑ دیا۔
یہ اموات ہمیں اس ملک کے امور کی قابل رحم صورتحال چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔ صحافیوں کے تو زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور حکومت میں اعلیٰ سطح پر روابط ہوتے ہیں۔ اگر ان پر ایسی افتاد آن پڑی ہے اور ان کو ایمبولینس اسپتال میں بیڈ، اور آکسیجن سیلنڈر و دیگر ضروریات کے لیے ایسی جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے، تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟
اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس مسئلہ کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہے ہیں۔ صوبے میں اب تک 35 صحافی کورونا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مہاراشٹرا، دہلی، مدھیہ پردیش، اڑیسہ اور تلنگانہ میں بھی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ یہاں بھی اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دہلی جیسا شہر، جہاں بہتر طبی سہولیات مہیا ہیں، ابھی تک 32 صحافی کورونا کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔ مہاراشٹر میں بھی 34 اموات ہوئیں ہیں۔
مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس، ہندوستان میں، صحافت ایک منظم شعبہ نہیں ہے۔ میڈیا کمپنیاں بڑے کاروباری گھرا نوں اور کارپوریٹس کی ملکیت ہیں۔ صحافیوں کو لاحق ڈیوٹی کے دوران خطرات کا وہ ذمہ نہیں لیتے ہیں۔علاقائی میڈیا میں کام کرنے والےصحافیوں کا تو خدا ہی حافظ ہے۔
اوسطاًایک صحافی کی موت سے مشتمل پانچ افراد کا ایک خاندان متاثر ہو جاتا ہے۔یہ صورت حال میڈیا اور آزادانہ رپورٹنگ کے لیے خاصی خطرناک ہے۔ہندوستان میں صحافی اس وقت نہ صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے بلکہ ملک کی اصل تصویر دکھا کر حکمرانوں کو آئینہ اور دنیا کو ہندوستان کے بے کس و بے بس عوام کی مدد کے لیے بھی آمادہ کررہا ہے۔ مگر کب تک…میڈیا سینٹر میں کلیان بروا کی سیٹ میرا منہ چڑا رہی ہے، جو نہ صرف خود کورونا کا شکار ہوگیا، بلکہ اس کی اہلیہ جو خود بھی ایک صحافی تھی ملک عدم کو روانہ ہوگئی۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر