ایک بڑے کاروباری ادارے کے مالک رام دیو کے نام ایمس کے ڈاکٹرکا کھلا خط۔
پیارے رام دیو یادو جی،
پہلی بات، سب سے پہلے تو یہ کہ میں آپ کے نام میں باباکا سابقہ نہیں لگا رہا ہوں ،اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ میرے لیے بابا لفظ فرید شاہ، بلہے شاہ اوررحمٰن بابا جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ میری نیک رائے یہ ہے کہ خودساختہ بابا ہونا(بابا گیری)آپ جیسے کامیاب بزنس مین کے لیےتماشے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میرے پیارے بابا، بابا فرید گنج شکر نے کبھی فرمایا تھا کہ اگر تم سنت /صوفی ہونا چاہتے ہوتوتمہیں بادشاہ کے خاندان سے دور رہنا چاہیے۔
بہرحال،میں آپ کے ذریعے حال ہی میں ایلوپیتھی اور اس کے معالجین کا مذاق اڑائے جانے پر آتا ہوں۔ میں آپ کےاس غیراعلانیہ طنز میں چھپےفریسٹریشن کو سمجھ سکتا ہوں۔ آخر ایک بیمارآدمی کسی بھی شفادینے والے کے لیے سب سے آسان داؤ ہوتا ہے۔
یہاں شفا دینے والے سے میری مراد شفا کے سارے طورطریقے والوں سے ہے، اس ملک کے کمزور بیمار، جسے سرکاروں نے حقیقت میں پرایا کر رکھا ہے، کو شفا دینے والے پیسہ لوٹنے کا موقع مان سکتے ہیں۔
کیونکہ آپ کو براہ راست اورآسان لفظوں میں بات کرنا پسند ہے تو یہ ویسا ہی ہے جیسے شکاری کتے کو گوشت کی مہک آ جائے۔ بےشک اس عالمی وبا نے ایسے شکاری کتوں کے لیےخاطر خواہ گوشت دستیاب کروایا ہے کہ آئیں اور دعوت اڑائیں۔ پر رام دیو جی، شکاری کتے بھی ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ وہ اپنی طاقت اور خاص بات یہ کہ اپنی حدوں اور کمزوریوں کی بھی عزت کرتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ شکاری کتوں سے بھی برے سیار ہوتے ہیں۔ وہ بزدل ہوتے ہیں جو بھوک کے وقت چیختے ہیں، غصے کے وقت چیختے ہیں، جو اپنے دشمن کو طاقتور جان کر چیختے ہیں اور نیم خوردہ لاشوں کو لےکر چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کم از کم سیاروں کی طرح تو نہ پیش آئیں!
آپ نے ایلوپیتھی اور ڈاکٹروں کی جس بیہودہ طریقے سے مذمت کی ہے، اس سے میرایہ اندازہ لگانا غلط نہیں ہوگا کہ آپ کے غرورکی حقیقی شکل اس وقت باہر آ گئی ہے، اور آپ اس میں بہہ گئے۔ آپ جیسےاحمق بزنس مین سے ایسے تبصروں کے علاوہ امید بھی کیا کی جا سکتی ہے!یا آپ اتنے نادان تھے کہ آپ کو میری برادری کے ردعمل کا کا احساس نہ ہو! مجھے نہیں لگتا کہ آپ اتنے بےوقوف ہیں یادو جی!
آپ کی طرح سب اپنی روٹیوں(مفادات)کی حفاظت کرتے ہیں، ڈاکٹرزبھی۔ آئیے، آپ کی ویڈیو میں کہی بات کو ریکارڈ میں درج کرتے ہیں، آپ کی ایلوپیتھی اور ڈاکٹرزکو لےکر کہی گئی باتیں غیرسائنسی تو تھیں ہی، آپ کی جہالت کی دلیل بھی دے رہی تھیں؛نفرت سے بھری جہالت۔ جب جہالت نفرت سے جڑتی ہے، اتنی خطرناک کیمیا بنتی ہے کہ نفرت کرنے والے کو بھی جھلسا دیتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ کی طرف سے ایسی جہالت میں نے کئی مواقع پر دیکھی ہے۔ پر اس کی بات آج کرنا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ پہلے سے ہی اپنے احمقانہ تبصروں کی وجہ سے اتنے دباؤ میں ہیں۔ تو بہتر ہے کہ یہ بات کریں کہ آپ میری برادری سے کیوں معافی مانگیں گے، اور وہ بھی تب جب پیشہ ور ایلوپیتھ ملک کے وزیر صحت سے آپ کی دوستانہ نزدیکیاں ہیں۔
آپ کے ذریعے ایلوپیتھی کی مذمت میں مجھےصرف آپ میں جانکاری کی کمی ہی نہیں،خودستائی(اپنے منھ میاں مٹھو)کی بھی جھلک مل رہی ہے۔ آپ اپنے آیوروید کے سائنس کے لیے اتنے جذباتی ہیں کہ مجھے آپ پر شک ہو رہا ہے۔ جذباتیت یعنی احساس برتری تعقل پسندی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔
کینسر جیسی سنگین بیماریوں کو ٹھیک کرنے کے آپ کے دعوے مضحکہ خیز ہیں رام دیو جی! آپ کو احساس بھی ہے کہ آپ کیسے پوری دنیا کے لیے مذاق کا موضوع بن گئے ہیں کہ آپ کئی ویڈیوز میں بلڈ کینسر کو ٹھیک کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟
ہاں، یہ ممکن ہے کہ بلڈ کینسر کے کچھ مریض آپ کی دیکھ ریکھ میں راحت پانے لگے ہوں، پر علاج کا ایسا پکا دعویٰ سراسر بیوقوفی سے کم نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کے ایسے دعووں کے پیچھے آپ کے اقتصادی مفادہیں، پر سوچیے، آپ کی اس ‘جذباتیت’سے آپ کو اور آپ کے 9500 کروڑ کی سلطنت کو کیا ملےگا! اس لیے میں آپ کو احتیاط برتنے کی صلاح دوں گا۔
بڑے بڑے دعوے چاہےآیوروید، ہومیوپیتھی، ایلوپیتھی ہی کیوں نہ کرے، کو جانچ اور توثیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ پر آپ کی یہ جذباتی فطرت آپ کے شعبے اورلفظوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ ہم سب شک کی دنیا کے باشندے ہیں۔ ڈاکٹروں سے سوال پوچھنا جائز ہے۔
لیکن سائنس کی کسوٹی پر کسے بنا ان کے کاموں کے بارے میں نتیجہ نکالنا گناہ ہے۔ مثال کے طور پر میرے بہت سے لیوراسپیشلسٹ دوست گلوئے کیمیا کے مہلک اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں، جس کا آپ کی جادوئی دوا کورونل میں استعمال ہونے کی جانکاری مجھے ملی ہے۔ وہ لیور پر گلوئے کے اہم ٹاکسک اثر دیکھ رہے ہیں۔ پر وہ اپنے نتائج کو جانچ رہے ہیں، وہ ان کی صداقت کے منتظر ہیں۔
اپنے نتائج کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے پہلے وہ اپنے ہی تصورات پر سوال اٹھا رہے ہیں، ایلوپیتھی ایسے ہی اپنا کام کرتی ہے رام دیو جی! ایسے ہی سائنس اپنا کام کرتا ہے۔ ایمانداری سے کہوں تو، میں جانتا ہوں کہ آپ کے دل میں کہیں ایلوپیتھی اور سائنس کے لیے بے حد عزت ہے۔
ورنہ آپ ہر بار کسی بیماری کے علاج کے دعوے کے وقت ایلوپیتھی کے ڈاکٹر کو اسٹیج پر کیوں بلاتے بھلا! میں نے بہت سارے ویڈیوز دیکھے ہیں جن میں آپ ڈاکٹرز سے اپنے دعووں کی تصدیق کرنے کے لیے کہتے ہیں! واقعی عجیب بات ہے!
یہ میرے اور آپ کے میدان کے بیچ کی لڑائی ہی نہیں ہے۔ اگر آپ کے مفاداقتصادی بھی ہیں تو سائنس اوردلیل کی جیت ہونی چاہیے۔ میں سائنس کے ساتھ ہوں، اور سائنس نے مجھے یہی سکھایا ہے کہ اپنےتصورات پر شک کروں، جذباتیت کو خارج کروں، اورحقائق کو جانچ کے لیے پیش کروں۔
میرا خیال ہے کہ اپنے شعبہ کے ایسے بےحدکامیاب بزنس مین کےطورپر آپ کو اپنے بزنس پر توجہ دینی چاہیے۔ آپ سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ سائنس اوردلیل کو آپ ہمارے لیے رہنے دیجیے،یاد رکھیے کہ تاریخ کسی کو نہیں بخشتی، چاہے وہ غیراخلاقی ڈاکٹرز ہوں،غیرمنصف حکمراں ہوں یا ڈھونگی بابا!
(ڈاکٹر شاہ عالم خان ایمس، نئی دلی کے آرتھوپیڈک ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر